زعیم الدین احمد حیدرآباد
انتخابات شروع ہوچکے ہیں اور دو مرحلوں کی رائے دہی بھی مکمل ہو چکی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پہلے مرحلے کی رائے دہی سے بھاجپا خیمہ میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ شاید اسے پیروں تلے زمین کھسکتی ہوئی نظرآرہی ہے، تبھی تو مکھیا کی زبان سے ایسے الفاظ نکل رہے ہیں۔ بھاجپا کو کیوں ووٹ نہیں دینا چاہیے؟ بھاجپا جمہوریت کے لیے کیوں خطرہ ہے؟ اس مضمون میں ہم پانچ نکات بیان کریں گے۔ ایسے پانچ جھوٹ جن کی بنیاد پر بھاجپا والے ملک کی عوام کو بے وقوف بناتے اور انتخابات میں جیت حاصل کرتے آ رہے ہیں۔
پہلا جھوٹ:
2014 کے عام انتخابات میں مودی کا نعرہ تھا کہ ’’بھرشٹاچار ہٹائیں گے، کالا دھن لائیں گے‘‘۔ ملک کا وہ پیسہ جو بیرونی ممالک کے بینکوں میں جمع ہے اس کو واپس لانے کی بات کہی تھی اور وعدہ کیا تھا کہ ہماری حکومت آنے کے سو دن کے اندر ہم کالا دھن واپس لائیں گے۔ مودی نے بڑے متکبرانہ انداز میں کہا تھا کہ ‘یہ جو چوروں و لٹیروں کے لاکھوں کروڑ روپے بیرونی بینکوں میں جمع ہے، انہیں واپس لایا جائے گا تو ہر غریب آدمی کو پندرہ بیس لاکھ روپے یوں ہی مل جائیں گے’ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ جیسے ہی وہ وزیر اعظم بنیں گے بیرونی ممالک میں جو 72 لاکھ کروڑ روپے کا کالا دھن ہے اسے واپس لائیں گے اور ہر ایک خاندان کے کھاتے میں پندرہ لاکھ روپے جمع کریں گے۔ اس وعدے کو دس سال ہوچکے ہیں، اس کالے دھن کا کیا ہوا، کہیں کوئی ذکر تک نہیں ہے۔ کیا بیرونی بینکوں میں جمع کالا دھن واپس آیا یا 72 لاکھ کروڑ روپے میں سے اب تک کتنا کالا دھن واپس آیا؟ کوئی اطلاع نہیں، کسی کے کھاتے میں پندرہ لاکھ روپے میں جمع ہوئے؟ کوئی خبر نہیں۔ ہمارے پاس تو کسی کے کھاتے میں ایک پھوٹی کوڑی جمع نہیں ہوئی۔
دوسرا جھوٹ:
اسی طرح سے مودی نے نوجوانوں سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ اقتدار میں آتے ہیں تو ہر سال دو کروڑ نوکریاں دیں گے۔ آج ان کو اقتدار سنبھالے ہوئے دس سال ہو چکے ہیں۔ اس وعدے کے حساب سے بیس کروڑ نوجوانوں کو نوکریاں ملنی چاہیے تھیں۔ ہمارے ملک میں تقریباً سات سو اضلاع پائے جاتے ہیں، تو اس حساب سے ہر ضلع کو دو لاکھ اسی ہزار نوکریاں ملنی چاہیے تھیں، کیا آپ کے ضلع میں دو لاکھ اسی ہزار نوجوانوں کو نوکریاں ملی ہیں؟ کیا آپ کے شہر میں یا آپ کے قریہ میں یا آپ کے پڑوس میں کسی کو بھی نوکری ملی ہے؟ لاکھوں چھوڑیے سیکڑوں میں بھی کسی ضلع یا شہر یا گاؤں میں نوکریاں ملی ہیں؟
جب تعلیم یافتہ نوجوان یہ سوال کرتا ہے تو اسے پکوڑے اور سموسے تلنے کے روزگار سے وابستہ ہونے کی بات کہی جاتی ہے۔ ایک طرف تعلیم یافتہ نوجوان یہ سوچ کر پریشان ہو رہا ہے کہ تعلیم سے فراغت کے بعد کیا کرے، بازار میں ملازمتیں نہیں ہیں، حکومت نوکریاں فراہم کر نہیں کر رہی ہے، مایوسی کے عالم میں ان کے ذہنوں میں خود کشی جیسے خطرناک رجحانات پنپ رہے ہیں۔ کیا یہ حکومت کا کام نہیں ہے کہ وہ ملک تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار و نوکریاں فراہم کرے؟ اس وقت بے روزگار کی شرح 8 فیصد تک پہنچ چکی ہے، آج سے دس سال قبل یہ شرح 5 فیصد ہوا کرتی تھی، کیا اسی کو ترقی کہتے ہیں؟ بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہونا ترقی کی علامت ہے؟
تیسرا جھوٹ:
2015 میں مودی نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ہر غریب آدمی کو گھر بنا کر دیں گے۔ پرائم منسٹر آواس یوجنا کے تحت سال 2022 تک ملک میں کوئی بھی ایسا نہیں رہے گا جس کا ذاتی گھر نہ ہو۔ 2024 آچکا ہے لیکن کیا ہر غریب آدمی کو ذاتی گھر مل چکا ہے؟ کیا آپ کو اپنے اطراف اس اسکیم کے تحت بنائے گئے گھر نظر آ رہے ہیں؟ جس گاؤں میں بھی جہاں آپ رہتے ہیں وہاں مودی کے وعدے کی تکمیل نظر آرہی ہے؟ دنیا کی تیز ترین ترقی کرنے والی معیشت کی تقریباً 6 فیصد آبادی انتہائی غربت میں زندگی گزار رہی ہے۔ یعنی جس کی آمدنی ایک ڈالر بھی نہیں ہے۔ مسٹر مودی کیا یہی ملک کی ترقی ہے؟ اس جانب آپ کی توجہ ہی کہاں ہے، آپ کو تو ہندو مسلم کرانے سے ہی فرصت نہیں ہے، مندر مسجد، طبقات میں تفریق ڈالنے سے آپ کو فرصت ہی نہیں ملتی۔
چوتھا جھوٹ:
2016 میں مودی نے کہا تھا کہ 2022تک کسانوں کی آمدنی دو گنی کردوں گا۔ جب سوال پوچھا گیا کہ کیا کسانوں کی آمدنی دوگنی ہوگئی ہے تو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں حکومت کا وہی رٹا رٹایا جواب دیا گیا کہ حکومت کی جانب سے کسانوں کے لیے بہت سی اسکیمیں چل رہی ہیں۔ وزارت زراعت و بہبودی کسان کے محکمہ آئی سی اے آر کی جانب سے ایک کتاب بھی شائع کی گئی ہے جس میں ان کسانوں کی کہانیاں درج ہیں جن کی آمدنی دوگنی یا اس سے زیادہ ہوئی ہے۔ جن کسانوں کے نام اس کتاب میں درج ہیں، جب ان سے ملاقات کی گئی اور پوچھا گیا کہ کیا واقعی ان کی آمدنی دوگنی ہوئی ہے؟ تو انہوں نے صاف انکار کر دیا کہ ہماری آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ اس کتاب میں بعض نام تو ایسے بھی شامل کئے گیے ہیں جنہوں نے زراعت 2011 ہی میں چھوڑ دی تھی۔
پانچواں جھوٹ:
پچھلے سال ہی مودی نے پی ایم سری کے نام سے اسکولوں کے لیے ایک اسکیم لانچ کی تھی۔ اس اسکیم کا مقصد یہ بتایا تھا کہ آئندہ پانچ سال میں چودہ ہزار چھ سو سرکاری اسکولوں کے معیار کو تبدیل کریں گے اور ان کی تعمیر نو کریں گے۔ آپ کو یہ جان کر بڑی حیرانی ہوگی کہ ملک بھر 12 لاکھ سرکاری اسکول ہیں، اس حساب سے دیکھا جائے تو 12 لاکھ اسکولوں کو بہتر کرنے اور ان کو ترقی دینے کے لیے تقریباً 3 سو 58 سال درکار ہوں گے۔
غور کریں کہ عوام کو کتنا بڑا دھوکا دیا جا رہا ہے، کتنا جھوٹ کہا جا رہا ہے، کس قدر دغا بازی کر رہے ہیں یہ بھاجپا والے۔ بھاجپا کے کارندے رات دن مودی کے جھوٹ کو پھیلانے میں لگے رہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مودی سے جھوٹ کے بارے میں کون پوچھے؟ پوچھنے کا کام تو میڈیا کا تھا، وہ تو مودی کی گود میں بیٹھا ہوا ہے، اسے تو ہندو مسلم، مسجد مندر کی بحثوں سے فرصت ہی کہاں ہے جو ان مسائل پر توجہ دے۔ لگتا ہے جنتا اب جاگ گئی ہے، ان کے جھوٹ کو جان گئی ہے، نفرت کے سوداگروں کو پہچان گئی ہے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 مئی تا 11 مئی 2024