سپریم کورٹ نے ہریانہ کے نوح میں مبینہ طور پر جبری تبدیلی مذہب کی تحقیقات کے لیے ایس آئی ٹی تشکیل دینے کی درخواست کو مسترد کردیا

نئی دہلی، جون 28: ہریانہ کے نوح ضلع میں ہندوؤں کی مبینہ طور پر جبری تبدیلی مذہب کی تحقیقات کے لیے ایس آئی ٹی تشکیل دینے کی درخواست پر سماعت کرنے سے سپریم کورٹ نے آج انکار کردیا۔

درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل وکاس سنگھ کو چیف جسٹس این وی رمنا کی سربراہی میں بنچ نے کہا کہ معذرت، یہ درخواست مسترد کر دی گئی ہے۔

وکاس سنگھ نے بنچ کو، جس میں جسٹس اے ایس بوپنا اور ہرشیکیش رائے بھی شامل تھے، یہ بتایا کہ درخواست گزاروں میں سے دو نے اس علاقے کا دورہ کیا تھا اور 21 سالہ نکیتا تومر کے اہل خانہ سمیت، جسے اکتوبر میں بلبھ گڑھ میں اس کے کالج کے باہر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا، وہاں اور لوگوں سے ملاقات کی تھی۔

بنچ نے مشاہدہ کیا ’’ہمیں نہیں لگتا کہ ہم اخباری اطلاعات کی بنیاد پر اس درخواست پر سماعت کرسکتے ہیں۔‘‘

اس سال مارچ میں ہریانہ کی فرید آباد کی ایک فاسٹ ٹریک عدالت نے تومر کے قتل کے الزام میں دو افراد کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

ایڈووکیٹ وشنو شنکر جین کے ذریعہ عدالت عظمی میں دائر کی گئی درخواست میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ نوح کے علاقوں میں ہندوؤں کی زندگی، ذاتی آزادی اور مذہبی حقوق اقلیتی طبقے کے ممبروں کے ذریعہ ’’مستقل مسمار‘‘ ہو رہے ہیں جو وہاں ’’غالب پوزیشن‘‘ میں ہیں۔

اس درخواست میں، جو وکلا کے ایک گروپ اور اترپردیش میں مقیم ایک سماجی کارکن کے ذریعہ دائر کی گئی تھی، دعوی کیا گیا تھا کہ ریاستی حکومت، ضلعی انتظامیہ اور پولیس اپنے اختیارات کا استعمال کرنے میں ناکام رہی ہے جس کی وجہ سے ہندوؤں خصوصاً خواتین اور دلتوں کی زندگی اور آزادی خطرے میں ہے اور وہ وہاں کے غالب گروہ کی ’’تلوار کے نیچے زندگی گزارنے‘‘ پر مجبور ہیں۔

درخواست میں اعلی عدالت کی طرف سے ایس آئی ٹی تشکیل دینے کے لیے ہدایت طلب کی گئی تھی، جس میں سی بی آئی اور این آئی اے کے ممبران شامل ہوں اور جو عدالت کے ایک ریٹائرڈ جج کی نگرانی میں کام کرے۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ اس ایس آئی ٹی کو ہندوؤں کے مبینہ طور پر جبراً مذہب تبدیل کرنے، ان کی جائدادوں پر غیرقانونی قبضوں، ہندو خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ ہونے والے مظالم، سرکاری اراضی پر کے جانے والے تجاوزات، مندروں اور مذہبی مقامات کے حالات اور وہاں موجود قبرستانوں کی بھی تحقیقات کرنی چاہئیے۔

اس میں کہا گیا تھا کہ حکام کو ہندوؤں کو ان کی جائیدادوں کی بحالی اور تمام مندروں، عبادت گاہوں اور شمشان گھاٹوں کی بحالی کی ہدایت کی جانی چاہیے۔

مردم شماری 2011 کا حوالہ دیتے ہوئے درخواست میں کہا گیا تھا کہ ضلع میوات کی مجموعی آبادی 10،89،263 ہے، جس میں مسلم آبادی کا تخمینہ 79.20 فیصد ہے۔