کچھ خواتین نے شوہر کے ظلم سے متعلق قانون کا غلط استعمال کرے ہوئے ’’قانونی دہشت گردی‘‘ کو جنم دیا ہے: کلکتہ ہائی کورٹ

نئی دہلی، اگست 22: کلکتہ ہائی کورٹ نے پیر کے روز مشاہدہ کیا کہ بہت سے معاملات میں خواتین نے تعزیرات ہند کی اس شق کا غلط استعمال کرتے ہوئے ایک طرح کی ’’قانونی دہشت گردی‘‘ کو جنم دیا ہے، جو عورت کے خلاف اس کے شوہر یا اس کے رشتہ داروں کے ذریعہ ظلم سے متعلق ہے۔

ہائی کورٹ کے جسٹس سوبیندو سمانتا نے یہ باتیں ایک شخص اور اس کے کنبہ کے افراد کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے دیے جس میں اس کی بیوی کی جانب سے 2017 میں تعزیرات ہند کی دفعہ 498A کے تحت ان کے خلاف درج مقدمات کو چیلنج کیا گیا تھا۔

اس شخص نے کہا کہ عورت نے اکتوبر 2017 میں اس کے خلاف ذہنی اور جسمانی ظلم کے الزامات لگائے۔ اس نے کہا کہ دسمبر 2017 میں اس کی بیوی نے اس کے رشتہ داروں پر ظلم کا الزام لگاتے ہوئے ایک الگ مقدمہ دائر کیا۔

جسٹس سمانتا نے اپنے حکم میں کہا کہ کوئی ثبوت ریکارڈ پر نہیں لایا گیا، جس سے یہ ثابت ہو کہ شوہر کی طرف سے جرم کیا گیا ہے۔

عدالت نے نوٹ کیا کہ یہ جوڑا شوہر کے خاندان سے الگ اپارٹمنٹ میں رہ رہا تھا۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ’’کارروائی صرف ذاتی رنجش کو پورا کرنے کے لیے کی گئی ہے۔‘‘

عدالت نے کہا کہ دفعہ 498A ’’معاشرے سے جہیز کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے‘‘ متعارف کرائی گئی تھی۔ ’’لیکن یہ بہت سے معاملات میں دیکھا گیا ہے کہ مذکورہ شق کے غلط استعمال سے نئی قانونی دہشت گردی کو جنم دیا جاتا ہے۔‘‘

ہائی کورٹ نے شوہر اور اس کے اہل خانہ کے خلاف مقدمات کو کالعدم قرار دے دیا۔