ذات پر مبنی مردم شماری کی مخالفت سب سے بڑی نسل پرستی

ملک میں ہر چیز ذات کی بنیاد پر طے ہوتی ہے تو مردم شماری سے حکومت کو پریشانی کیوں؟ ذاتوں اور او بی سی کی تعداد جانے بغیر ریزرویشن اور یکساں ترقی کیسے ممکن ؟

افروز عالم ساحل

گزشتہ دنوں مانسون اجلاس کے دوران آئین کا 127واں ترمیمی بل 2021 پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں متفقہ طور پر منظور ہوا۔ اس بل کی منظوری کے بعد ریاستی حکومتوں کو یہ حق مل گیا ہے کہ وہ سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ ذات کی شناخت کرنے کے بعد اگر ضروری ہو تو اسے سماجی انصاف کا حقدار قرار دے کر اس مخصوص ذات کو ریاست کی دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) کی فہرست میں شامل کر سکیں گے اور انہیں اپنی مرضی کے مطابق ریزرویشن دے سکیں گے۔ اس نئے قانون کے بعد مہاراشٹر سمیت کئی ریاستوں کو مقامی سطح پر ذاتوں کو او بی سی ریزرویشن کی فہرست میں شامل کرنے کا موقع ملے گا کیونکہ حال ہی میں سپریم کورٹ کی جانب سے مراٹھا ریزرویشن پر روک لگادی گئی تھی اس کے بعد جون کےمہینے میں مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کر کے آئین میں ترمیم کا مطالبہ کیا تھا۔ ساتھ ہی دیگر اپوزیشن جماعتوں کے قائدین نے بھی اس آئینی ترمیم کا مطالبہ کیا تھا۔

یہ مطالبہ اب قانون بن چکا ہے۔ اس موقع پر وزیراعظم نریندر مودی نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’دونوں ایوانوں میں اس بل کی منظوری ہمارے ملک کے لیے ایک اہم لمحہ ہے ۔ یہ بل پسماندہ سماج کو بااختیار بنانے میں اگلے مقام تک لے جائے گا، یہ بل ان کے وقار کو بلند کرنے اور ان کے لیے حصول انصاف کو یقینی بنانے کے علاوہ حکومت کے عزم کی عکاسی بھی کرتا ہے‘

لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ یہی حکومت ذات پر مبنی مردم شماری سے بھاگ رہی ہے۔ لوک سبھا میں مملکتی وزیربرائے امور داخلہ نتیانند رائے نے ایک سوال کے جواب میں صاف طور پر کہا ہے کہ حکومت اپنی پالیسی کے مطابق ذات پات پر مبنی مردم شماری نہیں کرائے گی۔ حکومت کا ذات پات پر مبنی مردم شماری کرانے کا ارادہ قطعی نہیں ہے۔ ایسے میں یہ سوال اہم ہے کہ جب حکومت کے پاس او بی سی کے متعلق اعداد وشمار ہی نہیں ہوں گے تو ریاستی حکومتیں او بی سی ریزرویشن کے لیے ذاتوں کی فہرست کس بنیاد پر تیار کریں گی۔ جبکہ آئین کے 127ویں ترمیم بل 2021 پر بحث کے دوران بھی کانگریس سمیت کئی پارٹیوں نے مرکزی حکومت سے ذات پر مبنی مردم شماری کرائے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔

خیال رہے کہ مرکزی حکومت نے او بی سی ریزرویشن کو دو یا دو سے زیادہ زمروں میں تقسیم کرنے کے منصوبے پر 2 اکتوبر 2017 کو جسٹس جی روہنی کی سربراہی میں ایک کمیشن تشکیل دینے کا اعلان کیاتھا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ ریزرویشن کے فوائد دیگر پسماندہ طبقات میں شامل ذاتوں میں ’’جائز اور منصفانہ طریقے سے‘‘ تقسیم ہو رہے ہیں یا نہیں۔ اس کمیشن کو 27 مارچ 2018 سے پہلے اپنی رپورٹ پیش کرنا تھا لیکن اسے اب تک گیارہ بار توسیع دی گئی اور اب تازہ خبر یہ ہے کہ اس رپورٹ کو پیش کرنے کے لیے مزید ایک سال کا وقت لگے گا، تب تک تو یو پی اسمبلی کے انتخابات ختم ہو چکے ہوں گے۔

سینئر صحافی دلیپ سی منڈل کا کہنا ہے کہ روہنی کمیشن کو اپنا کام کرنے کے لیے اعداد وشمار کی کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ اسے جو کام سونپا گیا ہے اس کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ یہ کمیشن ذات پر مبنی مردم شماری کے اعداد وشمار کے بغیر اپنا کام مکمل کر پائے گا۔ اس لیے اگر حکومت واقعی انتہائی پسماندہ طبقات کو انصاف مہیا کرانا چاہتی ہے تو پھر اسے ذات پر مبنی مردم شماری کرانی ہی پڑے گی۔

گزشتہ ۱۲ سالوں سے بامسیف اور مول نواسی سنگھ جیسی تنظیموں میں قومی قیادت کے عہدوں پر فائز ڈاکٹر منیشا بانگر ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں کہتی ہیں کہ آپ اگر حقیقت میں کسی طبقے کی ترقی چاہتے ہیں اور اس کے لیے کوئی پالیسی یا اسکیم بنا رہے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے پاس اس طبقے کی صحیح اور مکمل معلومات ہوں۔ اگر آپ کے پاس یہ نہیں ہیں تو آپ اس طبقے کا کچھ بھی بھلا نہیں کر پائیں گے۔ اس لیے ذات پر مبنی مردم شماری بے حد ضروری ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ آپ کے پاس ۱۹۳۱ کے بعد او بی سی سے متعلق کوئی اعداد وشمار ہی نہیں ہیں۔

واضح رہے کہ مرکزی سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں داخلے کے لیے 27 فیصد ریزرویشن پہلے سے موجود ہے۔

مرکزی حکومت کی نیت پر سوال

پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں آئین کی 127ویں ترمیم بل 2021 کی منظوری کے بعد کئی لیڈروں نے حکومت کی نیت پر سوال کھڑا کیا ہے اور کہا ہے کہ مرکز کی طرف سے ملک میں ذات پر مبنی مردم شماری اور ریزرویشن کی 50 فیصد کی حد کو ہٹائے بغیر یہ بل او بی سی کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔

پارلیمنٹ میں بھی اس بل پر بحث کے دوران اپوزیشن کے کئی لیڈروں نے نشاندہی کی تھی کہ اگر 50 فیصد کوٹہ کی حد ختم نہ کی گئی تو یہ بل بے کار ہو جائے گا۔ راجیہ سبھا میں اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈروں نے ہنگامہ آرائی بھی کی تھی ۔

نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے سربراہ شرد پوار نے گزشتہ دنوں میڈیا کو دیے گئے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ 127 واں آئینی ترمیمی بل جو ریاستی حکومتوں کو او بی سی کی اپنی فہرستیں بنانے کے اختیارات کو بحال کرتا ہے، کمیونٹی کو اس کی موجودہ شکل میں فائدہ نہیں پہنچائے گا۔ ریاستوں کی اکثریت پہلے ہی 50 فیصد ریزرویشن کی حد سے گزر چکی ہے اس لیے ریاستوں کو زیادہ سے زیادہ 50 فیصد ریزرویشن کی حد سے تجاوز کا حق دینا ایک دھوکہ ہے جو کہ عوام کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’جب تک اعداد وشمار دستیاب نہیں ہوتے یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ چھوٹی ذاتوں کو کتنی نمائندگی دینے کی ضرورت ہے۔‘‘

اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے بھی کہا کہ ریاستوں کو او بی سی فہرست تیار کرنے کا حق دینا اچھا ہے لیکن 50 فیصد ریزرویشن کی حد کو بڑھایا جانا چاہیے۔

رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے اپنے ایک پریس بیان میں کہا کہ حکومت نے یہ بل لا کر شاہ بانو کی روایت کو برقرار رکھا ہے۔ یہ حکومت او بی سی کے لیے نہیں ہے۔ حکومت کو او بی سی سے نہیں بلکہ ووٹ سے محبت ہے۔ مسلمانوں کی پسماندہ ذات کو تلنگانہ میں ریزرویشن ملتا ہے لیکن مرکز میں نہیں۔ ہمیں ریزرویشن نہیں بلکہ افطار کی دعوت اور کچھ کھجوریں ملیں گی۔ انہوں نے سوال کیا کہ جب ایس سی کاسٹ میں ہندو اور بودھ شامل ہو سکتے ہیں تو پھر اس میں مسلمانوں کو کیوں شامل نہیں کیا جا سکتا؟ 1950 کے صدارتی حکم کو مذہب کی بندش سے پاک کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت کیوں خوفزدہ ہے۔ 50 فیصد کی حد عبور کر دیجیے۔

واضح رہے کہ اس قانون میں مؤثر طریقے سے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کو نظر انداز کیا گیا ہے جس نے مئی میں صرف مرکز کو ملک میں او بی سی کی فہرست بنانے کی اجازت دی تھی۔ اس سے قبل سال 1992 میں ایک فیصلے میں سپریم کورٹ نے ریزرویشن کو 50 فیصد تک محدود کر دیا تھا۔ تاہم اس کے بعد کئی ریاستوں نے حد سے تجاوز کرنے کے قوانین منظور کیے ہیں۔ اسی سال مئی کے مہینے میں سپریم کورٹ کے ایک اور فیصلے نے حکومت مہاراشٹر کے 50 فیصد کوٹے سے زیادہ مراٹھا برادری کو ریزرویشن دینے کے اقدام کو منسوخ کردیا تھا۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگلے سال اتر پردیش سمیت پانچ ریاستوں میں اسمبلی الیکشن ہونے والے ہیں۔ یو پی کی بی جے پی حکومت او بی سی ریزرویشن کے لیے نئی فہرست جاری کر کے ان کمیونٹیز کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش کر سکتی ہے جن کے ووٹ انہیں وسیع پیمانے پر نہیں مل رہے ہیں۔ غور طلب ہے کہ اتر پردیش میں 54.5 فیصد ووٹر او بی سی کمیونٹی کے ہیں۔ یہ تعداد اتر اکھنڈ میں 18.3 فیصد، گوا میں 17.9 فیصد، منی پور میں 52.7 فیصد ہے۔ وہیں پنجاب میں 16.1 فیصد او بی سی ووٹ بینک ہے۔ ان ریاستوں میں سال 2022 میں انتخابات ہونے والے ہیں۔

مہاراشٹر میں مسلمانوں کے لیے 5 فیصد ریزرویشن بحال کیے جانے کا مطالبہ

مہاراشٹر میں اب یہ مطالبہ زور پکڑنے لگا ہے کہ کانگریس اور راشٹروادی کانگریس کی حکومت نے سال 2014 میں مسلمانوں کو جو 5 فیصد ریزرویشن دیا تھا، اسے کابینہ میں تجویز پیش کرتے ہوئے بحال کیا جائے۔ اس سلسلے میں سابق وزیر نسیم خان نے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے، نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار، وزیر محصول بالا صاحب تھورات اور تعمیرات عامہ کے وزیر اشوک چوہان کو ایک مکتوب لکھ کر مسلمانوں کے لیے 5 فیصد ریزرویشن کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

انہوں نے اپنے خط میں کہا ہے کہ کانگریس اور این سی پی کی حکومت نے مرکزی حکومت کی تشکیل کردہ سچر کمیٹی اور ریاستی حکومت کی ڈاکٹر محمود الرحمان کمیٹی کی سفارشات کے تحت مسلمانوں کی مختلف برادریوں میں پائی جانے والی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے خصوصی پسماندہ طبقات کے زمرہ A میں تعلیمی وسرکاری ملازمتوں میں 9 جولائی 2014 کو 5 فیصد ریزرویشن دینے کا فیصلہ کیا تھا اور 19 جولائی 2014 کو اس کا آرڈیننس بھی جاری کر دیا گیا تھا۔ یہ ریزرویشن مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ تعلیمی، سماجی و معاشی طور پر پسماندگی کی بنیاد پر دیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ حکومت کے اس آرڈیننس کے خلاف ہائی کورٹ میں عرضداشت داخل کی گئی تھی اور ہائی کورٹ نے اس آرڈیننس پر فیصلہ دیتے ہوئے مراٹھا ریزرویشن پر مکمل طور پر اسٹے دیتے ہوئے مسلمانوں کی پسماندہ برادریوں کو خصوصی پسماندہ طبقے کے زمرہ A میں شامل کرتے ہوئے تعلیم کے شعبے میں ریزرویشن کو بحال کرنے کا حکم دیا تھا اور کانگریس اور این سی پی کی حکومت نے یہ ریزرویشن 2014 میں نافذ بھی کر دیا تھا۔ اس کے بعد ریاست میں قائم ہونے والی بی جے پی حکومت نے قصداً اس آرڈیننس کی مدت کو کالعدم ہو جانے دیا تاکہ اس کی قانونی حیثیت ختم ہو جائے۔

رنگناتھ مشرا رپورٹ نے کی تھی مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کی سفارش

رنگناتھ مشرا رپورٹ نے اس بات کی سفارش کی تھی کہ مسلمانوں کو سرکاری نوکریوں اور تعلیمی اداروں میں ریزرویشن ملنا چاہیے۔ اس رپورٹ میں اعلان کیا گیا ہے کہ سرکاری ملازمتوں میں جو کُل 50 فیصد کوٹہ مقرر ہوا ہے، اس کا ایک فیصد حصہ اقلیتوں کو اور اقلیتوں کے کوٹے کا 10 فیصد حصہ مسلمانوں کا ہونا چاہیے، یعنی سرکاری ملازمتوں میں 10 فیصد حصہ مسلمان کا ہونا چاہیے۔

رنگناتھ مشرا رپورٹ کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ آزاد ہندوستان میں پہلی بار مسلمانوں کو با اختیار بنانے، سرکاری ملازمتوں اور سرکاری تعلیمی اداروں میں ریزرویشن دیے جانے کو نہ صرف ان کا حق تسلیم کیا گیا ہے بلکہ رنگناتھ مشرا رپورٹ کے مطابق حکومت سے مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کو جلد از جلد ریزرویشن دے۔

مغربی بنگال کے مسلمانوں کو ۱۷ فیصد ریزرویشن

رنگناتھ مشرا کمیشن کی سفارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے سال 2010 میں اس وقت کی بایاں محاذ حکومت نے سرکاری ملازمت میں او بی سی کوٹے کے تحت مسلمانوں کو دس فیصد ریزرویشن دینے کا اعلان کیا تھا لیکن اگلے ہی سال وہ اقتدار سے بے دخل ہو گئی۔ سال 2011 میں ممتا بنرجی نے اقتدار میں آنے کے بعد دس فیصد ریزرویشن میں اضافہ کرتے ہوئے او بی سی کوٹے کے تحت مسلمانوں کو ۱۷ فیصد ریزرویشن دینے کا اعلان کیا۔ تب انہوں نے کہا تھا کہ ملازمت کے ساتھ تعلیم کے شعبے میں بھی مسلمانوں کو اس ریزرویشن کا فائدہ ملے گا۔ لیکن مغربی بنگال کے مسلمانوں کو شکایت ہے کہ یہاں کی افسرشاہی کی وجہ سے جو فائدہ انہیں ملنا چاہیے وہ نہیں مل رہا ہے۔ اس طرح مغربی بنگال ’’مسلم اوبی سی ریزرویشن‘‘ پالیسی کا وہی حشر ہوا ہے جو اقلیتوں کی فلاح وبہود کے لیے چلائی جارہی دیگر اسکیموں کا عموماً ہوتا ہے۔

کرناٹک کا لنگایت طبقہ ریزرویشن کے لیے کر رہا ہے احتجاج

کرناٹک میں یہاں کا لنگایت طبقہ اپنے لیے ریزرویشن کے مطالبے کے ساتھ احتجاج کر رہا ہے۔ اس کے لیے اس نے ’پرتگیہ پنچایت‘ مہم شروع کر رکھی ہے جو ۲۶ اگست سے شروع ہو کر ۳۰ ستمبر تک پورے کرناٹک میں چلے گی۔ اس سے قبل اپنے لیے کوٹے کا مطالبہ کرتے ہوئے ان کے سنتوں نے ۵۰۰ کلو میٹر کا پیدل سفر کیا تھا۔ واضح رہے کہ کرناٹک کے لنگایت ایک ہندو دیوتا کی پوجا کرنے کے باوجود خود کو ہندو نہیں مانتے۔ ایک عرصے سے ان کا یہ بھی مطالبہ رہا ہے کہ ہندو دھرم سے الگ کر کے انہیں ایک مذہبی اقلیت کے طور پر تسلیم کیا جائے۔ ریاست میں لنگایتوں کی آبادی تقریباً 17 فیصد ہے۔ یہ 12ویں صدی کے ایک مصلح بسویشورا کے پیروکار ہیں جنہوں نے ذات پات کی مخالفت کی تھی۔ ان کی پوجا پاٹ اور رسم و رواج کے طریقے ہندوؤں سے الگ ہیں۔ ان کے پاس مردوں کو نذر آتش نہیں کیا جاتا بلکہ دفن کیا جاتا ہے۔

***

 

***

 لوک سبھا میں مملکتی وزیربرائے امور داخلہ نتیانند رائے نے ایک سوال کے جواب میں صاف طور پر کہا ہے کہ حکومت اپنی پالیسی کے مطابق ذات پات پر مبنی مردم شماری نہیں کرائے گی۔ حکومت کا ذات پات پر مبنی مردم شماری کرانے کا ارادہ قطعی نہیں ہے۔ ایسے میں یہ سوال اہم ہے کہ جب حکومت کے پاس او بی سی کے متعلق اعداد وشمار ہی نہیں ہوں گے تو ریاستی حکومتیں او بی سی ریزرویشن کے لیے ذاتوں کی فہرست کس بنیاد پر تیار کریں گی۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 5 ستمبر تا 11 ستمبر 2021