بہار میں ذات پات کی بنیاد پر اقتصادی سروے، کئی حقائق طشت از بام
مسلمانوں کی معاشی حالت قدرے بہتر مگر تعلیمی حالت خراب
کولکاتا،(دعوت نیوز بیورو )
موجودہ انتخابات میں متعصب سیاسی جماعتیں بھی ریزرویشن اور حقوق کی بحالی جیسی باتیں کرنے پر مجبور
بہار میں ذات پات کی بنیاد پر سروے رپورٹ کا دوسرا حصہ ابھی پچھلے دنوں منظر عام پر آیا ہے جس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے برخلاف ریزرویشن کی حد 75 فیصد کر دی گئی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس بل کی حمایت ریاست کی تمام سیاسی جماعتوں نے کی اور بی جے پی نے تو اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش بھی کی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس وقت بہار کی سیاست میں کوئی بھی سیاسی جماعت ریزرویشن کی مخالفت کرنے کی ہمت نہیں رکھتی ہے۔ تاہم اقتصادی سروے میں بہار کی جو مجموعی تصویر پیش کی گئی ہے وہ انتہائی تشویش ناک ہے۔ اس سے ملک میں موجود عدم مساوات کا صاف پتہ چلتا ہے اور یہ ثابت ہوتا ہے کہ بہار، ملک کی بیمار ترین ریاستوں میں سے ایک ہے۔ بہار میں ایک تہائی خاندان ایسے ہیں جو ماہانہ چھ روپے یا اس سے بھی کم کماتے ہیں۔ یہی صورت حال تعلیم کی بھی ہے کیونکہ بہار کی تیرہ کروڑ سے زیادہ کی آبادی میں سے صرف 6.11 فیصد افراد گریجویٹ ہیں۔ 3,92,364 افراد انجینئر ہیں اور 74,175 ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں 22.67 فیصد نے صرف پانچویں جماعت اور 14 فیصد چھٹی اور آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہوئی ہے۔ تعلیم کی اس شرح کو اگر پسماندہ، دلت اور اقلیتوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو تصویر انتہائی بھیانک ہو جاتی ہے۔ اگرچہ نتیش کمار کے دور اقتدار میں 2015 کے مقابلے میں بہار میں شرح خواندگی پچاس فیصد سے بڑھ کر ستر فیصد ہوگئی ہے مگر یہ اب بھی قومی سطح کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ بہار میں جہاں اعلیٰ ذاتوں میں غربت کی شرح پچیس فیصد ہے وہیں انتہائی پسماندہ اور دلتوں میں غربت کی شرح پچاس فیصد کے قریب ہے۔حیرت انگیز طور پر اس سروے میں مسلمانوں میں غربت کی شرح سب سے کم 17.5 فیصد دکھائی گئی ہے۔ یہ مسلمانوں کی مجموعی تصویر ہے لیکن بہار کے مسلمانوں کے پسماندہ اور انتہائی پسماندہ مسلمانوں کی تعلیمی شرح کی رپورٹ بھی ملاحظہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
ایسے میں سوال کیا جاسکتا ہے کہ 1990 سے جبکہ بہار میں سماجی مساوات کا نعرہ لگانے والے سیاسی لیڈر لالو پرساد یادو، رابڑی دیوی اور نتیش کمار جیسوں کی حکومت چل رہی ہے، اس کے باوجود سماجی مساوات کہیں بھی نظر نہیں آرہی ہے تو پھر یہ ناکامی کس کی ہے؟ اس کے لیے جواب دہی کس کی بنتی ہے؟ نتیش کمار نے اپنی سوشل انجینئرنگ کے ذریعہ اس پوری بحث کا رخ دوسری جانب موڑ دیا ہے۔ اس کی وجہ سے بہار کی اپوزیشن بی جے پی بھی اس سے متعلق سوالات پوچھنے سے کترا رہی ہے۔ دراصل نتیش کمار کے دور اقتدار میں بی جے پی طویل مدت تک اقتدار میں حصہ دار رہی ہے، گویا بہار کی تین بڑی جماعتیں راشٹریہ جنتا دل، جنتا دل یو اور بی جے پی گزشتہ بتیس سالوں سے اقتدار میں حصہ دار رہنے کے باوجود بہار میں ہیومن ڈیولپمنٹ میں ناکام رہی ہیں۔
بنگال کے بعد سب سے زیادہ ملک کی دوسری ریاستوں میں بہار سے تعلق رکھنے والے مہاجر مزدوروں کی کھپت ہے۔ اقتصادی سروے کے مطابق پچاس لاکھ سے زیادہ بہاری روزی روٹی یا تعلیم کے بہتر مواقع کی تلاش میں ملک کی دیگر ریاستوں میں بھٹک رہے ہیں۔ دوسری ریاستوں میں روزی کمانے والوں کی تعداد تقریباً چھیالیس لاکھ ہے، 2.7 لاکھ افراد بیرون ممالک میں روزگار کے لیے جاتے ہیں۔دوسری ریاستوں میں تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد تقریباً 5.25 لاکھ ہے جبکہ تقریباً ستائیس ہزار افراد بیرون ممالک تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
1989 میں وی پی سنگھ کی زیر قیادت مرکزی حکومت کی طرف سے منظور شدہ منڈل کمیشن کی رپورٹ نے بھارتی سیاست کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ اس سے بہار اور اڑیسہ جیسی کئی ریاستوں میں سماج وادیوں کی حکم رانی کی راہ ہموار ہوئی تھی جہاں ان کا غلبہ آج بھی کئی مقامات پر برقرار ہے، جبکہ اسی رپورٹ سے یو پی، ہریانہ اور کرناٹک میں سماج وادیوں کی سیاست اور ان کا غلبہ ختم ہوگیا تھا۔
نتیش کمار اور لالو پرساد یادو دونوں کی سیاست او بی سی سیاست پر مرکوز تھی مگر دونوں میں فرق تھا۔ نتیش کمار کی سوشل انجینئرنگ کا دائرہ کار زیادہ وسیع تھا اسی لیے ان کے ساتھ بی جے پی جیسی انتہائی متعصب پارٹی نے بھی قدم سے قدم ملا کر چلنے میں ہی عافیت محسوس کی۔ اس وقت نتیش کمار بی جے پی سے علیحدہ ہو چکے ہیں اور امید یہی ہے کہ اگلے لوک سبھا انتخابات تک وہ سیاسی وفادار ی تبدیل نہیں کریں گے۔ نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی نے ہندوتوا سیاست کے ذریعہ او بی سی کی سیاست کو غیر موثر کر دیا ہے۔ نتیش کمار نے بی جے پی کی اسی سیاست کو کند کرنے کے لیے ذات پات کے سروے کو آگے بڑھایا ہے اس کے لیے انہوں نے ریزرویشن کی حد کو بھی آگے بڑھایا ہے۔ راہل گاندھی گانگریس کی ریزرویشن مخالف بوڑھی لیڈرشپ کو خاموش کرواکے پورے ملک میں ذات پات کے سروے کی بنیاد پر جس کی جتنی سنکیا بھاری اس کی اتنی بھاگیداری کا نعرہ لگا کر ہندوتوا کی سیاست کے مقابلے میں سماجی انصاف کی سیاست کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ نتیش کمار اسی وجہ سے گاندھی سے ناراض ہیں۔ نتیش کمار کی خواہش تھی کہ وہ سماجی انصاف کے سب سے بڑے علم بردار بن کر سامنے آئیں مگر راہل گاندھی خود اس کے چمپین بن گئے ہیں۔
اس پوری سیاسی بیان بازی سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بہار ہی نہیں ملک بھر میں پسماندگی کا سوال ہمیشہ سیاست کا موضوع رہا ہے، مگر زمینی حقائق میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ نتیش کمار نے غربت کے شکار افراد کے لیے مالی مدد اور گھر کی تعمیر کے لیے فنڈز دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے تعلیم کی نمائندگی بڑھانے کے لیے مناسب اقدامات کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا سماجی پسماندگی کا خاتمہ صرف ریزرویشن کے ذریعہ ہی ہو سکے گا؟ ظاہر ہے کہ ریزرویشن ناکافی عمل ہے۔ ہمہ جہت ترقی کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
آخری سوال یہ ہے کہ اس پورے منظر نامے میں مسلمان کہاں ہیں؟ اگرچہ غربت کے اعتبار سے مسلمانوں کی صورت حال دوسری برادریوں کے مقابلے کچھ بہتر بتائی جا رہی ہے مگر تعلیمی صورت حال کسی بھی زاویے سے بہتر نہیں ہے۔ اس پوری سروے رپورٹ کا تفصیلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ مسلمانوں کو مالی حالت کے اعتبار سے انہیں او بی سی اور انتہائی پسماندہ برادریوں کی فہرست میں شامل کیا جائے۔ اگرچہ بی جے پی اس معاملے میں نتیش کمار کے ساتھ نظر آ رہی ہے مگر امیت شاہ نے مظفر پور کی ریلی میں جو بیانات دیے ہیں اس سے واضح ہوگیا ہے کہ وہ اس پورے منظر نامہ میں یادو اور مسلم مخالف بیان بازی کرکے اپنی الگ راہ نکالنے کی کوشش کریں گے۔ بی جے پی لیڈر یہ تاثر دینے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ او بی سی میں مسلم برادریوں کو شامل کرکے ہندوؤں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں حکمت عملی سے کام کرنے کی ضرورت ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنے حقوق و مطالبات سے دست بردار ہوا جائے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 نومبر تا 25 نومبر 2023