اسلام اور اسلامی فکر کو درپیش چیلنجز
اسلام کو عصری مسائل کے حل کے طور پر پیش کرنے کے لیے نئے زاویوں سے تحقیقات کی ضرورت
مرتب:وسیم احمد
انسان کودیگر مخلوقات پرجو فضیلت حاصل ہے، اس کا سب سے بڑا سبب ’علم‘ہے۔اسی لیے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے سے قرآن میں غورو فکر کرکے علم میں اضافہ کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ فرمایا گیا ’’افلا یتدبرون القرآن‘‘ یعنی قرآن میں کیوں تدبر نہیں کرتے‘‘۔ ایمان رکھنے والے محققین کی اصل بنیاد، اصل مرجع یہی کتاب اور وحی ہے جس میں غورو فکرکرکے نئے معانی تلاش کرنے کی کوشش کرنی چایئے۔اس کوشش کے نتیجے میں جیسے جیسے زمانہ ترقی کرے گا، نیا علم ہمارے سامنے آئے گا اور قرآن مجید کے نئے معانی منکشف ہوں گے۔ ہم میں سے ہر ایک اپنے حالات میں غور کرے اور اللہ کے احکام میں بھی غورکرے، اس سے نئے انکشافات ہوں گے۔موجودہ وقت میں سماجی علوم،سوشل سائنسس اور اس کے متعلقات کا یہی مقصد ہونا چاہیے کہ اللہ کے احکام میں غوروفکر ہو اور اللہ تعالی کی مرضی کے مطابق ایک بہتر دنیا، ایک بہتر سماج کی تشکیل کا کیا راستہ ہوسکتاہے؟انہیں تحقیقات کا موضوع بنایا جائے ۔
اسلامی احیاء اصلاً دو ہی چیزوں کا نام ہے۔ ایک ہے اسلامی علوم کا احیاء اور دوسرا ہے اسلامی اخلاق کا احیاء۔ ہمارا زوال، دراصل انہی دونوں چیزوں میں زوال کی وجہ سے ہوا ہے۔ اسلام اور اسلامی فکر کو درپیش چیلنجز کو سمجھنے کے لیے ان بنیادی باتوں کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔ دنیا میں جو تبدیلیاں ہورہی ہیں ان پر ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹکنالوجی ڈیولپمنٹ نے دنیا کو ایک نئی شکل دینے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ صنعتی انقلاب نے دنیا میں بڑی تبدیلیاں لائی، پہلے انسان گاؤں میں رہتا تھا۔ایک دوسرے کے ساتھ بہت ہی سادہ سا رابطہ تھا۔ صنعتی انقلاب نے یہ ساری چیزیں بدل دی۔ اس کے بعد ماس پروڈکشن (بڑے پیمانے پر پیداوار)کا دور شروع ہوا۔ اس کے لیے بڑے شہر وجود میں آئے۔ وسیع پیمانے پر نقل مکانی ہوئی،لوگ دیہاتوں سے نکل کر شہروں کی طرف منتقل ہونے لگے اور یہاں آکر نیا سماج بنانے لگے۔اس دنیا کو ہم’جدیدیت‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ جدیدیت کی اس دنیا میں نیا سیاسی رجحان آیا،جمہوریت، سیکولرزم، نیشنلزم کے نام سے نئے نظریات وجود میں آئے، جدید دنیا کی اقتصادیات کے لیے کیپٹلزم، کمیونزم جیسے تصورات نے جنم لیا۔اس طرح ایک نئی دنیا، نیا سماج، نئی تہذیب او ر نئے نظریات کو اس صنعتی انقلاب نے جنم دیا۔ اب کہا جارہا ہے کہ صنعتی انقلاب سے بھی بڑا انقلاب ہمارے دروازوں پر دستک دے رہا ہے۔ یہ جو دنیا میں ’بگ ڈاٹا‘ یا ’اسٹریم سرویلنس‘ ہے،جس سے آپ کی ایک ایک نقل و حرکت کی نگرانی کرنا ممکن ہوگیا ہے،اس سے آگے بڑھ کر جینٹک ٹکنالوجی، بایو ٹکنالوجی انقلا ب کے نتیجے میں انسان کے دماغ کے اندر داخل ہونا ممکن ہوگیا ہے،اسی طرح کرپٹو کرنسی اور اس کا جو متبادل فائننشل ٹولس آگئے ہیں،یہ سب چیزیں دنیاکو ایک نیا وجود بخش رہی ہیں۔
جب ہم اسلامی فکر کو درپیش چیلنجوں کی بات کرتے ہیں تو یہ تمام تبدیلیاں ہمارے سامنے رہنا ضروری ہے کہ جس طرح جدیدیت نے نئے نظریات کو وجود بخشا ہے اور ایک نئی تہذیب پیدا کی ہے۔اسی طرح یہ ٹکنالوجیز بھی ایک نئی دنیا پیداکریں گی۔اب ماڈرنیٹی (جدیدیت)کے زمانے کے نظریات،ادارے اور ضابطے دنیا میں چلنے والے نہیں ہیں بلکہ ایک نئی چیز اور نئے نظامِ اقدار کی دنیا کو ضرورت ہوگی۔ وہ چیز کیا ہوگی؟ اس سلسلے میں بہت سی باتیں کہی جاتی ہیں۔ ایک بات یہ کہی جارہی ہے کہ اس میں مذہب کی بڑی اہمیت ہوگی ۔ ٹونی بلیئر کا ایک قول مشہور ہے کہ ’’بیسویں صدی میں جو مقام سیاسی نظریات کو حاصل تھا،اکیسویں صدی میں وہی مقام اور اہمیت مذہب اور مذہبی قدروں کوحاصل ہوگی‘‘۔ ان حالا ت میں ہمارے سامنے نظریاتی چیلنجز ہیں۔ یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ چیلنجز کے ساتھ مواقع بھی ہوتے ہیں۔ چیلنجز کو ہم دیکھیں گے تو مواقع کو بھی دیکھیں گے۔ان حالات میں ہمارے اسلامی فکر کے لیے کیا مواقع ہیں؟ یہ جاننا ضروری ہے۔ ایک بڑا موقع یہ ہے کہ مذہب اور مذہبی تعلیمات کی طرف دنیا کی توجہ غیر معمولی طور پر بڑھی ہے اور آئندہ مزید بڑھے گی۔ جو لوگ اسلامی مطالعہ سے تعلق رکھنے والے ہیں یا مذہبیات پر ریسرچ کررہے ہیں، ان کے سامنے ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ مذہب کی اہمیت کو بہت وضاحت کے ساتھ دنیا کے سامنے لے کر آئیں اور اسلامی روحانیت سے متعلق جو سوالات دنیا میں پیدا ہوئے ہیں،ان کے جوابات تلاش کریں۔ انیسویں یا بیسویں صدی میں دنیا کا سارا زور آئیڈیالوجی اور نظریات پر تھا۔ اس زمانے میں اسی آئیڈیالوجی کو اڈریس کرنے کی کوشش کی گئی۔مولانا مودودیؒ، سید قطبؒ، مولانا علی حسن ندویؒ جیسے بزرگوں نے آئیڈیا لوجیز کو اڈریس کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے وضاحت کے ساتھ بتایا کہ کمیونزم کی کیا خرابیاں ہیں،کیپٹلزم اور سیکولرزم کی کیا خرابیاں ہیں، اس کے مقابلے میں اسلامی فکر کیسے انسانی مسائل کو حل کرسکتی ہے۔ جب آپ قرآن و حدیث اور وحی کی روشنی میں سماجی مسائل میں غور کریں گے توایک نیا نمونہ (پیراڈائم) وجود میں لائیں گے۔ لہٰذا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تحقیقات کا عمل آگے بڑھنا چاہیے اور ٹکنالوجی میں ترقی کرکے درپیش چیلنجز کا حل اور اس کا جواب ہمیں تلاش کرنا چاہئے‘‘۔ اس سلسلے میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی ایک علمی و فکری تحریک پیدا کرنے والی تحریر آج زیادہ اہم ہوگئی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’کب اسلام دنیا کا رہنما بن سکتا ہے؟ تو اس کی بس یہی ایک صورت ہے کہ مسلمانوں میں ایسے مفکر اور محقق پیدا ہوں جو فکرو نظر اور تحقیق و اکتشاف کی قوت سے ان بنیادوں کو ڈھادیں جن پر مغربی تہذیبی عمارتیں قائم ہوئی ہیں‘‘۔ آج نوجوانوں میں ایسے ریسرچ اسکالرس پیدا ہونے کی ضرورت ہے جو قرآن کے فکرو نظر پر حقائق کی جستجو و تلاش کرکے ایک نئے نظام فلسفہ کی بنیاد رکھیں جو خالص اسلامی فکر کا نتیجہ ہو۔
***
***
یہ مضمون امیر جماعت اسلامی ہند جناب سید سعادت اللہ حسینی کی ایک تقریر پر مبنی ہے۔ انہوں نے یہ تقریر ’سینٹر فار اسٹڈی اینڈ ریسرچ (سی ایس آر) کی جانب سے علم و تحقیق کو اسلامی رخ دینے اور اس ضمن میں درکار ضروری تیاری کے لیے کی جانے والی کوششوں کے تعارف کے لیے ’Orient evolve Impact transform‘کے زیر عنوان منعقدہ ایک سہ روزہ انٹریکٹیو ورکشاپ و سمینارمیں کی تھی جس میں ملک و بیرون ملک کے ساٹھ سے زیادہ علمی ماہرین، ریسرچ اسکالرس اور دانشوروں نے شرکت کی ۔ سی ایس آر ایک خود مختار ادارہ ہے جو علم کی نئی جہات کو تشکیل دینے اور علم کو حقیقی نافع رخ دینے کے لئے 2012 میں وجود میں آیا تھا۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 24 تا 30 اپریل 2022