بھارتیہ کسان سنگھ: اس بات پہ حیرت ہے کہ تو بول پڑا ہے
رام لیلا میدان پر رام بھگت کسانوں کا ’رام راجیہ‘ کے خلاف احتجاج
ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی
سنگھی تنظیم کے میدان میں کود پڑنے سے زرعی محاذ پرحکومت کی ناکامی آشکار
سیاست کے عجائب خانے میں کبھی کبھار ایسے مناظر دکھائی دیتے ہیں کہ جن پر یقین کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ مثلاً بی جے پی کی زبردست انتخابی کامیابی کے دس دن بعد گجرات سے پرفل پٹیل نامی کسان کا دلی کے رام لیلا میدان میں احتجاج کے لیے آکر یہ کہنا کہ وہ مرکزی حکومت سے کچھ مطالبات کرنے کے لیے آیا ہے نیز دھمکی دینا کہ اگر انہیں مانا نہیں گیا تو وہ 2024ء کے قومی انتخاب میں سبق سکھا دےگا ۔مذکورہ مظاہرے میں اسٹیج سے اس کی اس طرح تائید کا ہونا کہ ’ہم اپنا حق مانگ رہے ہیں کسی سے بھیک نہیں مانگ رہے ہیں‘۔ راکیش ٹکیت کی بھارتیہ کسان یونین کے احتجاج میں اگر یہ بات کہی جاتی تو کسی کو حیرت نہ ہوتی لیکن اس ریلی کا اہتمام تو بھارتیہ کسان سنگھ یعنی سنگھ پریوار کی ایک تنظیم نے کیا تھا اس لیے یہ سوال اہم ہوجاتا ہے کہ آخر یہ رام بھکت کسان اپنے رام راجیہ کے خلاف رام لیلا میدان میں احتجاج کرنے پر کیوں مجبور ہوئے؟ کیا اب پانی سر سے اونچا ہو چکا ہے؟ کیا بی کے ایس کے لیے مودی سرکار پر تنقید کیے بغیر اپنے حواریوں کو ساتھ رکھنا مشکل ہو رہا ہے؟ سنگھی کسانوں کی حالت راحیل فاروق کے اس شعر کی مانندہے؎
راحیلؔ تری بات پہ حیرت نہیں ہم کو
اس بات پہ حیرت ہے کہ تو بول پڑا ہے
بی کے ایس ملک کی سب سے بڑی کسان تنظیم ہے۔ 2013ء میں اس نے دلی میں زبردست مظاہرہ کیا تھا ۔ مودی سرکار کے اقتدار میں آتے ہی یہ کوما میں چلی گئی۔ آٹھ سال بعد پہلی بار بھارتی کسان سنگھ نے مودی حکومت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی جرأت کی ہے۔ دو سال قبل جب بھارتیہ کسان سمیتی کے پرچم تلے کسانوں نے ایک زبردست تحریک شروع کی تو اس کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے کاٹھ کے ان گھوڑوں کو میدان میں لایا گیا لیکن وہ تجربہ بری طرح ناکام رہا۔ کسانوں کی عظیم تحریک کے دباو میں سرکاری ریموٹ کنٹرول کا کنکشن فیل ہوگیا اور جب حکومت کے سارے حربے ناکام ہوگئے تو اس نے ناک رگڑ کر نیا قانون واپس لے لیا۔ سنیوکت کسان مورچہ اس پر بھی نہیں مانا مگر جب حکومت نے لکھ کر وعدے کیے تو وہ تحریک واپس ہوئی۔ اس وعدہ وعید کو ایک سال کا وقفہ گزرگیا مگر عمل درآمد ہنوز ندارد ہے۔ اس لیے بی کے ایس کو ملک کے600 ضلعوں سے تقریباً ایک لاکھ کسانوں کے ساتھ رام لیلا میدان آنا پڑا۔
دلی میں کسان گرجنا ریلی میں حکومت سے قرضوں کی معافی، زرعی پیداوار کی مناسب قیمت اور فصلوں کی تباہی کے معاوضے کا مطالبہ کیا گیا جو کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ایک سال قبل مودی حکومت اس کا وعدہ کرکے بھول چکی ہے۔ اس کی یاد دہانی کے لیے ان کسانوں کو دلی آنے کی زحمت کرنی پڑی۔ اس موقع پر بی کے ایس کی مرکزی مجلسِ انتظامیہ کے رکن نانا آکھرے نے بتایا کہ زرعی پیداوار کی مناسب اجرت نہیں ملنے کے سبب کسان خودکشی کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ جس حکومت میں وزیر مملکت برائے امورِ داخلہ اجئے مشرا کا بیٹا آشیش مشرا دن دہاڑے کسانوں پر گاڑی چڑھا کر انہیں موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے، اس کے باوجود باپ اپنے بیٹے کے بے قصور ہونے کی دہائی دیتا ہے مگر اسے ہٹایا نہیں جاتا بلکہ انتخابی کامیابی بھی درج کروا دیتا ہے، ایسی حکومت میں کسانوں کا احتجاج بے معنیٰ اور ان کا مظاہرہ بے وقعت ہوکر رہ جاتا ہے۔ مودی اور شاہ کی جوڑی کو اس طرح کے احتجاج سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ان کے لیے تو بس اڈانی اور امبانی کی خوشنودی و خوشحالی کافی ہے۔
ملک میں کسانوں بے شمار مسائل ہیں۔ ان کی جانب بی کے ایس کی کسان ریلی میں حکومت توجہ مبذول کرائی گئی مثلاً پی ایم کسان نِدھی میں اضافہ، تمام زرعی پیداوار کو جی ایس ٹی سے استثناء کرنا اور جی ایم نامی بین الاقوامی بیج فراہم کرنے والی کمپنی کے لائسنس کی منسوخی، گنے کی قیمت، پی ایم سینچائی اسکیم کی ناکامی اور کاشتکاروں کو براہ راست سرکاری امداد کی ادائیگی وغیرہ۔ اس کے علاوہ مشرقی اتر پردیش یعنی پوروانچل سے آنے والے ہری کمار سنگھ نے مودی سرکار کو یاد دلایا ’’آپ نے انتخاب سے قبل آوارہ مویشیوں کا مسئلہ حل کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن ہنوز کچھ نہیں ہوا۔ آوارہ مویشی کھیتوں کی فصل تباہ کر رہے ہیں۔ ہمیں پوری رات چوکیداری کرنی پڑ رہی ہے۔ ہمیں گئو ماتا کا خیال رکھنے کے لیے جھوٹے وعدوں کے بجائے روپیہ دیں۔ اروناچل پردیش سے آنے والے گورنگ تڑپا کو شکایت ہے کہ ان کے بہترین سنترے بازار تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے سڑ جاتے ہیں ۔2019ء کے بعد سے کسی نئے کسان کا سرکاری اسکیم میں اندراج نہیں ہو سکا کیوں کہ صوبائی حکومت ضروری دستاویز فراہم نہیں کرتی۔ اس طرح گویا اروناچل پردیش کی ڈبل انجن سرکار کے بھی ٹربل (trouble) انجن سرکار ہونے کی تصدیق ہو گئی۔
اس ریلی میں نیلے کرتے اور جیکٹ میں ملبوس موہنی مشرا کے تیور تو کچھ زیادہ ہی تیز تھے۔ انہوں نے کہا ’کیا وزیر اعظم سن رہے ہیں؟ ہمیں اپنی آواز تیز کرنی ہو گی تاکہ وہ سن سکیں۔ وزیراعظم آپ کی وزارت تجارت کسانوں کی جانی دشمن معلوم ہوتی ہے۔ جیسے ہی ہماری فصل اچھی ہوتی ہے وہ برآمد پر پابندی لگا کر درآمد کی اجازت دے دیتی ہے۔ اس لیے کسانوں کی آمدنی نہیں ہوتی۔ کیا آپ کو ریاضی آتی ہے؟ اگر نہیں آتی تو کسانوں کی سب سے بڑی تنظیم بی کے ایس سے پوچھیں۔ آج ہم لوگ یہ سمجھانے کے لیے جمع ہوئے ہیں کہ کسانوں کو بہتر قیمت کیسے ملتی ہے؟ ہمیں پیداوار کے خرچ کی بنیاد پر مناسب قیمت چاہیے۔ ہم بھیک نہیں اپنا حق مانگ رہے ہیں‘‘۔ موہنی مشرا نے جی ایم بیج کی بابت بتایا کہ اس کی وجہ سے کینسر ہوتا ہے۔ وہ تمام ادویاتی پودوں کو مار ڈالتا ہے۔ وزیر اعظم حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کی بات کرتے ہیں جب کہ وزارتِ ماحولیات اسے تباہ کرنے کا انتظام کرتا ہے۔ یہ نہیں چلے گا وزیر اعظم، ہمیں زہر نہیں بلکہ نامیاتی (بیج) چاہیے۔ مشرا نے ’ہر کھیت میں پانی‘ والے نعرے کی بھی دھجیاں ادھیڑ دیں۔ منڈیوں کے اندر بدعنوانی اور کسانوں کی آمدنی کے دوگنا کرنے میں ناکامی پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔ ان کی تقریر پر یہ شعر صادق آتا ہے؎
جس جس کو بھی تھی ضبط کی خو بول پڑا ہے
سب بولنے والوں کا گرو بول پڑا ہے
اس مظاہرے کے دوران جب آوٹ لُک کے نامہ نگار نے بی کے ایس کے جنرل سکریٹری موہنی مشرا سے پوچھا کہ کیا خطوط اور داخلی گفت و شنید ناکام ہو گئی جو طاقت کے مظاہرے کی ضرورت پیش آئی؟ اس پر وہ بولے حکومت تو حکومت ہے ہم ملک کی سب سے بڑی غیر سرکاری تنظیم ہیں۔ سرکار کا کام پالیسی بنانا ہے اور اس پر اپنی رائے ظاہر کرنا ہمارا جمہوری حق ہے۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس حق کو گزشتہ آٹھ سال کے عرصے میں استعمال کیوں نہیں کیا گیا؟ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا بی کے ایس سے زرعی مسائل پر مشورہ نہیں کیا جاتا ؟ موہنی مشرا نے جواب دیا ہم سے رائے مشورہ ہوا۔ ہم نے وزیر ماحولیات اور سرکاری کمیٹی کے سامنے اپنا موقف واضح بھی کیا لیکن ایک لابی نے اسے منسوخ کروادیا۔ اب ہم پالیسی کے فیصلوں کو متاثر کرنے والی لابی کو بے نقاب کریں گے۔ ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے بیرونی ہاتھ ہے۔ بیج، کھاد اور زرعی مصنوعات بنانے والی امریکی اور غیر ملکی کمپنیاں اس میں ملوث ہیں۔ وہ حکومت کو غلط مشورے دیتی ہیں اور غلط فیصلے نافذ کرواتی ہیں۔ یعنی اب معاملہ اڈانی اور امبانی جیسے سودیشی دھناّ سیٹھوں سے آگے بڑھ کر عالمی سرمایہ داروں تک پہنچ گیا ہے اور مودی حکومت ان کا بھی آلۂ کار بن گئی ہے۔
موہنی مشرا نے جو سنگین الزامات لگائے ہیں اگر وہ راہل گاندھی یا کسان یونین لگاتی تو انہیں قوم دشمن غیر ملکی دلائل قرار دے دیا جاتا لیکن ان سنگھیوں کے ساتھ بی جے پی یہ بھی نہیں کرسکتی۔ ان سرکاری دامادوں پر یو اے پی اے بھی نہیں لگایا جا سکتا کیوں کہ انتخاب کے دوران عوام کو ورغلانے میں یہ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مودی حکومت پر ان الزامات کا ثبوت طلب کیے جانے پر یہ چونکانے والا انکشاف سامنے آیا کہ بی کے ایس کے ذریعہ لکھے جانے والے خطوط کا جعلی و فرسودہ اعدادو شمار کی مدد سے غلط جواب دیا جاتا ہے۔ وہ لوگ وزارت سے سوال کرتے ہیں تو غیر متعلق لوگوں سے بے معنیٰ جواب موصول ہوتا ہے۔ اس رویہ سے تنگ آکر بی کے ایس جی ایم مسٹرڈ کے خلاف مظاہرے کے بعد عدالت میں مفادِ عامہ کا مقدمہ کرنے والی ہے۔ بی کے ایس کے مطابق دنیا کے کسی حصے میں بھی اس بیج سے بہتر پیداوار نہیں ہوئی ہے۔ اس کو اجازت دینے کے لیے جس دیپک پینل کی سفارش کا حوالہ دیا جاتا ہے اس کی مہارت مشکوک تھی۔ کسان سنگھ کا الزام ہے کہ اس نظام میں کئی سائنسدانوں کی نیلامی ہوچکی ہے۔ جی ایم کو مسئلہ کا حل بتایا جاتا ہے جب کہ کاشتکار اس کاحل ہیں۔ ہندوستانی کسانوں کو تین سال کا وقت اور مالی ترغیب ملے تو ملک کو تلہن کے معاملے میں خود کفیل بنایا جاسکتا ہے۔
ایم ایس پی کسانوں کا نہایت اہم مطالبہ ہے مگر بی کے ایس اس سے مطمئن نہیں ہے۔ وہ خرچ کے مطابق معاوضے پر زور دیتی ہے۔ زرعی مراعات کو وہ صنعتوں کے بجائے براہِ راست کسانوں کو دینے کے حق میں ہے۔ وہ بدعنوان منڈیوں کسان بازار سے بدلنا چاہتی ہے۔ اس کا اعتراض ہے کہ دیگر لوگ جب جی ایس ٹی ادا کرتے ہیں تو انہیں اس کا کریڈٹ ملتا ہے لیکن کسان پائپ وغیرہ پر اٹھارہ فیصد جی ایس ٹی دے کر بھی محروم رہ جاتا ہے۔ بی کے ایس کے خیال میں قرض معافی سے کسانوں کا نہیں بلکہ بینکوں کا فائدہ ہوتا ہے۔ وہ مہنگائی کے لحاظ کسان اسکیم کے اعادہ کا مطالبہ کرتا ہے کیوں کہ اب 6,000 کافی نہیں ہے۔ بی کے ایس کسانوں کی آمدنی دوگنا کرنے پر مُصر ہے۔ سرکار کے اہم ادارے ایف ایس ایس اے آئی کی معتبریت پر سوال اٹھاتے ہوئے وہ پوچھتا ہے اس کا کام ملاوٹ کرنا ہے یا اس کا خاتمہ کرنا؟ ان تمام اعتراضات کے باوجود سرکار انہیں سنجیدگی سے نہیں لے گی کیونکہ اسے پتہ ہے انتخاب کے وقت یہ لوگ چاہیں نہ چاہیں مہر تو کمل پر ہی لگائیں گے۔ موجودہ سیاسی نظام میں جس سے نقصان کا خطرہ نہ ہو اس کی مجبوری کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ بی جے پی کا سنگھ کی تنظیموں کے ساتھ وہی رویہ ہے جو معاملہ سیکولر جماعتوں مسلمانوں کے ساتھ ہے ۔
کسان قانون کی واپسی سے قبل بی کے ایس نے قومی سطح پر احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس وقت وہ ایم ایس پی کی ادائیگی یا کسان قانون کی واپسی کا مطالبہ کررہی تھی۔ پچھلے سال ماہِ ستمبر میں کسان سنگھ کے یوگل کمار مشرا نے کہا تھا کہ ’’نریندر مودی کی سرکار آر ایس ایس نہیں چلاتی ورنہ ہمیں احتجاج کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مودی یا اٹل سمیت کوئی حکومت بھی کسانوں کی بابت سنجیدہ نہیں ہے۔ سرکار کو تین ہفتوں کا وقت دے کر ملک بھر میں دھرنے کیے گئے مگر معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ہو گیا۔ ان احمقوں کو اس وقت اندازہ نہیں تھا حکومت کسان قانون واپس بھی لے سکتی ہے اس لیے یہ سرکار کی حمایت میں کہہ رہے تھے وہ قانون میں ترمیم کے لیے تیار ہے مگر دیگر کسان تنظیمیں اس کے خاتمہ پر اصرار کرکے معاملہ بگاڑ رہی ہیں۔ مودی حکومت نے بی کے ایس کے بجائے سنیوکت کسان مورچہ سے معاہدہ کر کے اپنی ہی تنظیم کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔ اس کے بعد اپنا وقار بحال کرنے کے لیے امسال جنوری میں دس دنوں تک احتجاج کرنے کا اعلان کیا گیا لیکن اس پر بھی کسی نے توجہ نہیں دی اور اب رام لیلا میدان کا تماشا بھی ناکام ہو گیا۔
کسانوں کی خستہ حالی پر مودی حکومت کے بخیے ادھیڑتے ہوئے یوپی کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے کہا کہ جب سے بی جے پی حکومت تشکیل پائی ہے، کسانوں کے برے دن شروع ہو گئے ہیں۔ قرض معافی کے نام پر انہیں بہکایا گیا، سمان ندھی دے کر جبراً وصولی شروع کر دی گئی، بجلی بل معافی کا خواب دکھا کر ووٹ بٹورے گئے لیکن کوئی رعایت نہیں دی گئی، کسانوں کو مفت آبپاشی کی سہولت بھی نہیں ملی۔ گنا کسانوں کی بقایہ ادائیگی بھی نہیں ہو رہی ہے۔ کسان کی آمدنی دوگنی کرنے میں اتر پردیش حکومت پوری طرح ناکام رہی ہے۔ اکھلیش یادو کے مطابق یہ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ 80 کروڑ لوگوں کو اناج تقسیم کرنے کا ڈھنڈورا پیٹنے والی بی جے پی حکومت اناج پیدا کرنے والے کسانوں کے ساتھ دھوکے پر دھوکہ کرنے میں نہیں جھجک رہی ہے۔ مودی حکومت 2022ء تک کسانوں کی آمدنی دوگنا کرنا چاہتی تھی لیکن یہ ہدف محض بھاشن بازی اور انتخابی مہمات سے تو حاصل نہیں ہوسکتا تھا۔ اس لیے مہلت تو تمام ہو گئی مگر آمدنی مہنگائی کے لحاظ سے بھی نہیں بڑھی۔
یہ حسنِ اتفاق ہے زرعی محاذ پرحکومت کی ناکامی پر اس کا حامی سنگھ پریوار اور مخالف سماجوادی پارٹی یا کانگریس سبھی متفق ہیں۔ اس معاملے میں مکمل ناکامی کے بعد اب کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کے لیے مودی سرکار نے فرانس کے اینوٹیرا ایجی فرم کے ساتھ ایم او یو ( معاہدہ) کر کے انہیں بے وقوف بنانے کا نیا شگوفہ چھوڑا ہے۔ یہ دراصل حکومت کا کسانوں کے ساتھ ایک اور جھانسہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ ڈیزل، پٹرول، کھاد، بیج، جراثیم کش دوا جیسی زرعی استعمال کی چیزیں مسلسل مہنگی ہوتی جارہی ہیں۔ ایسے میں اگر کسی چمتکار سے کسانوں کی آمدنی دوگنی بھی ہو جائے تو ان کی بچت نہیں بڑھے گی؟ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت ان کو نظر انداز کیوں کر رہی ہے۔ موجودہ حکومت کو یہ یقین کیوں ہے ان مسائل کو حل کیے بغیر بھی وہ بڑے آرام سے اگلا انتخاب جیت جائے گی؟ اس کے پاس ایسا کون سا زندہ طلسمات ہے جس کے لگاتے ہی کسان اپنا سارا دکھ درد (عارضی طور پر) بھول بھال کر انتخاب میں کامیاب کر دیں گے؟ یہ میڈیا پر دستیاب فرقہ پرستی کی مفت شراب ہے جسے پلا کر مدہوش عوام کے ووٹ پرڈاکہ ڈالا جا رہا ہے۔
راہل گاندھی نے بھارت جوڑو یاترا میں دلی پہنچ کر لال قلعہ سے اس موضوع پر تفصیل سے گفتگو کی۔ انہوں نےکہا ’’آپ نے کبھی پوچھا کہ میڈیا چوبیس گھنٹے نفرت کی بات کیوں کرتا ہے؟ یہ آپ کا دھیان ہٹانے اور جیب کاٹنے کے لیے کرتا ہے۔ چوبیس گھنٹے ہندو مسلم، ہندو مسلم، کرکے اس کی آڑ میں عوام، کسانوں اور مزدوروں کا پیشہ سرمایہ داروں کی تجوری میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ ہوائی اڈے اور سڑکیں سیدھے ان (سرکار) کے مالک کی جیب میں بھیج دی جاتی ہیں۔ راہل گاندھی نے کہا کہ "اگر اس ملک کو کوئی روزگار دے سکتا ہے تو وہ کسان اور چھوٹے کاروباری ہی دے سکتے ہیں، کیوں کہ یہ لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ یہ لوگ چوبیس گھنٹے لگے رہتے ہیں لیکن ان کے لیے بینک کے دروازے بند رہتے ہیں۔ ہندوستان کے دو یا تین ارب پتی ہیں جن کو ایک لاکھ کروڑ، دو لاکھ کروڑ، تین لاکھ کروڑ آسانی سے دے دیے جاتے ہیں، لیکن کسان اور چھوٹے کاروباریوں کو بینک سے دھکیل کر نکال دیا جاتا ہے‘‘ انہوں نے کہا کہ "بھائیو! پورا ہندوستان جانتا ہے کہ یہ نریندر مودی کی سرکار نہیں ہے، یہ اڈانی امبانی کی سرکار ہے’’ یہ بات جس دن بھارتیہ کسان سنگھ کی سمجھ میں آجائے گی وہ مودی سرکار کے بجائے اڈانی اور امبانی کے خلاف محاذ چھیڑ دے گا اور جب یہ ہوگا تو دنیا دیکھے گی ؎
برداشت کی حدوں سے مرا دل گزر گیا
آندھی اٹھی تو ریت کا ٹیلہ بکھر گیا
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***
***
ڈیزل، پٹرول، کھاد، بیج، جراثیم کش دوا جیسی زرعی استعمال کی چیزیں مسلسل مہنگی ہوتی جارہی ہیں۔ ایسے میں اگر کسی چمتکار سے کسانوں کی آمدنی دوگنی بھی ہو جائے تو ان کی بچت نہیں بڑھے گی؟ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ سرکار ان کو نظر انداز کیوں کررہی ہے۔ موجودہ حکومت کو یہ یقین کیوں ہے ان مسائل کو حل کیے بغیر بھی وہ بڑے آرام سے اگلا انتخاب جیت جائے گی؟ اس کے پاس ایسا کون سا زندہ طلسمات ہے جس کے لگاتے ہی کسان اپنا سارا دکھ درد (عارضی طور پر) بھول بھال کر انتخاب میں کامیاب کردیں گے ؟ یہ میڈیا پردستیاب فرقہ پرستی کی مفت شراب ہے جسے پلا کر مدہوش عوام کے ووٹ پرڈاکہ ڈالا جارہا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 جنوری تا 07 جنوری 2023