(دعوت نیوز نیٹ ورک)
کرناٹک کے کالجوں میں حجاب پر پابندی کے خلاف سپریم کورٹ کی ڈویژن بنچ کے دونوں ججوں کے الگ الگ فیصلے پر مختلف پہلوئوں سے بحث و مباحثہ کا سلسلہ جاری تھا کہ بہار کے ضلع مظفرپور کے ایک گرلس کالج میں حجاب کا تنازع سامنے آگیا۔ 16اکتوبر کو مہنت درشن داس مہیلا کالج میں امتحان دینے پہنچنے والی طالبات کو کالج داخل ہونے سے اس لیے روک دیا گیا کہ طالبات نے حجاب پہن رکھا تھا۔ بہار میں حجاب پر تنازع پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے۔ اس سے قبل اسی سال فروری میں ’’یوکو بینک کے بیگوسرائے برانچ‘‘ میں حجاب پہن کر آنے والی ایک خاتون صارف کو یہ کہتے ہوئے بینک سے رقم نکالنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا گیا کہ جب تک وہ حجاب نہیں اتاریں گی اس وقت تک رقم نہیں دی جائے گی۔ اسکولوں، کالجوں اور دیگر عوامی مقامات پر بہار میں حجاب پہننے یا نہ پہننے سے متعلق کوئی قانون نہیں ہے۔ کرناٹک کے کالجوں میں جب حجاب پر تنازع کھڑا ہوا تو اس وقت بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار نے جو بی جے پی کی حمایت سے حکومت چلارہے تھے کرناٹک میں حجاب پر پابندی اور اس پر جاری بحث و تکرار کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ بہار میں اس طرح کی کوئی پابندی نہیں ہے اور نہ ہی اس پر کسی کو سیاست کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ حکومت بہار کے اس واضح موقف کے باوجود بہار میں وقتاً فوقتاً حجاب پر تنازع کھڑا ہوتا رہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ تنازعات اتفاقا ًپیدا ہورہے ہیں یا پھر کسی منصوبہ بند کوششوں کا تسلسل ہے۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ نتیش کمار بی جے پی کا ساتھ چھوڑ کر راشٹریہ جنتادل کی حمایت سے حکومت چلارہے ہیں، بہارمیں پولرائزیشن کی کوششوں کے تناظر میں بھی اس پورے واقعے کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔
دراصل مہنت درشن داس مہیلا کالج (MDDM) میں بارہویں جماعت کے لیے انٹرنل امتحانات چل رہے ہیں۔ 16اکتوبر کو امتحان کا آخری دن تھا۔ مسلم طالبات جب اتوار کو کالج پہنچیں توانگریزی کے استاد ششی بھوشن نے کالج کے گیٹ پر ہی حجاب میں ملبوس مسلم طالبات کو ہدایت دی کہ وہ اپنے اسکارف کو اتار کر چیکنگ کرائیں کہ کہیں بلیو ٹوتھ ڈیوائس یا پھر کوئی الیکٹرانک سامان چھپایا تو نہیں گیا ہے۔ مسلم طالبات نے کہا کہ وہ کسی خاتون نگراں یا گارڈ کی نگرانی میں چیکنگ کرانے کو تیار ہیں مگر ششی بھوشن خود جانچ کرنے پر مصر تھے۔ مجبور ہوکرطالبات نے حجاب نکال کر جانچ کرایا کہ انھوں نے کوئی الیکٹرانک سامان چھپا نہیں رکھا ہے۔ اس کے بعد ان طالبات نے دوبارہ حجاب پہننا شروع کردیا۔ استاد ششی بھوشن نے دوبارہ حجاب پہننے سے طالبات کو منع کرتے ہوئے کہا کہ ’’دیش کا کھاتی ہو اور پاکستان کا گانا گاتی ہو‘‘۔ شہریت پر سوال اٹھائے جانے پر طالبات چراغ پا ہوگئیں اور احتجاج کرنا شروع کردیا۔ کالج کے باہر طالبات کے احتجاج کی خبر ملتے ہی مقامی پولیس اسٹیشن مٹھا پورہ کے ایس ایچ او نے خواتین کانسٹیبلوں کے ہمراہ جائے وقوع کا دورہ کرکے حالات کو پرامن بنانے کی کوشش کی۔ کالج کی پرنسپل ڈاکٹر کنو پریا نے جو کالج سے باہر تھیں کالج پہنچ کر حالات کو پرسکون کیا مگر اس واقعے کے بعد کالج کی پرنسپل نے اس پورے معاملے میں مسلم طالبات کوہی کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش شروع کردی۔ جبکہ پرنسپل کی حیثیت سے ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس پورے معاملے کی آزادانہ جانچ کرواتیں۔ طالبات کو پاکستانی ہونے کا طعنہ دینے والے استاد کو کلین چٹ دینے کے بجائے معاملے کی تہہ تک پہنچتیں مگر امتحان کے دوران کالج سے غائب رہنے اور ہنگامہ کے بعد بھی کافی دیر سے پہنچنے والی پرنسپل نے سوالات سے بچنے کے لیے طالبات کو ہی ذمہ دار ٹھہرادیا۔
پرنسپل ڈاکٹر پریا کہتی ہیں کہ امتحان سے قبل ان طالبات کو موبائل جمع کرنے اور بلیو ٹوتھ ہٹانے کی ہدایت دی گئی تھی مگر ان طالبات نے پورے معاملے کو مذہبی رنگ دے دیا۔ احتجاج کرنے والی طالبات کی کم حاضری کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر پریا نے کہا کہ یہ بہت شرم ناک بات ہے کہ ان طالبات کی حاضری 75 فیصد سے کم ہے۔ وزیر تعلیم اور یونیورسٹی کی ہدایت ہے کہ 75فیصد سے کم حاضری پرفائنل امتحانات میں بیٹھنے کی اجازت نہ دی جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ استاد کے خلاف الزام سراسر غلط ہے۔ حجاب کی کوئی بات نہیں ہوئی انہوں نے ملک دشمن اور پاکستان جانے جیسی کوئی بات نہیں کہی۔ یہ لوگ غیر ضروری دباؤ ڈال رہے ہیں تاکہ کالج انتظامیہ ان کے مطالبات کے آگے جھک جائے۔
کالج کی پرنسپل کا یہ بیان تضادات پر مبنی ہے۔ ایک طرف وہ کہہ رہی کہ ہیں ان طالبات کو امتحان ہال میں موبائل فون اور بلیو ٹوتھ ڈیوائس نہ لے جانے کے لیے چیکنگ کرانے کی ہدایت دی گئی تھی تو دوسری طرف دعویٰ کررہی ہیں کہ ان طالبات کی 75فیصد حاضری نہیں تھی اس لیے دبائو بنانے کے لیے اس طرح کے الزامات عائد کیے جارہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب ان کی 75فیصد حاضری کم تھی تو ان طالبات کو دیگر پرچوں کے امتحان کیسے لکھنے دیا گیا، کیوں کہ 16اکتوبر کو امتحان کا آخری دن تھا۔ طالبات کا کہنا ہے کہ انہوں نے ان کا موقف سنے بغیر ہی یہ دعویٰ کردیا کہ ملک دشمن اور پاکستانی ہونے کا طعنہ نہیں دیا گیا۔ ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ ان طالبا ت کا مطالبہ تھا کہ اگر ان پر شک ہے کہ حجاب کی آڑ میں انھوں نے کان میں بلیو ٹوتھ ڈیوائس لگا رکھا ہے تو اس کی جانچ کے لیے خاتون نگراں کو بلایا جاتا؟ سوال یہ بھی ہے کہ لڑکیوں کے کالج میں امتحانات میں نقل نویسی روکنے کے لیے جانچ کی اس پوری کارروائی ایک مرد ٹیچر کیسے انجام دے سکتا ہے، خاتون ٹیچر موجود کیوں نہیں تھی۔ خود پرنسپل کی غیر حاضری پر بھی سوال اٹھنا چاہیے۔
بہار ریاستی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین پروفیسر یونس حسین حکیم بتاتے ہیں کہ فروری میں جب بینک کا معاملہ سامنے آیا تھا تو ہم نے یوکو بینک کے ایم ڈی کو خط لکھ کر قصوروار عملے کے خلاف کارروائی کی ہدایت دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس بات کو یقینی بنایاجائے کہ اس طرح کے معاملات دوبارہ پیش نہ آئیں اوراس معاملے میں ایڈوائزری جاری کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد ہی بینک نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھاکہ ’’بینک شہریوں کے مذہبی جذبات کا احترام کرتا ہے اور اپنے معزز صارفین کے ساتھ ذات پات یا مذہب کی بنیاد پر امتیاز نہیں کرتا۔ بینک اس معاملے پر حقائق کی جانچ کر رہا ہے۔ اسکول و کالج میں حجاب کے تنازع پر انہوں نے کہا کہ حکومت بہار کا موقف اس معاملے میں واضح ہے اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی اور مظفر پور کالج میں ہونے والے واقعہ کا ہم نوٹس لے رہے ہیں ۔
بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے کہا تھا کہ بہارمیں حجاب کوئی مسئلہ نہیں ہے، ہمیں ایسی چیزوں پر توجہ نہیں دینا چاہیے۔ جنتا کے دربار میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’بہار کے اسکولوں میں بچے تقریباً ایک ہی قسم کا لباس پہنتے ہیں۔ اگر کوئی سر پر کوئی چیز رکھ دے تو اس پر تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہم ایسے معاملات میں مداخلت نہیں کرتے۔ ہم ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہیں۔ نتیش کمار کی صاف گوئی اپنی جگہ مگر اس طرح کے تنازعات کا تسلسل ان کے قول و عمل کے تضادات کو عیاں کرتے ہیں۔ انہیں بیان دینے سے قبل عملی طور پربھی مذہبی آزادی کو نافذ کرنا ہوگا۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 اکتوبر تا 05 نومبر 2022