بھارت بند: ٹریڈ یونینوں کی دو روزہ ملک گیر ہڑتال شروع، بینکنگ اور ٹرانسپورٹ خدمات متاثر

نئی دہلی، مارچ 28: پی ٹی آئی کی خبر کے مطابق مرکزی ٹریڈ یونینوں کے ایک مشترکہ فورم نے پیر کو مرکزی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف دو روزہ ملک گیر ہڑتال شروع کی۔

مشترکہ فورم میں 10 ٹریڈ یونینز شامل ہیں جن میں انڈین نیشنل ٹریڈ یونین کانگریس، آل انڈیا ٹریڈ یونین کانگریس، سینٹر آف انڈین ٹریڈ یونینز، آل انڈیا یونائیٹڈ ٹریڈ یونین سینٹر اور یونائیٹڈ ٹریڈ یونین کانگریس شامل ہیں۔

آل انڈین ٹریڈ یونین کانگریس کی جنرل سکریٹری امرجیت کور نے خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ ملک بھر میں بند کی وجہ سے بینک اور انشورنس کے شعبے متاثر ہوئے ہیں، جب کہ اسٹیل اور تیل کے شعبے ہڑتال کی وجہ سے جزوی طور پر متاثر ہوئے ہیں۔

کور نے کہا کہ جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں کوئلے کی کان کنی کا پورا علاقہ بھی متاثر ہوا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ملک گیر ہڑتال کی کال کو راجستھان، کرناٹک، مغربی بنگال، دہلی، آسام، تلنگانہ، کیرالہ، ہریانہ، تمل ناڈو، بہار، پنجاب، گوا اور اڈیشہ کے صنعتی علاقوں میں اچھا ردعمل ملا ہے۔

این ڈی ٹی وی کے مطابق آل انڈیا بینک ایمپلائز ایسوسی ایشن وینکٹاچلم کے جنرل سکریٹری سی ایچ وینکٹاچلم نے کہا کہ مشرقی ہندوستان میں پبلک سیکٹر کے بینکوں کی بہت سی شاخیں بند ہیں۔ انھوں نے کہا کہ دیگر خطوں میں بینک کھلے ہیں، لیکن خدمات متاثر ہوئی ہیں کیوں کہ بہت سے ملازمین احتجاج میں حصہ لے رہے ہیں۔

ہڑتال نے ملک کے کچھ حصوں میں نقل و حمل، ریلوے اور بجلی سمیت دیگر شعبوں سے متعلق ضروری خدمات کو بھی متاثر کیا ہے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق تمل ناڈو میں پیر کو صرف 33 فیصد سرکاری بسیں چل رہی تھیں۔ چنئی میں میٹروپولیٹن ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی طرف سے چلائی جانے والی 3,175 بسوں میں سے صرف 318 چل رہی تھیں۔

دہلی میں بہت سے کارخانے کھلے رہے کیوں کہ مزدوروں کو ہڑتال میں حصہ لینے پر نوکریوں سے نکالے جانے کا خدشہ تھا۔

اسی دوران کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے ایم پی بکاشرنجن بھٹاچاریہ اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ایم پی بنوئے وسام نے ہڑتال پر بحث کرنے کے لیے راجیہ سبھا میں کاروبار کی معطلی کا نوٹس دیا۔

وسام نے کہا کہ یہ ہڑتال کارکنوں نے ’’مرکزی حکومت کی کارپوریٹائزیشن اور پرائیویٹائزیشن کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کے لیے بلائی تھی۔‘‘

یونینوں نے مرکزی حکومت سے لیبر قوانین، نجکاری اور نیشنل منیٹائزیشن پائپ لائن میں مجوزہ تبدیلیوں کو ختم کرنے کو کہا ہے۔ وہ مہاتما گاندھی رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی ایکٹ کے تحت اجرت میں اضافہ اور کنٹریکٹ ورکرس کو ریگولرائز کرنے کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔

نیشنل منیٹائزیشن پائپ لائن کے تحت، حکومت 2025 تک بجلی، سڑک اور ریلوے جیسے شعبوں میں سرکاری اسٹریٹجک اثاثوں کو نجی اداروں کو لیز پر دے کر 6 لاکھ کروڑ روپے اکٹھا کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔

این ڈی ٹی وی کی خبر کے مطابق بینکنگ، اسٹیل، تیل، ٹیلی کام، کوئلہ، ڈاک، انکم ٹیکس، کاپر اور انشورنس سمیت مختلف شعبوں کے کارکن ہڑتال میں حصہ لے رہے ہیں۔ بینک یونینیں حکومت کے سرکاری بینکوں کی نجکاری کے فیصلے کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں۔

بینک ملازمین خراب قرضوں کی فوری وصولی، قرض دہندگان کی طرف سے زیادہ ڈپازٹ کی شرح، صارفین پر کم سروس چارجز کے ساتھ ساتھ عملے کے لیے پرانی پنشن اسکیم کی بحالی کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔

مشترکہ فورم نے کہا کہ ریلوے اور دفاعی شعبے کی یونینیں کئی مقامات پر ہڑتال کی حمایت میں بڑے پیمانے پر متحرک ہوں گی۔

کور نے کہا کہ ہڑتال سے ملک کے دیہی علاقوں کے بھی متاثر ہونے کی امید ہے، جہاں زراعت اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے غیر رسمی کارکن احتجاج میں شامل ہوں گے۔

ایک بیان میں فورم نے کہا کہ ٹرانسپورٹ، روڈ ویز اور بجلی کے محکموں کے کارکنوں نے بھی ہڑتال میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا ہے، جب کہ ہریانہ اور چندی گڑھ میں ضروری خدمات کی بحالی کا ایکٹ لاگو ہونے کا امکان ہے۔

یہ ایکٹ خدمات میں مصروف ملازمین کی ہڑتالوں پر پابندی لگاتا ہے جو ملک کے شہریوں کی معمول کی زندگی کو متاثر کر سکتے ہیں۔

دریں اثنا اتوار کے روز مرکزی وزارت بجلی نے ایک ایڈوائزری جاری کی، جس میں پاور یوٹیلیٹی کمپنیوں سے کہا گیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ سپلائی میں خلل نہ پڑے اور بجلی کے گرڈ معمول کے مطابق کام کریں۔