بھارتی معیشت پر عالمی مندی کے سایے

تجارتی خسارہ کو قابو میں کرنے کے لیے برآمدات بڑھانا ضروری

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

معیشت کے ڈیجٹلائزیشن کو رفتار دینے، تحقیق و اختراعیت اور روزگار پیدا کرنے پر بھر پور توجہ دینے کی ضرورت
یہ حقیقت ہے کہ حالیہ دنوں میں عالمی مندی کے چیلنجز کے درمیان دنیا کے اکثر ممالک کی شرح نمو کم ہو گئی ہے، اس کے باوجود دنیا کی ریٹنگ ایجنسیاں بھارت کے شرح نمو کو بڑھاتی ہی رہیں۔ ماہ دسمبر میں عالمی بینک نے جاریہ مالیاتی سال میں ہماری جی ڈی پی کے شرح نمو کے ہدف کو 6.50 فیصد کے پہلے تخمینے سے بڑھا کر 6.9 فیصد کر دیا کیوں کہ ہمارے ملک میں اندرونی اور بیرونی چیلنجز کو برداشت کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ وہ اس لیے کہ ہماری شرح نمو 2022ء کی سہ ماہی میں بڑی تیزی سے بڑھی ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر روس-یوکرین جنگ اور دیگر عوامل کے باوجود بھارتی معیشت کی بنیاد کافی مستحکم دکھائی دے رہی ہے۔ عالمی بینک کی طرح دیگر ریٹنگ ایجنسی ’فچ‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ 2022-23 میں عالمی جی ڈی پی کی نمو 1.4 فیصد رہے گی۔ اس سے قبل یہ ہدف 1.7 فیصد تھا۔ ایسے حالات میں نے ’فچ‘ نے بھارت کے مالیاتی سال 2023ء کی جی ڈی کی شرح نمو کو سات فیصد پر قائم رکھا ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت دنیا بھر میں عالمی مندی کے خوف سے عالمی طلب میں کمی کا اثر ہمارے بر آمدات پر نظر آنے لگا ہے کیوں کہ امریکہ اور یوروپی یونین جیسے ترقی یافتہ ممالک کے مرکزی بینکوں کے ذریعے شرح سود کو بڑھائے جانے سے لوگوں کے ہاتھوں میں غیر ضروری اخراجات کے لیے کم رقم ہونے سے احتیاط کے ساتھ خرچ کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف ترقی پذیر ممالک چین، متحدہ عرب امارات، بنگلہ دیش، سعودی عرب اور ہانگ کانگ میں بھارت کے برآمدات میں بے حد کمی آئی ہے۔ اسی وجہ سے 2020ء کے اپریل تا اکتوبر کے دوران بھارت کا تجارتی خسارہ اچھل کر کا 173.4 ارب ڈالر ہو گیا۔ اس لیے ضروری ہو گیا ہے کہ ممکنہ عالمی مندی کے مد نظر ملک سے اکسپورٹ بڑھانے اور تجارتی خسارہ کے چیلنج کو کم کرنے کے لیے منصوبہ بند طریقہ سے اقدام کیے جائیں تاکہ ملک کی نئی لاجسٹک 2022ء اور اسٹارٹ اپ پلان کی بہتر منصوبہ بندی سے بھارت کو معاشی میدان میں تیزی سے مقابلہ کرتے ہوئے اچھا برآمداتی ملک بنایا جاسکے۔ خوش قسمتی سے ہمارا ملک زراعت میں خود کفیل ہے۔ اس لیے دنیا کی بڑھتی خوردنی ضرورت کے مدنظر ہمیں غذائی اشیاء سے برآمدات میں بھر پور اضافہ کرنا ہوگا۔ وزارت زراعت کی ایک رپورٹ کے مطابق 22-2021 کے دوران ملک سے 150 ارب ڈالر سے زیاده ریکارڈ زرعی برآمدات ہوئے۔ اس لیے اب ہماری حکومت ملک میں زیادہ زرعی صنعتوں کو فروغ دے کر خوردنی پیداوار کی مینوفیکچرنگ ہب بنانے کا لائحہ عمل بنا رہی ہے۔ اسی سمت میں بھارت آسٹریلیا اور یو اے ای جیسے ممالک کے ساتھ آزاد تجارت (ایف ٹی اے) سمجھوتوں کے بعد یورپی یونین کے علاوہ برطانیہ، کناڈا اور خلیجی ممالک (جی سی سی) کے 16 رکن ممالک، امریکہ، اسرائیل اور جنوبی افریقہ کے ساتھ ایف ٹی اے کے لیے رابطہ بڑھا رہا ہے۔ اس سے بھارت کی برآمدات بڑھانے اور تجارتی خسارہ کو کم کرنے کی مساعی کو قوت ملے گی۔ ادھر آر بی آئی نے یکم نومبر کو ڈیجیٹل روپے کی تجرباتی شروعات کی ہے۔ اس میں مزید تیزی لانے کے لیے گزشتہ 9 نومبر کو غیر ملکی تجارتی فیڈریشن کے ذریعے روپے میں لین دین کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے بھی توقع ہے کہ بھارتی برآمدات میں مزید اضافہ ہوگا اور تجارت کے ساتھ ساتھ جارتی خسارہ کو کنٹرول کیا جاسکے گا۔
واضح رہے کہ روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔ آج ایک ڈالر تقریباً 84 روپے کا ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دور حکومت میں ڈالر 66 روپے ہوا تو اس وقت کے وزیر اعلیٰ مسٹر مودی نے طنزاً کہا تھا روپیہ آئی سی یو میں ہے۔ موجودہ حالات میں روپے کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ آئی سی یو سے مردہ گھر پہنچ چکا ہے۔ زر مبادلہ جو 606 ارب ڈالر سے بھی زیادہ تھا کم ہوکر 561 ارب ڈلر رہ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیر ملکی سرمایہ دار شیئر بازار سے گزشتہ ہفتہ چھ لاکھ کروڑ نکال چکے ہیں۔ ہماری صنعتیں اپنی پوری صلاحیت سے کام نہیں کررہی ہیں اور ان کی پیداوار میں چار فیصد کی تنزلی آئی ہے۔ ہماری صنعتیں اپنی پوری صلاحیت سے کام نہیں کر رہی ہیں اور ان کی پیداوار میں چار فیصد کی تنزلی آئی ہے۔ ملک کی 17 بڑی صنعتوں میں شرح نمو منفی ہے اگرچہ ہماری جملہ باز حکومت کا دعویٰ ہے کہ بھارتی معیشت کی شرح نمو دنیا میں سب سے تیز ہے۔ اگر معیشت کی رفتار تیز ہوتی تو چار کروڑ سے زیادہ ملک کے نوجوان بے روزگار نہیں ہوتے۔ اس وجہ سے ہماری 60 کروڑ کی آبادی پانچ کلو اناج کے سہارے زندگی نہیں گزارتی ۔ دوسری طرف حکومت کی غلط پالیسی کی وجہ سے امیروں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ غریب کروڑوں کی تعداد میں خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ حکومت گزشتہ پانچ سالوں میں کارپوریٹ گھرانوں کے دس لاکھ کروڑ روپے کے قرض کو معاف کرنے پر مجبور ہوئی کیوں کہ حکومت سازی میں انہیں گھرانوں کا بڑا رول رہتا ہے۔ ایسے حالات میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ہماری معیشت کسی بھی طرح مستحکم نہیں ہے۔ معیشت کی بنیاد جب تک مستحکم نہیں ہوگی برآمدات میں اضافہ ممکن نہیں ہے۔
ہمارے امپور-ایکسپورٹ کی نکمی پالیسی کی وجہ سے برآمدات کافی متاثر ہوا ہے۔ حالیہ دنوں میں چین کے کسٹم ڈپارٹمنٹ سے شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان جنوری 2022ء سے ستمبر 2022ء یعنی نو ماہ کے دوران دو طرفہ کاروبار 103.63 ارب ڈالر کا ہوا ہے۔ اس مدت میں چین سے بھارت کے لیے اکسپورٹ 89.66 ارب ڈالر کا ہوا وہیں بھارت سے چین کے لیے محض 13.97 ارب ڈالر کا اکسپورٹ ہوا۔ اس لیے ہماری تقریباً معیشت چین سے امپورٹ پر منحصر ہے۔ گزشتہ سال 2021ء کے پہلے نو ماہ میں چین سے امپورٹ 68.46 ارب ڈالر کا تھا جو امسال بڑھ کر 89.66 ارب ڈالر کا ہو چکا ہے۔ اگر چین سے درآمدات کی یہی کیفیت رہی تو امسال یہ 120 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے جو قابل تشویش ہے۔ گاہے بگاہے سرحدی جھڑپوں کی وجہ سے چینی اشیا کا بائیکاٹ بھی ہوتا ہے مگر بھارتی حکومت کی چین پر حد سے زیادہ انحصار کی وجہ سے کسی طرح کے اقدام سے ہمیشہ گریزاں رہی ہے۔ ہمارے انتہائی قلیل ایکسپورٹ کی وجہ سے ملک کو 75.69 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہوا جو سال کے اخیر تک چین سے تجارتی خسارہ 100 ارب ڈالر تک بھی جا سکتا ہے۔ چین پر بڑھتے انحصار کو دیکھتے ہوئے حکومت کی طرف سے آتم نربھر بھارت منصوبے کے تحت مختلف اقدامات کیے گئے ہیں جس میں 14 صنعتیں، الکٹرانکس، طبی آلات، تھوک ادویات، اے سی، ایل ای ڈی، آٹو موبائل، سولار پی وی ماڈیول، آٹو آلات، کپڑوں کے اقسام، خصوصی اسیٹل اور ڈرون وغیرہ شامل ہیں۔ بعد میں اس میں سیمی کنڈکٹر کو بھی شامل کرلیا گیا ہے۔ یہ ایسی صنعتیں تھیں جو بیس سالوں میں چین سے بڑھتے درآمدات کی مسابقت میں پیچھے رہ گئی تھیں۔ اس کے ساتھ چین سے آنے والی مشینری، کیمیکل کے ساتھ دیگر صنعتی Intermedia کا ہے جس کی تیاری کی قوت بھارت میں مفقود ہے۔ اس میں ایکٹیو فارماسیوٹیکلس انگریڈینٹس(اے پی آئی) ایک مثال ہے۔ آج سے بیس سال قبل اے پی آ:ی ضرورتوں کی 90 فیصد کی تکمیل بھارت سے ہی ہوتی تھی۔ آج ہمارا اتنا انحصار محض معاشی ہی نہیں بلکہ طبی دفاع کے لیے ایک خطرہ ہے۔ بھارت میں کئی غیر ملکی آٹو موبائل کمپنیاں کل پرزے باہر سے منگواتی رہی ہیں۔ بھارت میں جب موبائل فون پر درآمداتی ٹیکس بڑھایا گیا تو ان کمپنیوں نے بھارت میں ہی اس کی مینوفیکچرنگ شروع کر دی۔ اسی طرز پر اگر بھارت درآمداتی محصول بڑھا کر شکنجہ کستا ہے تو اس کے دو فائدے ہوں گے۔ اول، ملک کے تجارتی خسارہ کو کم کیا جا سکتا ہے دوسرا، ملک میں صنعتوں کو بڑھاوا ملے گا اور مینوفیکچرنگ جی ڈی پی میں اضافہ ہو گا ساتھ ہی روزگار کے مواقع بھی فراہم ہوں گے۔ اس لیے اب زبانی جمع خرچ اور نعرہ بازی کے بجائے معیشت کی ڈیجٹلائزیشن کو رفتار دینا ہو گا اور لاجسٹک لاگت میں کمی، تحقیق، اختراعیت اور لیبر فورس کو ڈیجیٹل تربیت کے ساتھ آگے آنا ہو گا۔ اس طرح ہم مینوفیکچرنگ میں، میک ان انڈیا اور میک فار گلوبل کے نعروں کو حقیقت کا جامہ پہنا کر برآمدات بڑھا سکیں گے اور تجارتی خسارہ کو کم کرنے کے قابل ہوں گے۔
***

 

***

 آر بی آئی نے یکم نومبر کو ڈیجیٹل روپے کی تجرباتی شروعات کی ہے۔ اس میں مزید تیزی لانے کے لیے گزشتہ 9 نومبر کو غیر ملکی تجارتی فیڈریشن کے ذریعے روپے میں لین دین کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے بھی توقع ہے کہ بھارتی برآمدات میں مزید اضافہ ہو گا اور تجارت کے ساتھ ساتھ تجارتی خسارہ کو کنٹرول کیا جا سکے گا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 جنوری تا 07 جنوری 2023