بنگال بار کونسل نے کلکتہ ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس کو ہٹانے کا مطالبہ کیا، کہا کہ وہ ’’جانب دار اور متعصب‘‘ ہیں
نئی دہلی، جون 28: لائیو لاء کی اطلاع کے مطابق مغربی بنگال کے بار کونسل نے چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا کو خط لکھا ہے کہ کلکتہ ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس راجیش بندل کو عہدے سے ہٹایا جائے۔ اس خط میں ان پر مقدمات کی ’’متعصبانہ اور ناجائز‘‘ فہرست سازی اور سماعت کا الزام ہے۔
اس خط میں کہا گیا ہے کہ ’’جسٹس بندل ایک غیر منصف اور متعصب جج ہیں جن کا ہائی کورٹ میں جاری رہنا انصاف کی منصفانہ اور غیرجانبدارانہ منتقلی میں مداخلت کرتا ہے۔‘‘
اس میں حالیہ سیاسی طور پر حساس معاملات جیسے ناردا رشوت خوری سے متعلق معاملات اور وزیر اعلی ممتا بنرجی کی ریاستی اسمبلی انتخابات میں نندی گرام انتخابی نتائج کو چیلینج کرنے کی درخواستوں کی سماعت کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ خاص طور پر اس خط پر مغربی بنگال کی بار کونسل کے چیئرپرسن اشوک کمار دیب نے دستخط کیے ہیں، جو ترنمول کانگریس کے ایم ایل اے بھی ہیں۔
بار کونسل نے اس طریقہ کی نشاندہی کی جس میں کلکتہ ہائی کورٹ نے ناردا کیس میں مرکزی بیورو آف انویسٹی گیشن کی طرف سے دائر منتقلی کی درخواست منظور کی تھی۔
17 مئی کو سی بی آئی نے اس معاملے میں مغربی بنگال کے وزرا فرہاد حکیم اور سبرت مکھرجی، ترنمول کانگریس کے ایم ایل اے مدن مترا اور پارٹی کے سابق رہنما سوون چٹرجی کو گرفتار کیا تھا۔ اس کے بعد انھیں سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے عبوری ضمانت دے دی۔ لیکن اس ضمانت نامہ کو ہائی کورٹ نے اسی دن دیر رات سماعت میں روک دیا۔ اور اسی دن سی بی آئی نے تبادلہ کی درخواست بھی دائر کردی۔
بار کونسل کے خط میں بتایا گیا کہ کلکتہ ہائی کورٹ کے جسٹس ارندم سنہا نے بھی اس معاملے سے نمٹنے کے طریقے پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے بندل سمیت دیگر ججوں کو بھی خط لکھا تھا۔
خط میں الزام لگایا گیا ہے کہ بندل کی سربراہی میں پانچ ججوں کے بنچ نے سی بی آئی کو ناردا کیس میں متعدد حلف نامے داخل کرنے کی اجازت دی، لیکن انھوں نے بنرجی اور مغربی بنگال کے وزیر قانون مولوئے گھاتک کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی۔
9 جون کو بندل کی سربراہی میں بنچ نے بنرجی اور گھاتک کے حلف ناموں کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا، جس میں سی بی آئی کی جانب سے ناردا کیس کو خصوصی سی بی آئی کورٹ سے ہائی کورٹ میں منتقل کرنے کی درخواست کو چیلنج کیا گیا تھا۔ اس کے بعد دونوں رہنماؤں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، جس نے ہائی کورٹ کو تبادلہ کی درخواست پر فیصلہ کرنے سے پہلے ان کے حلف ناموں کا اعتراف کرنے کی ہدایت کی۔
خط میں نندیگرام انتخابی نتائج کے خلاف بنرجی کی درخواست کی فہرست بھی نامناسب ہونے کا الزام ہے۔ عدالت کے روسٹر کے مطابق جسٹس کوشک چندا اس کیس کی سماعت کرنے والے ہیں، لیکن بنرجی نے ’’تعصب کے امکان‘‘ کے پیش نظر انھیں اس کیس سے ہٹانے کی درخواست کی ہے۔ انھوں نے الزام لگایا ہے کہ چندا بطور وکیل اپنے دنوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی سے وابستہ تھے۔
دریں اثنا بار کونسل کے خط نے دعوی کیا ہے کہ یہ معاملہ جسٹس سبیاساچی بھٹاچاریہ کی سنگل جج بنچ کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔
بار اینڈ بنچ کے مطابق خط میں الزام لگایا گیا ہے کہ ’’اسی اثنا میں جسٹس بندل نے جسٹس بھٹاچاریہ کے بنچ سے معاملہ چھین لیا اور یہ معاملہ اپنے پسندیدہ جج جسٹس کوشک چندا کو سونپ دیا۔‘‘