بخار کم کرنے کے لیے تھرمامیٹر توڑنا۔۔!

ٹیم مودی کی ناکامیاں اور عوامی تاثر کو ’ٹھیک‘رکھنے کی مہم

تحریر:روچر جوشی
ترجمہ: مجیب الاعلیٰ

آسان پیرایہ میں یہ کہنا بہتر ہے: نریندر مودی کو جانا ہی ہوگا، امیت شاہ کو جانا ہی ہوگا، اجے موہن بشت عرف یوگی آدتیہ ناتھ کو جانا ہی ہوگا۔ دیانت داری سے عاری چند نا اہل مسٹر مودی کے ارد گرد جمع ہوگئے ہیں اسی لیے ان کے تمام وزرا کو بھی جانے کی ضرورت ہے۔ ملک کو بازیابی ومرمت کا ایک بڑا معرکہ جو ہماری بقا کے لیے درکار ہے اس کے لیے ان لوگوں کی اقتدار سے بے دخلی فوری ضروری ہے۔۔ کل بہت دیر ہوجائے گی، گزرا ہوا کل بہتر ہو گا۔
مسٹر مودی نے مئی 2014 میں وزیر اعظم کے طور پر حلف لیا تو ان کے مختلف بھکتوں اور مداحوں نے ان کی شخصیت کو امیدوں کے تاج اور آنچلوں سے مزیّن کیا۔ حامیوں نے ناقدین ومعترضین کو جو سیکولرازم، انسانی حقوق اور معاشی انصاف سے اپنی پرانی وابستگی رکھتے تھے، درکنار کرتے ہوئے انہیں (مودی کو) بڑے ہی فخر سے اپنے مسیحا کے طور پر قبول کیا۔ ان کے اصل حامیوں اور نئے آنے والوں نے ان کے اعلانات کو یاد رکھا کہ مودی ’نہ کھائیں گے اور نہ کسی کو کھانے دیں گے‘ (وہ بدعنوان نہیں ہیں اور کسی اور کو کرپٹ ہونے نہیں دیں گے)۔ وہ چند پریشان حال اقلیتوں پر ضرور حاوی ہو سکتے ہیں لیکن ہمیں حقیقی ترقی دلائیں گے۔ انسانی حقوق اور تحفظ ماحولیات، تجارت میں آسانی اور ہندوستان کو ایک معاشی پاور ہاوز میں تبدیل کرنے میں رکاوٹیں ہیں۔ کروڑوں لوگوں کو حقیقی انسانی حقوق کا تجربہ اسی وقت ہوگا جب انہیں غربت سے باہر نکالا جائے گا۔
مودی حکومت کے اولین دنوں میں آپ نے بارہا یہ تعریف سنی ہوگی : بھلے وہ پڑھے لکھے نہ ہوں لیکن چیزوں پر گرفت کرنے کی وہ عبقری صلاحیت رکھتے ہیں۔ آپ جو کہنا ہے کہہ لیں لیکن گجراتی صلاحیت کچھ اور ہی چیز ہے۔ ان کی حرکیاتی قوت حیرت انگیز ہے وہ بمشکل ہی سوتے ہیں اور یہ چیز بیورو کریٹس کی کرسیوں کے نیچے آگ لگا دے گی۔ بابو لوگ اب پابند ہوگئے ہیں۔ فائلیں تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں کیونکہ ایک بصیرت رکھنے والا اور توجہ مرکوز کرنے والا شخص موجود ہے۔ دیکھیں، وہ کس طرح عالمی شخصیتوں کے ساتھ پرتپاک طریقہ سے اور براہ راست رابطہ کرتا ہے۔ وہ ایک طاقتور موقف کے ساتھ پاکستان اور چین کو آڑے ہاتھوں لے سکتا ہے۔ انہیں معلوم ہوجائے گا کہ اب ان کا سابقہ پہلے جیسے کمزور حکم رانوں سے نہیں ہے۔
بیتے سات برسوں کے دوران مسٹر مودی نے اپنے نام کی کڑھائی کیا ہوا سوٹ اور طرح دار پگڑیاں تو پہن لیں لیکن عملاً یہ ملبوسات ایک ایک کر کے ان کے پیکر سے اتر گئے ہیں۔ یہاں تک کہ جب مودی نامی ’برانڈ کی توسیع‘ ذہن کو ورطہ حیرت میں ڈالنے والی سطح تک بڑھ گئی تو اس کے وعدے ٹوٹ پھوٹ گئے اور جل گئے۔ اس حکومت کے تحت بدعنوانی کو ایک اور جہت میں داغا گیا اور اس پیمانے پر داغا گیا کہ خود یہ لفظ ادارہ جاتی جھوٹ سے مربوط ایک بڑے نیٹ ورک اور فوجداری قانون کو مروڑ دینے کی کیفیت کو ظاہر کرنے کے لیے چھوٹا پڑ گیا۔
گزشتہ سات برسوں کے دوران طبقہ امراء کے مفادات کی مجنونانہ خدمت کے ساتھ ساتھ دیگر یادگار کارستانیوں نے ہماری معیشت کے بخیے ادھیڑ دیے ہیں۔ مسٹر مودی کی قیادت میں درختوں کے جھنڈ پر بالا کوٹ بم دھماکے اور ہمارے پائلٹ کی گرفتاری کے ذریعہ پاکستان نے ہمیں ہنسی کا نشانہ تضحیک بنا دیا ہے اور چین کی طرف سے ہمیں بار بار ذلیل کیا گیا ہے، اور اب آخر کار آزاد ہندوستان کو درپیش سب سے بڑی قدرتی آفت کے خلاف بنیادی دفاع کا ایک سال گزرنے کے باوجود ہم جسمانی اور ذہنی طور پر اپنے گھٹنوں کے بل ہیں۔ غرض اس حکومت کی دانستہ ونا دانستہ غلط حکمرانی کا مکمل تختہ تاریخ کی ایک بھیانک داستان بن جائے گا۔
جمہوریت کہلانے کے لائق کسی بھی جمہوری ملک میں کسی حکومت کے زوال کا سبب بننے کے لیے ان دو میں سے کوئی ایک کارستانی ہی کافی تھی، یعنی نوٹ بندی کی ناکامی اور چینی جارحیت کے خلاف متزلزل ردعمل اور اس کے بعد کی جانے والی پردہ پوشی لیکن ایک بہت بڑی بددیانتی کی وجہ ایسا نہیں ہوا ہے۔ اگر مسٹر مودی اور مسٹر شاہ نے کسی بھی چیز کی طرف کار کردگی صلاحیت اور تفصیلی توجہ کو مرکوز کیا ہے تو وہ خود جمہوریت کو دانستہ اور اندھا دھند کھوکھلا کرنا ہے۔ اب یہ بات شک وشبہ سے بالاتر ہے کہ مسیحا اور اس کا سرغنہ 2014 میں ایک مقصد، اور ایک ہی مقصد کے ساتھ اقتدار میں آیا تھا: ہندوستان کو ایک مطلق العنان ہندو راشٹر میں تبدیل کرنا، تقویت دینا اور اس کے نتیجے میں چند بڑے کاروباری گھرانوں کو فائدہ پہنچانا، اور یہ کام بین الاقوامی امیدوں اور داخلی بے سمتی کے تقاضوں کے پیش نظر، ایک فعال جمہوریت کی فرضی تصویر کو برقرار رکھتے ہوئے کیا جانا تھا۔
ایک ڈکٹیٹر کے ملکیتی اسٹیڈیم میں دو ٹیموں کے درمیان کھیل کی رسم تو ہو سکتی ہے لیکن حقیقت میں صرف آمر کی ٹیم ہی جیت سکتی ہے۔ مسٹر مودی اور مسٹر شاہ نے 2014 میں اقتدار سنبھالنے کے دن سے ہی بھارتی جمہوریت کے اسٹیڈیم پر مخالفانہ قبضہ کرنے کی سمت میں ہی کام کیا ہے۔ اس منصوبہ کو مدد بہم پہنچانے کے لیے آپ نے میڈیا کے ایک بڑے حصے کے ذریعہ اپنی امیج بنائے رکھنے پر بے انتہا توجہ مرکوز کی پھر آپ نے الیکٹورل بانڈز کی شکل میں دن دہاڑے ڈکیتی کی اور پھر آپ نے کھلے طور پر حکمراں جماعت کی خدمت میں تفتیشی ایجنسیوں کو ڈھٹائی کے ساتھ اور بے مثال طریقہ سے ہتھیار بنا لیا۔ یہ سب کچھ مرکزی حکومت یا اس کی ایجنسیوں کی مختلف کارروائیوں کی جانچ کرنے میں سپریم کورٹ کی مسلسل پراسرار ہچکچاہٹ کی بدولت ہوا ہے۔
مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان جان بوجھ کر بداعتمادی اور نفرت پھیلانا، پسماندہ جمہوریت کو یر غمال بنانا اور کشمیر کا لاک ڈاؤن، این آر سی /سی اے اے کے بھیانک قوانین، ایودھیا میں رام مندر کا فیصلہ، بھیما کوریگاؤں گرفتاریاں، جن کے بارے بہت سے لوگوں کے دلائل بد نیتی پر مبنی ہیں، ان سبھی کا انحصار مملکت کے اداروں کے اردگرد موجود ایک ریگتے ہوئے زہریلے فنگس پر ہے۔
فنگس جس چیز کی توقع نہیں کر رہا تھا وہ ایک وائرس کا مہلک حملہ تھا۔ میں نے کہیں پڑھا ہے کہ حکومت کے ذریعہ حالیہ تنقیدی ٹویٹر اکاؤنٹس کو بلاک کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اسے احساس ہے کہ وہ اپنے فرائض ادا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس تعلق سے کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اس حکومت نے کبھی بھی وہ کرنے کا ارادہ نہیں کیا جس کو ہم میں سے لاکھوں لوگ حکومت کے فرائض تصور کرتے ہیں۔ اس نے وبائی مرض کو دیوتاؤں کی طرف سے تحفے میں دیے گئے ایک انتہائی مفید آلے کے طور پر لیا، ایک ایسا آلہ جسے وہ اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔ یعنی اختلاف رائے کو دبانے، اپوزیشن کی ریاستی حکومتوں کو گرانے اور انتخابات کو ’جیتنے‘ کے لیے۔ اب جب کہ معاملات افسوسناک طور پر قابو سے باہر ہو رہی ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کی بنیادی تشویش ایک بار پھر اپنے بارے میں عوامی تاثر کو منظم کرنے کے تعلق سے ہے۔ ایک فرانسیسی کہاوت ہے ’’بخار کو کم کرنے کے لیے تھرمامیٹر کو توڑنا‘‘۔ ٹوٹے ہوئے تھرمامیٹروں کی اس پگڈنڈی کی وجہ سے آج ہم اس مقام پر ہیں اور اس کی وجہ سے اور کچھ نہیں تو مسٹر مودی اور مسٹر شاہ کو جانے کی ضرورت ہے۔(بشکریہ ’دا ٹیلی گراف)
***

 

***

 ایک ڈکٹیٹر کے ملکیتی اسٹیڈیم میں دو ٹیموں کے درمیان کھیل کی رسم تو ہو سکتی ہے لیکن حقیقت میں صرف آمر کی ٹیم ہی جیت سکتی ہے۔ مسٹر مودی اور مسٹر شاہ نے 2014 میں اقتدار سنبھالنے کے دن سے ہی بھارتی جمہوریت کے اسٹیڈیم پر مخالفانہ قبضہ کرنے کی سمت میں ہی کام کیا ہے۔ اس منصوبہ کو مدد بہم پہنچانے کے لیے آپ نے میڈیا کے ایک بڑے حصے کے ذریعہ اپنی امیج بنائے رکھنے پر بے انتہا توجہ مرکوز کی پھر آپ نے الیکٹورل بانڈز کی شکل میں دن دہاڑے ڈکیتی کی اور پھر آپ نے کھلے طور پر حکمراں جماعت کی خدمت میں تفتیشی ایجنسیوں کو ڈھٹائی کے ساتھ اور بے مثال طریقہ سے ہتھیار بنا لیا۔ یہ سب کچھ مرکزی حکومت یا اس کی ایجنسیوں کی مختلف کارروائیوں کی جانچ کرنے میں سپریم کورٹ کی مسلسل پراسرار ہچکچاہٹ کی بدولت ہوا ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  05 تا 11 دسمبر 2021