’’بی اماں‘‘ جنہوں نے تحریک خلافت و آزادی کو اپنا خون جگر دیا تھا
مسلم شناخت کے باوجود ملک کے ہر طبقہ میں ہر دلعزیز تھیں تحریک خلافت کے 100 سال یوم خواتین پر خاص مضمون
افرو عالم ساحل
یہ بات آج سے ٹھیک سو سال پہلے بیسویں صدی کی دوسری و تیسری دہائی کی ہے جب سارے ہندوستان میں ’بی اماں’ کا طوطی بولتا تھا۔ وہ اپنے زمانہ کی سب سے زیادہ مشہور ومحترم اور ہر دلعزیز شخصیت تھیں۔ خلافت تحریک کے دور میں وہ قومی یکجہتی اور قومی بیداری کی علامت بن گئی تھیں۔ گاندھی جی انہیں ماں کا درجہ دیتے تھے اور ان کا بے حد احترام کرتے تھے۔ گاندھی جی بی امّاں پر بہت بھروسہ کرتے تھے۔ ایک مرتبہ جیل جاتے ہوئے انھوں نے بی امّاں کو اپنا قائم مقام بنایا تھا۔ ان کی غیر حاضری میں تمام احکامات بی امّاں سے حاصل کیے جاتے تھے۔ گاندھی جی نے خاص طور سے یہ ہدایت دے رکھی تھی کہ بی امّاں کو کبھی گرفتار نہ ہونے دیا جائے۔
’بی اماں‘ ہماری قومی تحریک کا ایک سنہرا باب تھیں۔ علی برادران انھیں ’بی اماں‘ کہتے تھے اور جب وہ عوام کے درمیان آئیں تو انہیں براہ راست ’بی اماں‘ کہہ کر مخاطب کیا پھر عوام نے بھی انہیں اسی نام سے پکارنا شروع کیا۔ اس طرح وہ پوری دنیا کے لیے ’بی اماں‘ بن گئیں۔ وہ بہت بلند ہمت، روشن خیال، دوراندیش اور محب وطن خاتون تھیں، جہاں بھی جاتیں ایک جم غفیر ان کے ساتھ ہو جاتا۔ وہ جس جلسہ میں تقریر کرتیں اس میں انسانوں کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگتا۔
20 نومبر 1924 کو گاندھی جی ینگ انڈیا میں لکھتے ہیں۔ بی اماں کی عوامی جلسوں میں ان کی بلند آواز کو کون نہیں جانتا؟ بڑھاپے کے باوجود ان کی آواز میں جوانوں جیسی طاقت تھی۔
رامپور کی رہنے والی بی اماں کے شوہر عبدالعلی تین چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ کر عین جوانی میں دنیا سے رخصت ہو گئے تھے لیکن بہادر بی اماں نے بڑے صبر و ضبط سے زندگی کی سختیوں کا مقابلہ کیا۔ ایسے ناگہانی حالات میں بھی بی اماں نے بلند حوصلے کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے بیٹوں کو دینی و دنیاوی علوم سے آراستہ کیا اور ساتھ ہی ہندوستان کی آزادی کے لیے نہ صرف اپنے بچوں کو آگے بڑھاتی رہیں بلکہ خود بھی خواتین کے درمیان تحریک آزادی کی مہم میں بڑھ چڑھ کا حصہ لیتی رہیں۔ کئی بار پولیس کے ذریعہ ان پر آنسو گیس اور لاٹھی چارج بھی کیا گیا لیکن اس سے بی اماں کے عزم پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ انہوں نے بچوں کی تعلیم کے لیے اپنی تمام جائیداد فروخت کر دی۔ جب سب سے چھوٹے بیٹے محمد علی اعلیٰ تعلیم کے لیے آکسفورڈ گئے تو بی اماں نے اپنے زیورات بیچ کر روپیہ فراہم کیا۔
بی اماں کا اصل نام عبادی بانو بیگم تھا۔ ان کی تاریخ پیدائش میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بیٹے محمد علی جوہر نے21 نومبر 1924 کے کامریڈ میں لکھا کہ ’بی اماں‘ کی صحیح تاریخ پیدائش معلوم نہیں۔ البتہ مرحومہ کہا کرتی تھیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ غدر کے زمانے میں میری عمر پانچ چھ سال کی تھی۔ اس بنیاد پر ان کا سال پیدائش 1852 اور ان کی عمر میں نے 72 سال لکھی ہے۔
بی امّاں کی سیاسی زندگی کا آغاز اُس وقت ہوا جب علی برادران کو قانون تحفظ ہند کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ مولانا نے اپنے اخبار ’لندن ٹائمز‘ کے ایک اشتعال انگیز مضمون کا جواب دیا تھا۔ انھیں چھندواڑہ میں پہلے نظر بند رکھا گیا پھر بیتول جیل میں قید کیا گیا۔ بی امّاں نے اُس وقت فخر سے کہا تھا، ” یہ عزت (قید) اُن لوگوں کے لیے ہے جن کو خدا اپنے مذہب اور اپنے ملک کی خاطر تکلیفیں برداشت کرنے کی طاقت دیتا ہے“
تحریک خلافت اور تحریک عدم تعاون میں خواتین بھی کسی سے پیچھے نہیں تھیں۔ بلکہ جب محمد علی جوہر اور شوکت علی جیل گئے تو بی اماں نے ان کی جگہ خود لے لی۔ آج سے ٹھیک سو سال قبل ’بی اماں‘ یعنی عبادی بانو بیگم پورے ہندوستان کا دورہ کر رہی تھیں۔ ہر شہر، ہر گاؤں اور ہر محلے تک عدم تعاون اور خلافت کا پرچم لے کر جا رہی تھیں، گلی سے لے کر نکڑ تک انگریز حکومت کے ذریعے لائے گئے کالے قانون ’رولٹ ایکٹ‘ کی مخالفت کر رہی تھیں۔ پورے ملک میں عدم تعاون کی حکمت عملی کی تشہیر کر رہی تھیں۔ پنجاب پر ہوئے ظلم کی داستان سنا رہی تھیں۔ ان کی تقریر سن کر عورتیں تلک فنڈ اور خلافت کمیٹی کے لیے اپنے گہنے و زیورات دیا کرتی تھیں۔ اس طرح کئی لاکھ روپے کا چندہ اس زمانے میں جمع کیا۔ ان کے جذبے سے برطانوی حکومت گھبرا گئی، ان کے جذبے کو توڑنے کے لیے ان کے دونوں بیٹوں کو جیل میں ڈال دیا۔ تو یہ اٹھ کھڑی ہوئیں اور للکار کر کہنے لگیں "دودھ ہرگز نہ بخشوں گی تم کو، میں دلاور نہ سمجھوں گی تم کو، جان بیٹا خلافت پہ دے دو”۔۔۔
یہی نہیں، انھوں نے اس دوران جیل میں قید اپنے بیٹوں کے نام پیغام بھی بھیجا۔ اس پیغام میں انہوں نے کہا تھا کہ "میرے بیٹو! بہادر بنو اور لڑائی کو ترک مت کرو، معافی بھی مت مانگو۔”
دراصل بی اماں چاہتی تھیں کہ ہندوستان کو آزادی تو ملے ہی، مسلمانوں کو بھی ان کا مناسب حق دیا جائے۔ یہی سبب ہے کہ انھوں نے اپنے بیٹوں کو ملک کی آزادی اور حقوق مسلم کی خاطر اپنی زندگیاں قربان کرنے کی نصیحت دے رکھی تھی۔ وہ اول ہندوستانی خاتون ہیں جن کی صدارت میں آل انڈیا خواتین کانگریس ہندوستان کی آزادی پر بحث کرنے کے لیے طلب کی گئی۔ یہ کانگریس 30 دسمبر 1921 کو احمد آباد، گجرات میں منعقد ہوئی تھی جس میں سروجنی نائیڈو، کستوبار گاندھی، انوسیا بائی، بیگم حسرت موہانی، امجدی بیگم، بیگم مختار احمد انصاری، بیگم سیف الدین کچلو وغیرہ موجود تھیں۔
اس کانگریس کی صدارتی تقریر میں انھوں نے کہا تھا:” جو شخص خدا کے ساتھ وفادار نہ ہو وہ کسی بھی حکومت کے ساتھ، جسے انسان نے قائم کیا ہو، وفادار نہیں رہ سکتا۔ ضرورت ہے کہ ہم اپنے مابین اتحاد و اتفاق پیدا کریں۔ تجربے نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ ہمارے ملک میں جو مختلف قومیں اور فرقے آباد ہیں ان میں اتحاد و اتفاق قائم کیے بغیر ہم ملک کو آزاد نہیں کرا سکتے۔“
اس آل انڈیا خواتین کانگریس کے بارے گاندھی جی نے 5 جنوری 1922 کے ینگ انڈیا میں تفصیل سے لکھا ہے اور بی اماں کی خوب تعریف کی ہے۔
1922 میں بہار کا بھی دورہ کیا۔ پورے بہار میں گھوم گھوم کر یہاں کے لوگوں کو بیدار کیا اور لوگوں میں اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ان کی خاص توجہ ہندو مسلم اتحاد پر رہی۔
11 فروری 1922 کو مظفر پور کے تلک گراؤنڈ میں بی اماں نے اپنی تقریر کی شروعات کچھ اس طرح کی، ’’میرے ہندو اور مسلمان بھائیو اور بچو! دونوں طبقے میرے نزدیک دو آنکھ کی طرح ہیں۔ میں نہیں چاہتی کہ میری ایک آنکھ کی بینائی ختم ہوجائے اور دوسری طاقتور ہو۔ میں اسی طرح یہودیوں، پارسیوں اور عیسائیوں کی عزت کرتی ہوں۔ میرے لیے آپ شوکت علی اور محمد علی کی طرح ہیں۔ مجھے شوکت و محمد کی فکر نہیں ہے۔ انہیں میں نے اللہ کے سپرد کر دیا ہے۔ میں آپ لوگوں کی گردن سے طوق غلامی اتار پھینکنے کے لیے بیتاب ہوں۔ مجھے آپ کی آزادی مقصود ہے۔ آپ میں اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی طاقت ہے۔ آپ آزاد ہیں کسی کے غلام نہیں۔ اپنی دوستی کو کپاس کی طرح ثابت کر دیجیے جو زندگی بھر ساتھ دیتی ہے اور مرنے کے بعد بھی ساتھ نہیں چھوڑتی۔‘‘
بی اماں کے ساتھ ان کی بہو و مولانا محمد علی جوہر کی بیوی امجدی بانو بیگم ہمیشہ سائے کی طرح ساتھ رہیں۔ انہوں نے 1920 میں خلافت تحریک کے لیے ’بی اماں‘ کی مدد سے 40 لاکھ روپیوں کا فنڈ جمع کیا تھا۔
گاندھی جی نے انہیں ’’بہادر عورت‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ گاندھی جی 29 نومبر 1921 کے ینگ انڈیا کے شمارے میں لکھتے ہیں۔ ’بیگم محمد علی جوہر کے ساتھ کام کرنے پر مجھے بہت ساری چیزوں کا تجربہ ہوا۔ وہ شروع ہی سے اپنے شوہر کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی تھیں۔ انہوں نے نہ صرف خلافت تحریک کے لیے فنڈ اکٹھا کیا بلکہ وہ ہم لوگوں کے ساتھ بہار، بنگال، آسام جیسے ریاستوں کے دورے پر بھی گئیں اور لوگوں کے اندر انقلاب کا مشعل جلایا۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ کسی بھی صورت میں اپنے شوہر سے کم نہیں تھیں‘‘۔
مدراس سمندر کے کنارے ایک عظیم جلسہ منعقد گیا تھا، جس میں بیگم محمد علی نے ایک زبردست انقلابی تقریر کی، جسے عوام نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ان کی تقریر لاجواب تھی۔ ‘گاندھی جی کو ہمیشہ بی اماں کی فکر لگی رہی۔ جب بھی گاندھی جی علی برادران کو خط لکھتے تھے تو وہ بی اماں کے بارے میں ضرور پوچھتے تھے۔’
آج جو پورے ملک میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جو مظاہرے ہو رہے ہیں، ان میں مسلم خواتین کی شناخت کو لے کر چند لوگوں کو اعتراض ہے۔ ان کے لیے یہاں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ گاندھی جی نے ہمیشہ بی اماں کی تعریف ہی کی ہے اور اس فراخ دلانہ تعریف میں بہ حیثیت مسلمان بی اماں کی مذہبی شناخت کبھی بھی حائل نہیں ہوئی۔
گاندھی جی 30 نومبر 1924 کے گجراتی اخبار نوجیون میں لکھتے ہیں۔ ’دین سے بی اماں کی محبت گہری تھی۔ ان کا مذہب پر اعتقاد مثالی تھا۔ ان کے حب الوطنی کی اصل وجہ اپنے مذہب سے محبت تھی، اور ان کی ہندو مسلم اتحاد کی خواہش کی وجہ بھی ان کا اپنے مذہب سے بے انتہا پیار ہی تھا۔ بعد میں ان کی حالت ایسی ہو گئی تھی کہ مذہب، ملک اور فرقہ وارانہ اتحاد، تینوں ان کے لیے ایک ہی چیز بن گئے تھے۔‘
13 نومبر 1924 کو بی امّاں ہمیشہ کے لیے اس دنیا کو الوداع کہہ کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملیں۔ 23 نومبر 1924 کو بمبئی میں صوبائی کانگریس کمیٹی، بمبئی سوراجیہ دل، مرکزی خلافت کمیٹی، راشٹریہ مہیلا سبھا اور نیشنل ہوم رول لیگ کے زیر اہتمام بی اماں کو خراج عقیدت پیش کرنے لیے ایک سوگ سبھا منعقد کی گئی تھی۔ یہ سبھا سروجنی نائیڈو کی زیر صدارت ہوئی جس میں گاندھی نے گجراتی میں تقریر کرتے ہوئے کہا، ’بی اماں بہت دور اندیش تھیں اور جب بھی میں دہلی میں ان سے ملنے جاتا تھا، وہ ہمیشہ یہی دعا کرتی تھیں کہ اللہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک ہونے کی حکمت عطا کرے۔گاندھی جی 30 نومبر 1924 کے نوجیون میں لکھتے ہیں۔’آج بی اماں کا جسم نہیں رہا، لیکن ان کے کام و الفاظ کا خاتمہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک ہندو اور مسلمانوں کی وجود باقی رہے گا۔