بی جے پی پر پڈوچیری میں انتخابی مہم کے لیے آدھار کا ڈیٹا چوری کرنے کا الزام، مدراس ہائی کورٹ نے تشویش کا اظہار کیا

نئی دہلی، مارچ 27: مدراس ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف لگائے جانے والے ان الزامات پر فوری طور پر غور کرنے کو کہا ہے کہ بی جے پی پڈوچیری میں انتخابات میں سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے مقصد سے آدھار کے ڈیٹا کا غیرقانونی استعمال کر رہی ہے۔

عدالت نے الیکشن کمیشن سے ایسے سنگین الزامات کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے ذمہ داری سے عاری نہ ہونے کی بھی تلقین کی۔ چیف جسٹس سنجیب بنرجی اور جسٹس سینتھل کمار رامامورتی کے بنچ نے کہا ’’اس معاملے میں الیکشن کمیشن کے لیے یہ صورت کام نہیں کرے گی کہ وہ اس معاملے کو جانے دے اور یہ کہے کہ سائبر کرائم ڈویژن اس کی تحقیقات کر رہا ہے۔‘‘

بنچ نے مزید کہا ’’جب الیکشن کمیشن دوسرے تمام معاملات میں مستعد ہے اور اپنی اولیت اور اتھارٹی پر زور دیتا ہے تو اسے اس الزام کو بھی فوری طور پر اور اسی سنجیدگی کے ساتھ دیکھنا ہوگا، جس کا یہ مستحق ہے۔‘‘

عدالت نے انتخابی ادارے کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس معاملے میں 26 مارچ تک رپورٹ درج کریں۔

ہائی کورٹ نے یہ مشاہدات گزرے بدھ کے روز ڈیموکریٹک یوتھ فیڈریشن آف انڈیا کی پڈوچیری اسٹیٹ کمیٹی کے صدر اے آنند کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے کیے۔ درخواست میں یہ الزام لگایا گیا ہے کہ پڈوچیری بی جے پی یونٹ نے آدھار ڈیٹا بیس سے مرکزی علاقہ کے رہائشیوں کے ذاتی اعداد و شمار تک غیر مجاز رسائی حاصل کرلی ہے، جسے پارٹی اب اپنے سیاسی فوائد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔

آنند نے الزام لگایا کہ بھگوا پارٹی نے بوتھ لیول کے واٹس ایپ گروپس بنائے ہیں جو پڈوچیری کے مختلف حصوں میں ووٹرز کو نشانہ بنانے کے لیے پیغامات بھیج رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایسا ہی ایک پیغام انھیں آنے کے بعد انھوں نے واٹس ایپ گروپ کے منتظم سے رابطہ کیا اور سوال کیا کہ انھیں میرا موبائل نمبر کیسے حاصل ہوا۔

ان کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ منتظم نے کوئی تفصیلات بتانے سے انکار کردیا اور آنند سے کہا کہ وہ بی جے پی پڈوچیری پارٹی کے دفتر سے رجوع کریں۔ درخواست میں مزید کہا گیا کہ جب آنند نے اس سے پوچھا کہ اس کا نام کیوں شامل کیا گیا تو منتظم نے مبینہ طور پر اسے بتایا کہ پڈوچیری میں تقریباً 952 مراکز کے لیے واٹس ایپ گروپس موجود ہیں اور ان میں تمام ووٹرز شامل کیے جارہے ہیں۔

درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ پیغامات صرف ان موبائل نمبروں پر موصول ہوئے ہیں جو آدھار سے منسلک ہیں۔ لائیو لا کے مطابق آنند نے درخواست میں کہا ہے کہ ’’مثال کے طور پر اگر کوئی شخص دو موبائل نمبر استعمال کرتا ہے، جو آج کل بہت عام ہے، تو میسج صرف آدھار سے منسلک موبائل نمبر پر بھیجا جاتا ہے نہ کہ دوسرے موبائل نمبر پر۔‘‘

درخواست گزار نے یہ بھی نشان دہی کی کہ چیف الیکٹورل افسر کے ساتھ شیئر کردہ انتخابی اعداد و شمار میں کسی ووٹر کا موبائل نمبر نہیں ہوتا ہے، بلکہ صرف ووٹروں کے نام اور تصاویر شامل ہوتی ہیں۔ لہذا یہ واضح نہیں کہ بھگوا پارٹی کو ان موبائل نمبروں تک کہاں سے رسائی حاصل ہوئی ہے۔

انھوں نے مزید الزام لگایا ہے کہ بی جے پی فرضی کال بھی کر رہی ہے۔ آنند نے بتایا کہ انھیں بھی ایک فون موصول ہوا، جس میں فون کرنے والا ان کا نام، بوتھ اور انتخابی حلقہ، صاف طور جانتا تھا۔

درخواست گزار نے بی جے پی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ قانون کی سراسر خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے فرائض کی انجام دہی میں بری طرح سے ناکام ہو رہی ہے اور سیاسی مفادات کے لیے ووٹرز کی ذاتی رازداری میں دخل اندازی کررہی ہے۔

درخواست میں یہ بھی دعوی کیا گیا کہ بی جے پی کے مبینہ اقدامات نہ صرف پڈوچیری بلکہ قومی سلامتی کے لیے بھی سنگین خطرہ ہیں۔

ان گذارشات کی بنیاد پر درخواست گزار نے عدالت سے مطالبہ کیا کہ وہ بی جے پی پر عائد الزامات کی جانچ پڑتال کے لیے خصوصی تفتیشی ملٹی ڈسپلنری ٹیم تشکیل دے۔ اس میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ سرکاری یا نجی خدمات حاصل کرتے وقت آدھار دستاویزات دکھانا لازمی نہیں ہونا چاہیے۔