بی جے پی لیڈر تیجسوی سوریہ نے اپنے فرقہ وارانہ تبصرے پر کوویڈ وار روم کے عملے سے معافی مانگی، تاہم 17 مسلمان کارکنان کو وقتی طور پر کام سے روکا گیا
نئی دہلی، مئی 7: نیوز 18 کی خبر کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمنٹ تیجسوی سوریہ نے آج بنگلور میں ایک کورونا وائرس سہولت کے عہدیداروں پر شہر میں بستر مختص کرنے کے مبینہ اسکینڈل کو فرقہ وارانہ رنگ دینے پر معذرت کرلی۔
کرسٹل انفوسس سسٹم اینڈ سروسز کے پروجیکٹ منیجر شیو نائک کے مطابق، جنھوں نے اس سہولت کے لیے رضاکاروں کی خدمات حاصل کی ہیں، بی جے پی لیڈر نے اس سہولت کے دورے کے موقع پر عہدیداروں سے کہا کہ ’’میری آپ سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے۔ اگر میرے دورے سے کسی فرد کو یا کسی بھی جماعت کو جذباتی طور پر تکلیف پہنچی ہے تو میں اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔‘‘
نائک نے نیوز 18 کو بتایا کہ سوریہ نے کہا کہ وہ صرف اس گھوٹالے کی تحقیقات کرنا چاہتا ہے اور اس کا کسی کے جذبات کو مجروح کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ انھوں نے مزید کہا’’شاید اس وجہ سے کہ کام میں تکلیف ہو رہی تھی کیوں کہ سوریہ دوبارہ آگیا، ہمیں نہیں پتا اس کے دوبارہ لوٹنے کا سبب کیا تھا۔‘‘
عہدیدار کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں سیاست کی وجہ سے پچھلے دو دنوں میں اس سہولت پر کوویڈ سے متعلق کام متاثر ہوئے ہیں۔ نائک نے کہا ’’ان میں سے بہت سے [عہدیدار] کام سے دور رہے ہیں۔… (بی جے پی لیڈروں کے) ایسے اچانک دوروں کے بعد ہمارا تمام عملہ پریشان اور خوفزدہ تھا۔‘‘
یہ تنازعہ منگل کو اس وقت شروع ہوا جب سوریہ اور بی جے پی کے دیگر لیڈروں نے جیا نگر میں واقع کوویڈ سہولت کا دورہ کیا اور بنگلور میں کوویڈ مریضوں کو جس طریقے سے بستر مختص کیے جارہے تھے اس کے بارے میں عہدیداروں سے پوچھ تاچھ کی۔ پارٹی لیڈروں نے دعویٰ کیا تھا کہ بنگلور کے شہری ادارے (نگر پالیکا) کے عہدیدار نجی نرسنگ ہومز اور اسپتالوں سے جوڑ توڑ کر کے بیڈز بلاک کر رہے ہیں اور اسے بے حد زیادہ فیس دینے والوں کے لیے محفوظ رکھتے ہیں۔
ایسا کرتے ہوئے سوریہ نے بغیر کسی ثبوت کے ان الزامات کو ایک فرقہ وارانہ موڑ بھی دے دیا اور الزام لگایا کہ کوویڈ سہولت میں کام کرنے والے مسلمان اس سازش کے ذمہ دار ہیں۔
ایک لائیو کانفرنس میں سوریہ نے مبینہ گھوٹالہ کے ذمہ دار 17 اہلکاروں کو نام پیش کیا، جو سبھی مسلمان تھے۔ بی جے پی لیڈر نے فرقہ وارانہ رنگ دیتے ہوئےپوچھا کہ ایک ہی برادری کے اتنے سارے افراد کو کوویڈ سہولت میں کیوں مقرر کیا گیا تھا۔
اس کے بعد کی اطلاعات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ سوریہ نے مختلف شفٹوں میں 200 سے زائد ملازمین میں سے 17 مسلمان ملازمین کے نام چن کر نکالے تھے اور اس بات کا کوئی ثبوت یا وضاحت پیش نہیں کی تھی کہ صرف ان افراد کو ہی کیوں نمایاں کیا گیا تھا۔
آج جمعہ کے روز ایک بار پھر اس کوویڈ سہولت کا دورہ کرتے ہوئے سوریہ نے دعوی کیا کہ اس نے صرف ایک فہرست سے ان کے نام پڑھے ہیں جو انھیں دی گئی تھی اور اسے یہ احساس نہیں تھا کہ وہ سب ایک ہی برادری سے ہیں۔ سوریہ نے آج دعویٰ کیا کہ’’میں نے نہیں دیکھا کہ یہ ہندو تھے یا مسلمان۔‘‘
بی جے پی لیڈر نے جنگی کمرے کے عہدیداروں سے اپیل کی کہ وہ ان تمام اچھائیوں کو یاد رکھیں جو اس نے شہر کے لیے کی ہیں۔ نیوز پورٹل نے نامعلوم عہدیداروں کے حوالے سے بتایا کہ سوریہ نے دعویٰ کیا کہ ’’میں ذات پات یا فرقہ پرست نہیں ہوں۔ میں لوگوں کے لیے اچھا کام کر رہا ہوں۔ میرے کوئی برے ارادے نہیں ہیں۔‘‘
تاہم اس سہولت کا کام سنبھالنے والی ایجنسی سے تعلق رکھنے والے شیو نائک نے نیوز 18 کو بتایا کہ سوریہ کے ذریعے جن 17 مسلمان کارکنان کا نام پیش کیا گیا تھا انھیں ان کے اوپر لگے الزامات کے سبب ابھی کوئی ذمہ داری نہیں دی گئی ہے۔ نائک نے چینل کو بتایا ’’لیکن میں نے ان سے کہا ہے کہ جب پولیس انکوائری میں انھیں کلین چٹ مل جائے گی، تو ہم آپ کو یہاں یا کسی دوسرے پروجیکٹ میں بحال کریں گے۔‘‘