’بی جے پی لیڈروں کو ذات پات کے خلاف تحریک چلانی چاہیے نہ کہ ذات پر مبنی مردم شماری کے خلاف‘
او بی سی ریزرویشن کے بارے میں کیا کہتے ہیں بھنور میگھ ونشی
افروز عالم ساحل
’میں تو یہ مانتا ہوں کہ اس ملک میں اس بار ذات پر مبنی مردم شماری بہت ضروری ہے۔ کسی بھی ملک کی حقیقی ترقی کے لیے اس ملک میں جتنے بھی شہری ہیں ان کے بارے میں یہ معلومات تو ضرور ہونے چاہئیں کہ وہ معاشی اور سماجی لحاظ سے کس طبقے یا برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمارے ملک میں پیڑ پودوں کو گنا جاتا ہے، گاڑیوں اور جانوروں کی گنتی کی جاتی ہے، اس کے لیے باقاعدہ پراجیکٹس بنائے جاتے ہیں تو پھر حکومت کو یہاں کے باشندوں کی سماجی پہچان کی بنیاد پر گنتی کرنے میں کیا دشواری ہے؟ حکومت اس سے کیوں خوف کھا رہی ہے؟ کیا وجہ ہے کہ موجودہ حکومت ذات پر مبنی مردم شماری نہیں کرانا چاہتی ہے؟‘
اس طرح کے کئی سوالوں کا بوچھار راجستھان کے سماجی کارکن، مشہور مصنف اور آزاد صحافی بھنور میگھونشی ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں کرتے ہیں۔
بھنور میگھونشی کا ماننا ہے کہ ہمارے ملک کی تمام چیزیں ذات سے طے کی جارہی ہیں۔ لوگ اپنی ذات وراثت میں لے کر پیدا ہوتے ہیں اور مرتے دم تک اسی میں زندہ رہتے ہیں۔ اس کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ آپ چاہیں دوسرے مذہب میں چلے جائیں، وہاں بھی یہ ذات آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ آپ مر جاتے ہیں تو آپ کا قبرستان کہاں ہوگا، آپ کی شادی کہاں ہوگی یہ سب کچھ آپ کی ذات سے ہی طے ہوتا ہے۔ آپ کی پوری زندگی ذات پات کے گرد گھومتی ہے۔ لوگوں کے رہنے کا بندوبست ذات کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ ذات کی بنیاد پر ملک کی فوجیں بنی ہوئی ہیں۔ ذات کی بنیاد پر ملک میں طلبا کے رہنے کے ہاسٹل ہیں، محلے بنے ہوئے ہیں۔ تو پھر مردم شماری میں ذات کی گنتی ہو تو کون سا پہاڑ ٹوٹ جائے گا۔
وہ سوال کرتے ہیں کہ ذات پر مبنی مردم شماری سے آخر ایسی کیا مصیبت آنے والی ہے جس کی وجہ سے اس کی مخالفت کی جارہی ہے یا جسے کرانے کے لیے حکومت تیار نہیں ہو رہی ہے؟ لوگوں کے مطالبات کو کیوں نہیں مانا جا رہا ہے؟ وہ جاننا چاہتے کہ ملک میں کون سی کمیونٹی کے کتنے لوگ ہیں تاکہ حکومت ان کی ترقی کے لیے جو بھی پالیسی وپروگرام بنائے وہ انہیں معلوم رہے۔
وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ ۷۵ برسوں میں ہم ایک mature nation بن چکے ہیں تو ایسی صورت میں کیا ہماری یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ قوم کی تعمیر کے لیے ہم اپنے تمام لوگوں کے سماجی ومعاشی حالات کو سامنے لانے کے لیے ایک ایسا سروے کرائیں جس کی بنیاد پر ان کے لیے پالیسیوں کا نفاذ ہو سکے۔ میرا خیال ہے کہ اس کام کے لیے حکومت کے پاس ذات پر مبنی مردم شماری سے بہتر کوئی موقع نہیں ہو سکتا۔ یہ اس کام کے لیے سب سے اہم بنیاد بن سکتا ہے۔
لیکن بی جے پی لیڈروں کا کہنا ہے کہ ذات پر مبنی مردم شماری سے ملک میں ذات پات کو بڑھاوا ملے گا۔ بہار میں بی جے پی لیڈروں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ جو لوگ ذات پات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ کر رہے ہیں وہ سماج کو توڑنا چاہتے ہیں اور کسی طرح سے حکومت پر قابض رہنا چاہتے ہیں۔ ذات پر مبنی مردم شماری ملک کو نقصان پہنچائے گی۔ اس پر بھنور میگھونشی کہتے ہیں کہ بالکل! ذات ضرور اس ملک کے خلاف ایک مضر چیز ہے۔ بابا صاحب ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر اپنی کتاب Annihilation of Caste میں کہتے ہیں کہ کاسٹ نے ہم کو ایک نیشن بننے ہی نہیں دیا۔ ہر کاسٹ یہ مانتی ہے کہ وہ خود ہی ایک نیشن ہے تو پھر نیشن کیسے بنے گا۔ میرا مشورہ ہے کہ بی جے پی کے لیڈروں کو ذات پات کے خلاف تحریک چلانی چاہیے نہ کہ ذات پر مبنی مردم شماری کے خلاف۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ پریشانی یہ ہے کہ یہ لوگ ذات تو باقی رکھنا چاہتے ہیں لیکن ذات کی بنیاد پر کسی کا بھلا ہو یہ ان کو برداشت نہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپ چاہتے ہیں کہ مرض بھی باقی رہے اور مریض کو دوا بھی نہ ملے۔ میرا مطالبہ ہے کہ ذات پر مبنی مردم شماری سے اگر واقعی کوئی پریشانی ہے تو بی جے پی اور اس کے ہمنواوں کو اس ملک سے ذات کو مکمل طور پر ختم کرنے کی ایک تحریک چلانی چاہیے۔ لیکن مجھے معلوم ہے کہ وہ ذات پات کے خاتمے کی تحریک نہیں چلا سکتے بلکہ وہ ذات پات کو باقی رکھنا چاہتے ہیں، کیونکہ ان کو اس سے فائدہ حاصل ہو رہا ہے۔ اگر ذات کی بنیاد پر کسی کو حق یا انصاف ملتا ہے تو وہ ان کو قطعی برداشت نہیں ہے۔ اگر ذات پر مبنی مردم شماری کرنے سے ملک ٹوٹ جائے گا یا ذات پات کو بڑھاوا ملے گا تو کیا مردم شماری نہ کرنے سے ملک میں ذات پات ختم ہو جائے گا؟
دراصل یہ پوری طرح سے غلط اور گمراہ کرنے والی دلیل ہے۔ اصل مسئلہ کو آپ ختم نہیں کرنا چاہتے۔ لیکن اس کی بنیاد پر کوئی مردم شماری ہوتی ہے، پالیسی بنتی ہے اور کسی کو ریزرویشن دیا جاتا ہے وہاں آپ کہتے ہیں کہ ذات پات بڑھ رہا ہے، ملک ومعاشرہ تقسیم ہو رہا ہے۔ درحقیقت مذہب اور ذات تو ان کے لیے ایک ایسی ’پناہ گاہ‘ ہے جہاں یہ ہر طرح کے جرائم کرکے چھپ جاتے ہیں۔ اور جیسے ہی محروم باشندگان ملک کے حق میں کوئی آواز اٹھتی ہے اس کی مخالفت کرنے میں اسی ذات ومذہب کو آگے کر دیتے ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ ذات ومذہب کا ’ماسک‘ لگا کر کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔ دراصل ذات پر مبنی مردم شماری کی مخالفت کرنا ہی سب بڑی نسل پرستی ہے۔
او بی سی ریزرویشن کے سوال پر بھنور میگھ ونشی کہتے ہیں کہ ملک میں او بی سی کی ایک بڑی تعداد ہے۔ ملک کی کل آبادی کا یہ ۵۵ تا ۶۰ فیصد ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ ملک کے ’سوارنا سناتنی ڈھانچہ‘ میں شودر کی کیٹیگری میں آتے ہیں اور ان کی منواسمرتی کے مطابق شودر کو اقتدار تو دُور پڑھنے کی بھی اجازت نہیں تھی نہ جائیداد رکھنے کی آزادی تھی، نہ ان کو کسی طرح کا کوئی حق حاصل تھا۔ یہ صرف اپّر کاسٹ کے ’سیوک‘ ہو سکتے تھے ان کے غلام ہو سکتے تھے۔ مگر ملک کے آئین نے انہیں ایک موقع دیا۔ اب یہ پڑھ بھی سکتے ہیں، جائیداد بھی رکھ سکتے ہیں، انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں اور حکومت بھی کر سکتے ہیں۔ اس آئینی حق کی روشنی میں اگر وہ اپنی آبادی کے لحاظ سے حقوق طلب کرتے ہیں تو اس کی مخالفت کیوں کی جا رہی ہے؟
وہ مزید کہتے ہیں کہ دراصل ذات پر مبنی مردم شماری کی مخالفت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ’سوارنا سناتنی ڈھانچہ‘ کو ماننے والوں کو یہ معلوم ہے کہ ذات پر مبنی مردم شماری کا سب سے زیادہ فائدہ اس ملک کے او بی سیز کو ہو گا اور وہ مستقبل میں آبادی کے تناسب سے اپنے حقوق کا مطالبہ کریں گے۔
کیا آپ کے خیال میں حکومت نے جس ریزرویشن کا وعدہ کیا ہے اسے وہ ایمانداری سے نافذ کرے گی یا اتر پردیش الیکشن میں اس کا فائدہ اٹھا کر کر بھول جائے گی؟ اس سوال پر بھنور میگھونشی کہتے ہیں کہ اس معاملہ میں حکومت زیادہ عرصہ انجان نہیں رہ سکتی۔ ابھی حال میں او بی سی ریزرویشن سے متعلق بل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں جس طریقے سے منظور ہوا ہے اس سے کوئی بھی سیاسی پارٹی یا نظریہ اتنی بڑی آبادی کو ناراض کرکے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ سیاسی پارٹیاں ہر معاملے میں سیاست ہی کریں گی۔ سوال یہ ہے کہ مستقبل میں پسماندہ طبقات کس نوعیت کی سیاست میں حصہ لیں گے اور سب سے اہم یہ کہ اب پچھڑا ہوا سماج طے کرے گا کہ کس پارٹی کی حکومت ہو گی اور یہ اپنے آپ میں سماجی انصاف کی سب سے بڑی جیت ہو گی۔
ملک کے موجودہ حالات کے بارے میں بھنور میگھونشی کہتے ہیں کہ اس وقت ملک میں جو حالات ہیں یہ کسی ایمرجنسی سے کم نہیں ہیں۔ یہ کسی ’نازی واد‘ سے کم نہیں ہے۔ اس وقت ملک میں پوری طرح سے فاشزم کا دور دورہ ہے۔ لوگوں کو نشانہ بنا بنا کر پھنسایا جا رہا ہے۔ اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والوں کے خلاف ایسی سازشیں تیار کی جا رہی ہیں جن سے ان کی پوری زندگی تباہ وبرباد ہو جائے۔ یہ ایسا دور ہے جہاں مظلوم کو مجرم ثابت کیا جا رہا ہے۔ جو بھی حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھا رہا ہے اس کے پیچھے ایجنسیوں کو لگایا جا رہا ہے، اس پر این ایس اے اور یو اے پی اے جیسے عوام دشمن قانون کے دفعات لگا کر جیل میں ڈالا جا رہا ہے۔ ان کی پوری کوشش ہے کہ مستقبل میں کوئی بھی حکومت کے خلاف آواز نہ اٹھا سکے۔
وہ مزید کہتے ہیں ک جو آئینی ادارے پسماندہ اور اقلیتی طبقات کو حق دیتے ہیں، ان اداروں پر یا تو آر ایس ایس کا قبضہ ہے یا پھر حکومت ان کو پوری طرح سے برباد کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ نئی نسل سب سے زیادہ نشانے پر ہے۔ وہ نسل جو بڑی مشکل حالات میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے یونیورسٹی تک پہنچی ہے اور حق بولنا شروع کیا ہے اس کو اب پوری طاقت سے کچل دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسی صورت میں ہماری تعلیم یافتہ نسل جو تیار ہو رہی تھی وہ اب آگے نہیں پڑھ پائے گی کیونکہ ملک میں جتنے بھی اعلیٰ تعلیمی ادارے ہیں ان کو موجودہ حکومت تباہ و برباد کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ تمام سہولتوں کو ختم کیا جا رہا ہے تاکہ یہ لوگ پڑھنے ہی نہ پائیں۔ یہ ایک طرح پوری نسل کو برباد کرنے کی سازش ہے۔ لیکن ہاں! کچھ لوگوں کے لیے یہ بہت اچھا بلکہ سنہری دور ہے۔ ان کے لیے ان کا ’ست یوگ‘ پھر سے آ گیا ہے جس میں وہ سب پر قابض تھے۔
بھنور میگھونشی مزید کہتے ہیں کہ یہ ملک کی بد قسمتی ہے کہ مٹھی بھر لوگ یہ طے کر رہے ہیں کہ آپ کیا کھائیں گے کیا پہنیں گے کس سے محبت کریں گے کس سے آپ کی شادی ہوگی آپ کہاں سفر کریں اور کیا بزنس کریں گے وغیرہ۔ یہ ملک کے مظلوم شہریوں کو دوم درجے کا شہری بنانے کا دور چل رہا ہے جس کے بارے میں ان کے گرو گولوالکر نے کہا تھا کہ ان کے ’ہندو راشٹر‘ میں یہ تمام لوگ دوسرے درجے کے شہری ہوں گے۔ یہ لوگ ابھی ایسا کہہ تو نہیں سکتے لیکن کر تو سکتے ہیں لہٰذا کر رہے ہیں۔ آپ دیکھ لیجیے کہ چوڑی والا چوڑی نہیں بیچ سکتا۔ کوئی شخص اپنے پسند کا کھانا چاہتا ہے لیکن کھا نہیں سکتا۔ کوئی لڑکا لڑکی شادی کرنا چاہتے ہیں لیکن کر نہیں سکتے۔ کیونکہ ان تنگ دلوں کو یہ سب برداشت نہیں ہے۔ ان تمام واقعات کو بغور دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں آزادی اور جمہوریت سکڑتی جا رہی ہے اور عوام کی اکثریت کو ان کےحقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔
تو اس ملک کے عوام کو کیا کرنا چاہیے؟
اس سوال پر بھنور میگھونشی کہتے ہیں، اب وقت آ گیا ہے کہ اس ملک کے مظلوم طبقات اپنے تمام آپسی اختلافات بھلا کر متحد ہو جائیں ۔ ہم ابھی بھی بہت چھوٹی چھوٹی چیزوں میں الجھے ہوئے ہیں جب کہ یہ وقت آئین، جمہوریت اور ملک کے آئینی اداروں کو بچانے کا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے تمام اختلافات کو درکنار کرکے ایک بڑی لڑائی کے لیے متحد ہو جائیں۔ جب ہمارے ملک کا آئین بچے گا، جمہوریت بچے گی، ہمارے حقوق بچیں گے تب ہی ہم بچیں گے اور جب ہم بچیں گے تو اپنی آستھا، مذہب، تنظیم، نظریہ سب کو بچا لیں گے۔ لیکن اگر ہم ٹکڑوں میں بٹے رہے تو ان کے غلام بن کر رہ جائیں گے دوسرے درجے کے شہری ہوں گے۔ ہمیں اس سے بچنے کے لیے ایک بڑی تحریک کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس وقت جو جماعت اقتدار میں ہے وہ اپنے بھاری اکثریت کے تکبر میں ملک کو پوری طرح سے برباد کر دینا چاہتی ہے۔ وہ آپ کو پھر سے اس ماضی میں لے جانا چاہتی ہے جہاں انسان کو انسان نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ آپ اسی ماضی میں واپس جانا چاہتے ہیں یا اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل بہتر بنانا چاہتے ہیں۔
کون ہیں بھنور میگھ ونشی؟
بھنور میگھونشی راجستھان کے ضلع بھیلواڑہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں سیرڈی یاس میں ایک بنکر خاندان میں پیدا ہوئے. بھنور میگھونشی ایک مشہور مصنف اور آزاد صحافی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں صرف 13 سال کی عمر میں آر ایس ایس میں شامل ہوا اور پانچ سال تک کافی سرگرمی سے کام کیا۔ میں اپنے گاؤں کی شاکھا کا ہیڈ ٹیچر تھا۔ 1992 میں جب بابری مسجد شہید کی گئی تو میں ایک کار سیوک تھا لیکن ایودھیا پہنچنے سے پہلے ہی مجھے گرفتار کر لیا گیا، میں نے 10 دن آگرہ جیل میں گزارے۔
بھنور میگھونشی کے مطابق میں وہ اس وقت آر ایس ایس کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے تھے۔ شاکھا میں ان کو مسلمانوں سے نفرت اور ہندو ہونے پر فخر سکھایا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو ہندو قوم کے لیے وقف کر دیا تھا۔ میں نے یہاں فوجی تربیت بھی حاصل کی۔ آر یس سی سے الگ ہوجانے کی ایک خاص و بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہآر ایس ایس کے کچھ رہنما میرے گاؤں آئے تھے۔ میں نے انہیں اپنے گھر کھانے پر مدعو کیا لیکن وہ کھانا کھانے سے انکار کرتے رہے، میں نے کھانا پیک کرکے انہیں دے دیا، بعد میں کھانے کا وہ پیکٹ گاؤں کے باہر کچرے میں پایا گیا۔ اس واقعہ نے میرا دل توڑ یا جس کے بعد میں نے کافی غور وخوض کیا بالآخر آر ایس ایس سے اپنا تعلق توڑ لیا۔ بھنور میگھونشی کا کہنا ہے کہ "میں آئین کا حامی ہوں اس لیے منواسمرتی کا مخالف ہوں۔ میں اس کالی کتاب کو راکھ میں تبدیل کرنا چاہتا ہوں۔”
اس کے بعد سے بھنور میگھونشی آر ایس ایس کی مخالفت کے ساتھ ساتھ اپنے سماج کے حقوق کی لڑائی میں لگ گئے۔ اب وہ راجستھان کے دلت، آدیواسی اور گھومنتو سماج کے لیے کام کر رہے ہیں۔ یہ اجمیر، بھیلواڑہ، پالی اور راجسمند کے 125 دیہاتوں میں 15 دن کے لیے امن سائیکل یاترا نکال چکے ہیں۔ انہوں نے آر ایس ایس کے ’ترشول دیکشا سماروہ‘ کے جواب میں ’راشٹریہ سدبھاونا پریشد‘ بنا کر ترشول کے بدلے پھول‘ مہم کی شروعات کی۔ ساتھ ہی ’بھارت پترو جاگو‘ کے نام سے ایک آڈیو کیسٹ بھی جاری کی اور اسے ہر گاؤں تک پہنچایا، اس کا مقصد مذہبی جذبات کو بھڑکانے والی تقاریر کا مقابلہ کرنا تھا۔ بھنور میگھونشی راجستھان کے مشہور میگزین ’ڈائمنڈ انڈیا‘ کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ یہ میگزین دلت، آدیواسی اور اقلیتوں کے حقوق کی آواز اٹھاتا ہےبھنور میگھونشی ان دنوں انسانی حقوق کی تنظیم ’پیپلس یونین فار سول لبرٹیز‘ (پی یو سی ایل) سے منسلک ہیں۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر راجستھان ہائی کورٹ میں منو کے مجسمے کے خلاف ملک گیر تحریک شروع کی ہے، یہ معاملہ ابھی عدالت میں زیر دوراں ہے۔ بھنور میگھونشی نے سال ۲۰۱۹ میں ایک کتاب ’’میں ایک کارسیوک تھا‘‘ لکھی۔ بعد میں یہ کتاب انگریزی میں بھی I Can’t Be Hindu: The Story of a Dalit in RSS کے ٹائٹل سے شائع ہوئی جسے انگریزی روزنامہ دی ٹیلی گراف نے سال 2020 کے لیے بہترین نان فکشن کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ اس فہرست میں کل 14 کتابیں شامل کی گئی تھیں جن میں آکسفورڈ، کیمبرج، سیج اور پینگوئن جیسے پبلیشرس کی شائع کی ہوئی کتابیں شامل تھیں
ان کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس کی نظر میں ’ہندو راشٹر‘ ایک ’برہمن راشٹر‘ ہے۔ آر ایس ایس اس ملک کو ورنا سسٹم اور چار وید و منواسمرتی کی بنیاد پر چلانا چاہتا ہے۔ اس ’ہندو راشٹر‘ میں میرے جیسے دلتوں یا دیگر مذاہب پر یقین رکھنے والوں کی حیثیت دوسرے درجے کی ہوگی۔ آر ایس ایس کے ’ہندو راشٹر‘ میں دلت شودر یا غلام ہوں گے اور مسلمان یا کسی مذہب کو نہ ماننے والے دوسرے درجے کے شہری ہوں گے۔ میری پوری لڑائی اسی ’ہندو راشٹر‘ کے خلاف ہے۔
***
کون ہیں بھنور میگھ ونشی؟
بھنور میگھونشی راجستھان کے ضلع بھیلواڑہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں سیرڈی یاس میں ایک بنکر خاندان میں پیدا ہوئے. بھنور میگھونشی ایک مشہور مصنف اور آزاد صحافی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں صرف 13 سال کی عمر میں آر ایس ایس میں شامل ہوا اور پانچ سال تک کافی سرگرمی سے کام کیا۔ میں اپنے گاؤں کی شاکھا کا ہیڈ ٹیچر تھا۔ 1992 میں جب بابری مسجد شہید کی گئی تو میں ایک کار سیوک تھا لیکن ایودھیا پہنچنے سے پہلے ہی مجھے گرفتار کر لیا گیا، میں نے 10 دن آگرہ جیل میں گزارے۔
بھنور میگھونشی کے مطابق میں وہ اس وقت آر ایس ایس کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے تھے۔ شاکھا میں ان کو مسلمانوں سے نفرت اور ہندو ہونے پر فخر سکھایا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو ہندو قوم کے لیے وقف کر دیا تھا۔ میں نے یہاں فوجی تربیت بھی حاصل کی۔ آر یس سی سے الگ ہوجانے کی ایک خاص و بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہآر ایس ایس کے کچھ رہنما میرے گاؤں آئے تھے۔ میں نے انہیں اپنے گھر کھانے پر مدعو کیا لیکن وہ کھانا کھانے سے انکار کرتے رہے، میں نے کھانا پیک کرکے انہیں دے دیا، بعد میں کھانے کا وہ پیکٹ گاؤں کے باہر کچرے میں پایا گیا۔ اس واقعہ نے میرا دل توڑ یا جس کے بعد میں نے کافی غور وخوض کیا بالآخر آر ایس ایس سے اپنا تعلق توڑ لیا۔ بھنور میگھونشی کا کہنا ہے کہ "میں آئین کا حامی ہوں اس لیے منواسمرتی کا مخالف ہوں۔ میں اس کالی کتاب کو راکھ میں تبدیل کرنا چاہتا ہوں۔”
اس کے بعد سے بھنور میگھونشی آر ایس ایس کی مخالفت کے ساتھ ساتھ اپنے سماج کے حقوق کی لڑائی میں لگ گئے۔ اب وہ راجستھان کے دلت، آدیواسی اور گھومنتو سماج کے لیے کام کر رہے ہیں۔ یہ اجمیر، بھیلواڑہ، پالی اور راجسمند کے 125 دیہاتوں میں 15 دن کے لیے امن سائیکل یاترا نکال چکے ہیں۔ انہوں نے آر ایس ایس کے ’ترشول دیکشا سماروہ‘ کے جواب میں ’راشٹریہ سدبھاونا پریشد‘ بنا کر ترشول کے بدلے پھول‘ مہم کی شروعات کی۔ ساتھ ہی ’بھارت پترو جاگو‘ کے نام سے ایک آڈیو کیسٹ بھی جاری کی اور اسے ہر گاؤں تک پہنچایا، اس کا مقصد مذہبی جذبات کو بھڑکانے والی تقاریر کا مقابلہ کرنا تھا۔ بھنور میگھونشی راجستھان کے مشہور میگزین ’ڈائمنڈ انڈیا‘ کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ یہ میگزین دلت، آدیواسی اور اقلیتوں کے حقوق کی آواز اٹھاتا ہےبھنور میگھونشی ان دنوں انسانی حقوق کی تنظیم ’پیپلس یونین فار سول لبرٹیز‘ (پی یو سی ایل) سے منسلک ہیں۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر راجستھان ہائی کورٹ میں منو کے مجسمے کے خلاف ملک گیر تحریک شروع کی ہے، یہ معاملہ ابھی عدالت میں زیر دوراں ہے۔ بھنور میگھونشی نے سال ۲۰۱۹ میں ایک کتاب ’’میں ایک کارسیوک تھا‘‘ لکھی۔ بعد میں یہ کتاب انگریزی میں بھی I Can’t Be Hindu: The Story of a Dalit in RSS کے ٹائٹل سے شائع ہوئی جسے انگریزی روزنامہ دی ٹیلی گراف نے سال 2020 کے لیے بہترین نان فکشن کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ اس فہرست میں کل 14 کتابیں شامل کی گئی تھیں جن میں آکسفورڈ، کیمبرج، سیج اور پینگوئن جیسے پبلیشرس کی شائع کی ہوئی کتابیں شامل تھیں
ان کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس کی نظر میں ’ہندو راشٹر‘ ایک ’برہمن راشٹر‘ ہے۔ آر ایس ایس اس ملک کو ورنا سسٹم اور چار وید و منواسمرتی کی بنیاد پر چلانا چاہتا ہے۔ اس ’ہندو راشٹر‘ میں میرے جیسے دلتوں یا دیگر مذاہب پر یقین رکھنے والوں کی حیثیت دوسرے درجے کی ہوگی۔ آر ایس ایس کے ’ہندو راشٹر‘ میں دلت شودر یا غلام ہوں گے اور مسلمان یا کسی مذہب کو نہ ماننے والے دوسرے درجے کے شہری ہوں گے۔ میری پوری لڑائی اسی ’ہندو راشٹر‘ کے خلاف ہے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 5 ستمبر تا 11 ستمبر 2021