کسانوں کا بھارت بند: زرعی قوانین کے خلاف ہڑتال کے دوران بنگلور اور احمد آباد میں کسان رہنماؤں کو حراست میں لیا گیا

نئی دہلی، مارچ 27: جمعہ کے روز کسانوں کے بھارت بند کے دورنا کم از کم دو شہروں میں پولیس نے کسان رہنماؤں کو گرفتار کیا۔ اس ہڑتال کا مطالبہ کسان یونینوں کی ایک مشترکہ تنظیم سمیکت کسان مورچہ نے کیا تھا، جو مرکز کے نئے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کے احتجاج کی نمائندگی کر رہی ہے۔

دکن ہیرالڈ کے مطابق بھارتیہ کسان یونین کے جنرل سکریٹری یدھویر سنگھ کو گجرات کے احمد آباد شہر میں پولیس نے اس وقت حراست میں لیا، جب وہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔

اس واقعے کی ایک ویڈیو میں پولیس کو انھیں لے جاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، جب کہ وہ صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔ سنگھ نے نامہ نگاروں سے کہا ’’یہ غلط ہے، یہ آمریت ہے … پریس سے بات کرنا جرم نہیں ہے۔ یہ ہمارا حق ہے، ہر کوئی اپنے خیالات کے اظہار کے لیے آزاد ہے۔‘‘

جب انھیں پریس کانفرنس سے لے جایا جارہا تھا، تو سنگھ نے کہا کہ ’’سخت مجرموں‘‘ کے ساتھ بھی اس طرح سلوک نہیں کیا جاتا ہے جس طرح پولیس ان کے ساتھ کر رہی ہے۔ وہیں پولیس نے کہا کہ کسان رہنماؤں کے پاس پریس کانفرنس کرنے کی اجازت نہیں تھی۔

بھارتیہ کسان یونین کے قومی میڈیا انچارج دھرمیندر ملک نے ٹویٹ کیا کہ سنگھ کو گرفتار کرکے احمد آباد کے شاہی باغ اسٹیڈیم لے جایا گیا۔ ملک نے لکھا ’’گجرات میں کسانوں کو بولنے سے بھی روکا جارہا ہے۔ کسان اس فعل کی مذمت کرتے ہیں۔ ہم لڑیں گے، ہم جیتیں گے۔‘‘

کسان رہنماؤں کو کرناٹک کے دارالحکومت بنگلورو میں بھی حراست میں لیا گیا، جب وہ ٹاؤن ہال میں ملک گیر بند کے دوران احتجاج کررہے تھے۔ حراست میں لیے جانے والے ایک کارکن کویتا کروگانتی نے پولیس کارروائی کی ویڈیو ٹویٹ کی ہے۔

گروگانتی نے کہا ’’مودی حکومت قوانین کو کالعدم کرنے کے بجائے لوگوں کو گرفتار کرنے کے لیے ریاستی حکومت کا استعمال کررہی ہے۔‘‘

اس سے قبل کروگانتی نے مظاہرین کی تصاویر بھی ٹویٹ کی تھیں، جن میں پولیس وین کے اندر کسان رہنما کوڈیہالی چندرشیکھر کو دیکھا جاسکتا ہے۔

سمیکت کسان مورچہ کا یہ بھارت بند جمعہ کے روز شام 6 بجے تک جاری رہا۔ یہ بند میں دہلی کی تین سرحدوں، سنگھو، غازی پور اور ٹکری پر کسانوں کے احتجاج کے چار ماہ پورے ہونے پر احتجاج کو آگے بڑھانے کے لیے کیا گیا۔

گذشتہ سال نومبر سے ہی ہزاروں کسانوں دہلی کی سرحدوں پر لگاتار احتجاج کر رہے ہیں اور تینوں نئے زرعی قوانین کی منسوخی کے اپنے مطالبے پر قائم ہیں، جن کے بارے میں انھیں خدشہ ہے کہ یہ قوانین انھیں کارپوریٹ اداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں اور ایم ایس پی کو ختم کرنے کی راہ ہموار کرکے ان کی آمدی پر اثرانداز ہوں گے۔