چنئی کے اسکول نے امتحان کے پیپر میں احتجاج کرنے والے کسانوں کو ’’پرتشدد پاگلوں‘‘ کے طور پر بیان کیا

تمل ناڈو، فروری 21: چنئی کے ایک اسکول نے اپنے امتحان کے پرچے میں نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے کسانوں کو ’’بیرونی اشتعال انگیزی کے تحت کام کرنے والے متشدد پاگل‘‘ کے طور پر پیش کرنے کے بعد تنازعہ کھڑا ہوگیا ہے۔ پرچے میں مزید ٹریکٹر ریلی کے دوران پیش آنے والے واقعات کو بیان کرنے کے لیے ’’شیطانی تشدد‘‘ اور ’’ہنگامہ آرائی‘‘ جیسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔

دی نیوز منٹ کے مطابق 11 فروری کو ڈی اے وی بوائز اسکول میں منعقدہ دوسرے ریویژن امتحانات میں کلاس 10 کے انگلش لینگویج اینڈ لٹریچر پیپر کے سوال میں یہ جملے استعمال کیے گئے تھے۔ سوالیہ پیپر کے سیکشن کی ایک تصویر کو سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر گردش کیا جارہا ہے، حالاں کہ فوری طور پر یہ واضح نہیں ہوسکا کہ یہ سوال نامہ کس نے تیار کیا ہے۔

طلباء سے چنئی کے ایک روزنامہ کے ایڈیٹر کو اس کی مذمت کرتے ہوئے خط لکھنے کو کہا گیا تھا ’’شرپسندوں کی خوفناک تشدد کی وارداتیں، جو اس بات کا احساس کرنے میں ناکام ہیں کہ ذاتی ضرورت اور فوقیت سے پہلے ملک آتا ہے‘‘۔

سوال نامے کے سیکشن بی کے تحت تیار کردہ سوال میں لکھا گیا تھا ’’یوم جمہوریہ کے موقع پر قومی دارالحکومت میں ہونے والے شیطانی تشدد اور اس کے بعد زرعی قوانین کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کے ذریعے عوامی املاک کو تباہ کرنے اور ہنگامہ کارروائیوں اور پولیس پر حملوں نے شہریوں کے دلوں کو مذمت اور نفرت سے بھر دیا۔ اپنے شہر کے ایک روزنامہ کے ایڈیٹر کو ایک خط لکھیں اور شرپسندوں کی اس طرح کی خوفناک پرتشدد کارروائیوں کی مذمت کریں، جو یہ احساس کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں کہ ملک ذاتی ضروریات اور فوائد سے پہلے آتا ہے۔‘‘

اس سوال میں مزید کہا گیا ہے ’’عوامی املاک کو تباہ کرنا، قومی پرچم کی بےعزتی کرنا اور پولیس اہلکاروں پر حملہ کرنا ان متعدد غیر قانونی جرائم میں سے ہے، جو کسی بھی وجہ سے جائز نہیں ہوسکتے ہیں۔‘‘

ان مشاہدات کی بنیاد پر طلبا سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ ’’ایسے پرتشدد پاگلوں کو ناکام بنانے کے لیے کچھ اقدامات تجویز کریں جو بیرونی اشتعال انگیزی کے تحت کام کرتے ہیں۔‘‘

واضح رہے کہ ہزاروں کسان نئے زرعی قوانین کے خلاف لگ بھگ تین ماہ سے احتجاج کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ نئے قوانین ان کو کارپوریٹ اداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں گے اور ایم ایس پی کو ختم کرنے کی راہ ہموار کریں گے جو کہ ان کے لیے نقصان دہ ہے۔ کسانوں اور حکومت کے درمیان کئی دور کے مذاکرات اب تک اس تعطل کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں اور کسان تینوں قوانین کی مکمل منسوخی کے اپنے مطالبے پر قائم ہیں اور لگاتار احتجاج کر رہے ہیں۔