سیل فون و انٹرنیٹ :فکری بے راہ روی کا طوفان

عصری ٹکنالوجی کو محض مفید استعمال تک محدود رکھیں۔نئی نسل کو ذہنی و جسمانی امراض کے وسائل سے بچانے کی ضرورت

فاروق طاہر۔ حیدرآباد

دیتے ہیں سراغ فصل گل کا، شاخوں پر جلے ہوئے بسیرے
اس مضمون میں موبائل فون کی تباہ کاریوں کا احاطہ کیا گیا جسے پڑھ کر آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ ہر صاحب اولاد اس تحریر کو ایک بارضرور پڑھے۔مجھے تو یہ ٹیکنالوجیکل پروگریس (ٹیکنالوجی کی ترقی) نہیں بلکہ انٹیلیکچول ڈیلکوئنسی (فکری بے راہ روی) معلوم ہوتی ہے۔ رفتہ رفتہ سب ٹیکنالوجی کے غلام بنتے جا رہے ہیں۔ کبھی پڑھا تھا کہ جمشید نامی بادشاہ اپنے جام میں ساری دنیا کا نظارہ کرتا تھا۔ آج بچے بوڑھے سب اپنے موبائل اسکرینوں پر ہوش ربا نظاروں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں گویا موبائل نہیں بلکہ ان کے ہاتھ کوئی کھلونا آگیا ہو۔ بوریت دور کرنے کی چکر میں مخرب اخلاق ویب سائٹس پر حاضری لگانا اب بچے اور بوڑھے کسی کے لیے بھی باعث عار نہیں رہا۔ افراد خاندان سے سیدھے منہ بات نہ کرنے والے فرضی (آن لائن) دوستیاں اور رشتہ داریاں نبھاتے نہیں تھکتے۔ کسی بھی نا معلوم شخص سے اس کی حقیقت جانے بغیر رشتہ استوار کر لیتے ہیں نتیجتاً رسوائی، مایوسی، ذہنی و فکری الجھنوں اور پریشانیوں کے بندھ کھل جاتے ہیں۔ فرضی رشتوں کے فریب پر پھر ایک بار کھوکھلی آن لائن دنیا کے آگے ٹسوے بہا کر ہمدردیاں بٹورنے کے جتن کرتے ہیں۔ طلبہ کو پڑھائی، مارکس اور غیر صحت مند مسابقت نے ڈپریشن کا شکار کر دیا ہے۔ نو عمری میں دباو، اکیلے پن کے شکار بچے کسی دردمند کو نہ پا کر انٹرنیٹ و سوشل میڈیا کی خرابیوں سے لذت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جذباتی ہیجان و خلجان میں مبتلا بچے جھوٹی تسلیوں اور مکار رشتوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ریا و نمود، اسٹیٹس، گلیمر و سنسنی خیزیوں کی چکر میں اپنا مستقبل داو پر لگا بیٹھتے ہیں۔انٹرنیٹ و آن لائن دنیا کے ہاتھوں بچوں میں فکری بے راہ روی خوب پروان چڑھ رہی ہے۔مشتے نمونہ از خروارے، گزشتہ دو مہینوں کے دوران طلبہ کی جانب سے انجام دیے گئے کئی ایک پرتشدد واقعات میں سے چند واقعات پیش کر رہا ہوں۔
29 ستمبر 2022ء کو دلی کے ایک اسکول میں دسویں جماعت کے پانچ طلبہ نے منصوبہ بنایا اور آن لائن چاقو خرید کر اپنے ایک ساتھی کا قتل کر دیا۔ (ٹائمز آف انڈیا)
19 ستمبر 2022ء کو دلی کے سیلم پور علاقے میں پیش آئے ایک خوفناک واقعہ نے سبھی کے دل و دماغ کو ماوف کر دیا جب ایک دس سالہ لڑکے ساتھ دس سے بارہ سال کی عمر کے تین لڑکوں نے (جس میں مقتول کا رشتے کا بھائی بھی شامل تھا) جبراً بد فعلی کی۔ اس کے مقعد میں لوہے کی سلاخ گھسیڑ دی اور اینٹوں سے مار مار کر شدید زخمی کر دیا۔ بعد ازاں یہ معصوم دوران علاج دواخانے میں فوت ہو گیا (ہندوستان ٹائمز)۔
چند دنوں قبل الکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ریاست جھارکھنڈ کے دمکا علاقے کے ایک رہائشی اسکول کی ویڈیو بہت تیزی سے وائرل ہوئی ہے۔ جس میں نویں جماعت کے طلبہ نے اپنے ریاضی کے استاد کو مبینہ طور پر پراکٹیکل امتحان میں خراب نمبر دینے پر برہم ہو کر درخت سے باندھ کر پیٹا (انڈین ایکسپریس)۔
24 ستمبر 2022ء کے ایک اور واقعہ میں دسویں جماعت کے ایک طالب علم نے اپنے ساتھی طالب علم کے ساتھ جھگڑنے پر استاد کی ڈانٹ سے ناراض ہو کر استاد پر فائر کر دیا۔ ملزم طالب علم استاد پر تین راؤنڈ فائر کرنے کے بعد بندوق لے کر فرار ہو گیا (این ڈی ٹی وی ڈاٹ کام)
طلبہ کے کمرہ جماعت میں مہلک ہتھیار ساتھ لانے، اساتذہ کو جان سے مار دینے کی دھمکیوں کے واقعات میں آئے دن اضافے سے فکر مند تمل ناڈو ہائر سکنڈری اسکول ہیڈ ماسٹرس اسوسی ایشن نے اساتذہ کے تحفظ کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے قانون سازی کا مطالبہ کرتے ہوئے دھرنا دیا
(ٹائمز آف انڈیا)
یہ سب کیا ہو رہا ہے؟
گزشتہ چند سالوں سے تعلیمی نظام غیر محسوس طریقے سے تاجرانہ آن لائن ایجوکیشنل کمپنیوں کے زیر تسلط ہوتا چلا جا رہا ہے۔ کورونا وبائی دور میں مدارس خوفناک زہریلے پروپیگنڈے کی وجہ سے تقریباً دو سال تک بند رہے جس کی وجہ سے بچے اپنے گھروں میں محصور ہو کر سماجی زندگی سے دور ہو گئے۔ انسانی نفسیات میں یہ بات شامل ہے کہ کوئی شئے اگر مفت میں مل جائے تو پھر وہ اس کا غلط استعمال ضرور کرتا ہے۔ معاشرے کے کئی مسائل مفت خوری کی نفسیات سے معرض وجود میں آئے ہیں۔ مفت میں زہر بھی مل جائے تو لوگ پینے سے دریغ نہیں کرتے۔ استحصالی تاجرانہ نظام (جس میں تعلیم بھی شامل ہے) مفت خوری کی نفسیات کو عیاری سے استعمال کرتے ہوئے دنیا کو اپنے شکنجے میں جکڑ رہا ہے۔ سال 2014ء میں سستے موبائل ڈیٹا پلان کے آغاز کے بعد سیل فون ہر بچے کے ہاتھ میں آ گیا۔ تین سالہ بچے کو سیل فون چلاتا ہوا دیکھ کر معصوم والدین کی باچھیں کھل جاتی ہیں ’’واہ! ہمارا بچہ کتنا ٹیک سیوی ہے‘‘۔ کریلا نیم چڑھا کے مصداق وبائی دور نے انٹرنیٹ، موبائل اور دیگر ذرائع ابلاغ تک رسائی میں جتنی بھی رکاوٹیں حائل تھیں انہیں ایک جھٹکے میں دور کر دیں۔ ابتداً آن لائن تعلیم والدین اور دیگر افراد کو بہت دلکش اور ترقی یافتہ معلوم ہو رہی تھی لیکن لاک ڈاون کے بعد والدین کو آن لائن تعلیم کے نام پر بچوں کے ہاتھوں میں دیے گئے سیل فونز کی خباثتوں کا حقیقی ادراک ہوا۔ حالیہ واقعات کی روشنی میں انٹرنیٹ ڈیٹا سے لیس موبائل فونز معاشرے کے لیے ایک بڑے خطرے کا پیش خیمہ ثابت ہو رہے ہیں۔ اللہ کرے کہ یہ اندیشے، اندیشے ہی رہیں حقیقت کا روپ دھار نہ پائیں لیکن حقیقت سے آنکھیں چرانا بھی حماقت نہیں تو اور کیا ہے؟ دماغ کا اگلا حصہ پری فرنٹل کورٹیکس (Pre Frontal Cortex) جذباتی کنٹرول اور خود پر قابو پانے میں مددگار ہوتا ہے۔ پچیس سال سے پہلے اس کی مکمل نشوونما نہیں ہوتی ہے۔ پچیس سال سے کم عمر کے افراد جذبات پر کنٹرول، خود پر ضبط، جذبہ احتساب، صواب دید، صلاح و مصلحت شناسی کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شراب اور بالغ فلمیں وغیرہ بچوں کے لیے ممنوع ہیں۔ مسرت و لذت کا لطیف فرق حصول لذت کو ایک نشہ قرار دیتا ہے۔ حصول لذت میں مگن نوخیز نسل موبائل فونز و انٹرنیٹ کے منفی استعمال سے معاشرے کے اخلاقی اقدار کے بخیے ادھیڑ رہی ہے۔ سل فون ملیریا، ڈینگی کے مچھر سے بھی زیادہ زہریلا ہے۔ اس کے زہریلے اثرات کے نفسیاتی، معاشرتی و جسمانی عوارض اور جرائم کی تباہ کن داستانیں اب منظر عام پر آنے لگی ہیں۔ سیل فون کی عادت نے بچوں کو احساس ذمہ داری سے محروم کر دیا ہے۔ عریاں مواد، فحش فلمیں، پر تشدد ویڈیوز اور تضیع اوقات والے گیمز سے اخلاقی بحران پیدا ہو رہا ہے۔ واٹس ایپ، انسٹاگرام گروپس تشکیل دے کر بچے ایک دوسرے کی تضحیک و تذلیل اور بہتان طرازی جیسے برے کاموں میں وقت برباد کر رہے ہیں۔ مار دھاڑ، قتل، خودکشی، عصمت دری، ہم جنس پرستی، خاندان کو فراموش کرنا، ماں بہن کے ساتھ جنسی تعلق، شراب نوشی، سگریٹ، حقہ، چرس و دیگر منشیات کا استعمال، انٹرنیٹ بچوں کو یہی تو سکھا رہا ہے۔ لاکھوں بچے پہلے ہی ان برائیوں میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ماہرین نفسیات بھی ان کا علاج کرنے سے عاجز ہیں۔
والدین کو خوش فہمی ہے کہ ان کے بچے بہت معصوم ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے پاس طلبہ کی فلاح و بہبود کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ ان کی فلاح بہبود کے بعد کیا انہیں ووٹ مل سکتے ہیں؟ اسی فکر نے انہیں اس سے کوسوں دور رکھا ہے۔ بچوں کے موبائل فون استعمال کرنے سے سیل فون اور سافٹ ویئر کمپنیوں کی کروڑوں روپیوں کی تجارتیں چل رہی ہیں۔ سیل فونز، ہارڈویئر، ڈیٹا پلانز چھوڑ کر صرف آن لائن گیمنگ کا کاروبار ہی ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ اگر بچے موبائل فونز استعمال کرنا چھوڑ دیں تو یہ سارا کاروبار چوپٹ ہو کر رہ جائے گا۔ہمیں اپنی نوخیز نسل کو تباہی سے بچانے کے لیے ان امور پر سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا۔ عوامی تحریکات و مہمات چلانے ہوں گے۔ نوجوان ملک کا مستقبل ہوتے ہیں۔ اگر یہ محفوظ رہیں گے تو ملک محفوظ رہے گا۔
آپ کے ذہن میں ابھرنے والے سوال کا مجھے بخوبی احساس ہے۔ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم بچوں کو سیل فون کیوں نہ دیں؟ کیا ہم بچوں کو ٹیکنالوجی سے دور کر دیں؟ بچوں کو سیل فون نہ دینے کی احمقانہ بات آپ بھلا کیسے کر سکتے ہیں؟
میرے عزیز بھائی میں نے بھلا کب کہا کہ آپ کے بچے ٹیکنالوجی سے دور ہو کر پتھر کے دور میں چلے جائیں۔ چھری سے پھل، سبزی ترکاری کاٹنے کے علاوہ کسی کا گلا بھی کاٹا جا سکتا ہے۔ اسی لیے کہتا ہوں کہ صرف معلومات نہیں بچوں کی تربیت پر بھی توجہ مرکوز کریں۔ علم و تربیت کے مجموعہ کا نام ہی تعلیم ہے۔ ٹیکنالوجی ہماری غلام ہے۔ ہم ٹیکنالوجی کے غلام کیسے بن سکتے ہیں؟ گھر اور اسکول میں ڈیسک ٹاپ پر چائلڈ سیفٹی لاک لگائیں۔ والدین اور اساتذہ اپنی نگرانی میں بچوں کو انٹرنیٹ سے مطلوبہ معلومات حاصل کرنے میں مدد کریں۔ ڈیسک ٹاپ کے بجائے اگر آپ انہیں سیل فون تھما دیں گے تو وہ اپنی بلانکٹ میں، حمام میں یا کسی اور مقام پر دروازے بند کرتے ہوئے فحش مواد (بلیو پکچرس) دیکھیں گے، پرتشدد ویڈیوز دیکھنے کے عادی ہو جائیں گے۔ گیمز بھی بچوں کو تشدد پر ابھار رہے ہیں۔ لاکھوں بچے پہلے ہی اس دلدل میں دھنس چکے ہیں۔ اپنی اولاد کی حفاظت کیجیے۔ سیل فون کی لت لاکھوں بچوں کے دماغ کو نقصان سے دوچار کر رہی ہے۔ دماغ میں پائے جانے والے گرے مادے (Grey Matter) اور سفید مادے (White Matter) کے خراب ہونے کی وجہ سے بچے ADHD جیسے دماغی امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔
لاکھوں بچے سیل فون کی نیلی روشنی (بلیولائٹ) کی وجہ سے مکمل یا جزوی طور پر اپنی بینائی سے محروم ہو رہے ہیں۔ سیل فون پر ویڈیو گیمز کھیلنے سے گیمر کے انگوٹھے، ٹرگر انگلی، کارپل ٹنل سنڈروم (Carpal Tunnel Syndrome)، ٹینس ایلبو، کندھے گرنے اور سر گرنے (سنڈروم) جیسے امراض میں کا شکار ہو سکتے ہیں۔ایک یا دو نہیں پوری دنیا میں لاکھوں بچے اس تباہ کن راستے پر چل پڑے ہیں۔ موبائل فون بچوں کے ہاتھوں میں ایک ٹائم بم سے کم نہیں ہے۔ یہ آج نہیں تو کل یا پرسوں ایک دن ضرور پھٹ کر رہے گا۔ سوچیے کہ تب کیا ہو گا؟ یہ سوال مجھے اور ہر اس شخص کو جو بچوں کے مستقبل کے لیے فکر مند ہے، پریشان کر رہا ہے۔
حیدرآباد کے چندا نگر کے علاقے کی نویں جماعت میں زیر تعلیم لڑکی نے اپنے ماں سے پیٹ میں درد کی شکایت کی تو اسے دواخانہ لے جایا گیا۔ ڈاکٹر نے جب بتایا کہ لڑکی حمل سے ہے تو والدین کے اوسان خطا ہو گئے۔ صدمے سے دوچار والدین کو آخر کار سمجھ میں آیا کہ ان کا بیٹا جو انٹر سال دوم میں پڑھ رہا تھا، اس نے اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ جو وہ دونوں ایک ہی کمرے میں سوتے تھے جنسی تعلق قائم کر لیا۔ کھوکھلی لذت کے حصول میں متعدد بے راہ رویوں کا شکار ہو کر بچے بہنوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے سے بھی اعراض نہیں کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ و سوشل میڈیا کی دنیا میں برائیوں کو فخریہ پیش کرنے کا رجحان بچوں میں کسی مہلک متعدی بیماری کی طرح تیزی سے پھیل رہا ہے۔موبائل فون کس قدر مفید اور کس درجہ خطرناک ہے یہ جانے بغیر ہم اسے بڑے چاو سے اپنے بچوں کے ہاتھ میں تھما رہے ہیں کہ یہ ان کے کام آئے گا۔ ہم یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ہمارے بچے بہت اچھے ہیں۔ ہم ان کی بہتر پرورش کر رہے ہیں لیکن کیا حقیقت میں ایسا ہو رہا ہے؟ کیا ہمارے بچوں میں اور ہمارے افراد خاندان میں اتنی مہارت اور خود ضبطی کی کیفیت پائی جاتی ہے کہ وہ آن لائن دنیا کی برائی اور فحاشی کی سونامی سے خود کو بچا سکیں؟ نیکی و بدی کا فرق سمجھتے ہوئے خود کو بہتر بنانے والے نئے نظریات، مفید و تعمیری علوم سیکھ سکیں؟ کیا آپ نے کبھی اس جانب توجہ دی کی کہ اس وقت آپ کے بچوں کے موبائل میں کیا چل رہا ہے؟ اگر آپ کو اپنے بچوں پر اتنا اعتماد ہے تو پھر ان کے موبائل فونز ان کے فیس بک اکاونٹ، واٹس ایپ، انسٹا گرام، اسکائیپ، اسناپ چاٹ، ای میل اکاونٹس وغیرہ کو ایکٹیویٹ کرتے ہوئے ایک ہفتے تک اپنے پاس رکھیں۔ اللہ کرے کہ آپ کے یقین قائم رہے، آپ کو خیر و شر کا علم ہو جائے گا۔ سروے کے چونکا دینے والے اعداد وشمار کے ہر دن ملک میں مفت موبائل ڈیٹا پر فحش مواد جنسی ویڈیوز دیکھنے والوں کی اوسط تعداد 68 فیصد ہے۔ جن میں 21 فیصد مرد جب کہ 47 فیصد خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ ہر 22 منٹ میں ایک عورت کی عصمت لوٹی جاتی ہے۔ 99.1 فیصد عصمت دری کے واقعات پردہ اخفاء ہی میں رہتے ہیں (ون انڈیا ڈاٹ کام) نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق 2021ء میں بھارت میں ریپ کے 31677 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں (دی ہندو 31 اگست 2022) والدین کو ان حالات میں بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ماں باپ اپنے بچوں کے سامنے محبت کے اظہار، اشارات، ذو معنیٰ الفاظ کے استعمال اور کسی قسم کی جنسی حرکتیں کرنے سے باز رہیں تاکہ اخلاقی ومعاشرتی اقدار برقرار رہیں۔
بچے بڑے معصوم، بے ضرر اور نرم خو ہوتے ہیں لیکن سیل فونس بچوں کو چائلڈ مونسٹر بنا رہے ہیں۔ اپنے بچوں کو موبائل فون کی لت سے بچائیے۔ والدین، اساتذہ، اسکول انتظامیہ اور بچوں کی فلاح و بہبود اور تعلیمی کاز سے وابستہ افراد کی یہ اجتماعی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو پھر بچے بے دریغ جرائم کا ارتکاب کرنے لگیں گے۔ پھر کوئی ماں، باپ، استاد اور کوئی بچہ محفوظ نہیں رہے گا۔
[email protected]
9700122825
***

 

***

 لاکھوں بچے سیل فون کی نیلی روشنی (بلیولائٹ) کی وجہ سے مکمل یا جزوی طور پر اپنی بینائی سے محروم ہو رہے ہیں۔ سیل فون پر ویڈیو گیمز کھیلنے سے گیمر کے انگوٹھے، ٹرگر انگلی، کارپل ٹنل سنڈروم (Carpal Tunnel Syndrome)، ٹینس ایلبو، کندھے گرنے اور سر گرنے (سنڈروم) جیسے امراض میں کا شکار ہو سکتے ہیں۔ایک یا دو نہیں پوری دنیا میں لاکھوں بچے اس تباہ کن راستے پر چل پڑے ہیں۔ موبائل فون بچوں کے ہاتھوں میں ایک ٹائم بم سے کم نہیں ہے۔ یہ آج نہیں تو کل یا پرسوں ایک دن ضرور پھٹ کر رہے گا۔ سوچیے کہ تب کیا ہو گا؟ یہ سوال مجھے اور ہر اس شخص کو جو بچوں کے مستقبل کے لیے فکر مند ہے، پریشان کر رہا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 اکتوبر تا 05 نومبر 2022