بہترتعلیمی نظام کے بغیر معاشی وسماجی ترقی ممکن نہیں

فرسٹ فاونڈیشن کی سالانہ سروے رپورٹ میں دیہی طلبا کی ابتر صورتحال کی نشاندہی

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

تعلیمی بجٹ میں اضافہ، درکار تعداد میں اساتذہ اور تعلیمی سہولتوں کی فراہمی پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت
ملک کے دیہی علاقوں میں 14سے 18 سال کے 25فیصد طلبا و طالبات دوسرے درجہ کی کتابیں پڑھنے کے قابل نہیں ہیں اور اسی عمر کے تقریباً 60فیصد بچے پیمانے سے اچھی طرح ناپنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ دیہی علاقوں میں ابتدائی اور ثانوی اسکولوں کی حالت بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ تعلیمی تنظیم فرسٹ فاونڈیشن کی Annual status of education report کے سروے میں دکھایا گیا ہے کہ 14 سے 18 سال کے تقریباً 87فیصد طلبا و طالبات کا اندراج اسکولوں میں ہے اور بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ تعلیم سے کنارہ کشی کی شرح بھی روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ یہ رپورٹ 26ریاستوں کے 28 اضلاع کے تقریباً 35 ہزار طالب علموں کے سروے کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔ گزشتہ دفعہ 2017میں ادارہ کی سالانہ رپورٹ میں اسی عمر کے بچوں کا سروے کیا گیا تھا۔ کورونا وبا کے ایام میں یہ تشویش ظاہر کی گئی تھی کہ زندگی کی گاڑی کو کھینچنے کے لیے اس عمر کے بچے تعلیمی سرگرمیوں سے کنارہ کش ہوسکتے ہیں۔ لیکن رپورٹ سے واضح ہوا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ جو تشفی بخش حالت ہے مگر محض اسکولوں میں داخلے سے معیار تعلیم تو بہتر نہیں ہوسکتا ۔ تعلیمی معیار کو بلند کرنے اور سبھی گھروں تک تعلیم کو بہم پہنچانے کے لیے ریاستی تعلیمی بجٹ میں اضافہ کرنا لازمی ہے۔ اسکول محض کسی عمارت کا نام نہیں ہوتا بلکہ وہ تعلیم و تربیت اور کردار سازی کا مرکز ہوتا ہے جیسے اچھے سانچے میں ڈھالنے کا کام اچھے اور شفیق اساتذہ ہی کرتے ہیں۔2017 اور 2023 کے درمیان 6سالوں میں طلبا کے معیار میں کسی طرح کا اضافہ نہیں ہوا۔ انگریزی پڑھنے اور ریاضی سیکھنے میں لڑکوں کا مظاہرہ بہتر ہےاس کے برعکس مقامی زبان سیکھنے کے معاملے میں لڑکیاں آگے ہیں۔ پہلی بار اس رپورٹ میں گیارہویں اور بارہویں کے مضامین کے انتخاب پر سروے کیا گیا ہے۔ ان درجات میں 54 فیصد طلبا آرٹس پڑھتے دیکھے گئے جبکہ 9.3 فیصد کامرس اور 33.7فیصد سائنس پڑھ رہے ہیں۔ سائنس پڑھنے کے مقابلے میں لڑکے لڑکیوں سے آگے دکھائی دے رہے ہیں۔ ASER2023 کے سروے میں گیارہویں اور بارہویں کے ساتھ کالج میں داخلہ لینے والوں کی تعداد، تعلیم کے لیے ڈیجیٹل نوٹس مثلاً اسمارٹ فون، لیپ ٹیپ ، ڈیسک ٹاپ، انٹرنیٹ کمپیوٹر وغیرہ کے استعمال کے اعداد و شمار کو بھی حاصل کیا گیا مگر یہ سب ڈیٹا حکومت کے بلند بانگ دعووں کے برعکس تعلیمی نظام کی ابتری کے پول کھول رہے ہیں جس کا تصور تیزی سے ترقی کرنے والے ملک میں ہرگز نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے خستہ حالات میں بچے اسکولی سطح پر مضامین سے ناواقف ہوں گے تو وہ آگے کی پڑھائی ہرگز نہیں کرپائیں گے اور اسکولی تعلیم سے الگ ہوجائیں گے۔ دیہی علاقہ میں 65فیصد آبادی بستی ہے۔ ان میں 47فیصد لوگ گزر بسر کے لیے زراعت پر انحصار کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دیہی علاقوں کی ترقی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے- لوگ ایسے علاقے اور قصبے میں زراعت سے منسلک سرگرمیوں میں شامل رہتے ہیں تاکہ انہیں روزگار میسر ہو۔ اس لیے ضروری ہے کہ طلبا اور طالبات تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ہنر مند ہوں، لیکن ملک میں روزگار کے مواقع کم ہی میسر ہیں۔ اس لیے ترقی کے میدان میں ان کی شمولیت کم ہی ہوتی ہے اور نہ ہی شہروں میں انہیں اچھے مواقع ملتے ہیں۔ مرکز اور ریاستوں نے تعلیمی بجٹ کو کچھ تو بڑھایا ہے مگر ملک کی اتنی بڑی آبادی کے لیے یہ ناکافی ہے ۔ جہاں ترقی یافتہ ممالک تعلیمی بجٹ کا حصہ 6فیصد سے اوپر رکھتے ہیں، وہیں ہمارے ملک میں یہ حصہ 3 فیصد سے بھی کم رہتا ہے۔ ویسے حکومتوں نے ریاستی طور پر اساتذہ کی بحالی اور ضروری تعلیمی سہولیات کو بہتر کرنے پر توجہ ضرور مرکوز کی ہے لیکن وہ اب بھی ناکافی ہے۔ اس لیے حکومت، سماج اور طلبا کے سرپرستوں کو مل کر طے کرنا ہوگا کہ بچوں کے روشن مستقبل کے لیے بہتر اور معیاری تعلیم کیسے فراہم ہو تاکہ بچے تعلیم کے ہر شعبہ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں اور ہم وشو گرو بن سکیں۔
ہمارا تعلیمی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ہمارے اسکولی تعلیم کے شعبہ کو چھوڑ دیجیے، اعلیٰ تعلیم کا بھی کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ آئی آئی ٹی اور چند یونیورسٹیوں کو چھوڑ کر عالمی درجہ بندی میں 100تا 200کے درمیان نہیں نظر آئے۔ دیہی پرائمری اور ثانوی اسکولوں کے حالات بدترین سطح پر ہیں۔ اکثر ابتدائی اسکولوں میں ایک ہی ٹیچر نظر آتا ہے۔ شہروں میں ہائی اسکولوں اور ہائر سکنڈری اسکولوں میں اکثر اساتذہ کی کمی رہتی ہے۔ بہت سارے مضامین کے اساتذہ کی تقرری سالہا سال تک نہیں ہوتی ہے۔ اساتذہ جن پر پڑھانے کے ساتھ بچوں کی ہمہ جہت نشو و نما کی ذمہ داری ہوتی ہے انہیں مختلف اوقات میں مردم شماری ودیگر انتخابی و سماجی کاموں میں لگادیا جاتا ہے جس سے انہیں اپنے نصاب کو مکمل کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ حکومت ابتدائی و ثانوی درسگاہوں سے جہلا کی فوج تیار کرنے میں مشغول ہے۔ اور حال یہ ہے کہ طلبا حروف شناسی اور خواندگی کی بنیادی خوبیوں سے بھی ناواقف ہی رہتے ہیں۔ اس تعلیمی زوال کا خاکہ ASER 2023 نے پیش کیا ہے جو ناگفتہ بہ ہے۔ حق تعلیم ’رائٹ ٹو ایجوکیشن (RTE)‘ 2010میں نافذ ہوا۔ اس کے آئندہ دس سالوں میں 6 تا 14 سال کی عمر کے تمام بچوں کا نام اندراج کیا گیا ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی (NEP) میں بنیادی تعلیم میں ریاضی کو ترجیح دینے پر زور دیا گیا ہے جیسا کہ عرض کیا گیا ہے کہ ہائی اسکول کے بچوں کو دوسری جماعت کی کتابوں کو روانی سے پڑھنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ ریاضی کے جمع تفریق، ضرب و تقسیم کے بنیادی سوالات ان کے پلے نہیں پڑتے۔ اس طرح ASER رپورٹ نے آشکار کردیا ہے کہ ہمارا نظام تعلیم انتہائی بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ دستور ہند میں شہریوں کے بنیادی حقوق میں تعلیم کو بہت ہی خاص مقام دیا گیا ہے۔ لیکن مرکزی حکومت نے اسے پوری طرح نظر انداز کر دیا ہے کیونکہ یہ شعبہ غیر پیداواری ہے۔ حکومت کو اس سے کوئی خاص سیاسی فائدہ ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ اس لیے حکومت تعلیمی شعبہ کے تعلق سے ہمیشہ بے حسی کا شکار رہی ہے۔ پڑھتے بھارت اور بڑھتے بھارت کا جذباتی نعرہ ضرور دیا جاتا ہے مگر زمینی سطح پر نیم خونداہ بچوں کو نفرت کا دھتورا چٹا کر دنگائی بنانے کا کام پوری ایک دہائی سے جاری ہے۔ متمول اور اچھے گھرانوں کے لوگ اپنے بچوں کو معیاری تعلیم سے آراستہ کرکے اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ممالک اچھی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیج دیتے ہیں اور غریب لوگوں کے بچے غربت کی مار جھیلتے ہوئے اچھی اور معیاری تعلیم سے محروم رہ کر محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہوتے ہیں یا بے کار رہ کر مودی کے مفت راشن پر گزارہ کرتے رہیں۔ ملک میں معاشی، سماجی اور تعلیمی نا برابری اور عدم مساوات کا ہر سو دور دورہ ہے۔ یہاں معیشت و تجارت افراط و تفریط کا شکار ہے پھر بھی ہم تیسری بڑی معیشت بننے کا خوب زور زور سے ڈنکا پیٹ رہے ہیں۔ اب اگر ہمیں ملک کومعاشی سماجی اور تعلیمی ترقی کی راہ پر لے جانا ہے تو تعلیمی نظام کو بہتر کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی۔ اس لیے تو NEP 2020 صد فیصد اسکولوں میں اندراج کا مشورہ دیتی ہے۔ بچوں پر سے بذریعہ اصلاح امتحانی دباو سے گریز کرنا چاہیے جس میں اچھی خاصی لچک ہو تاکہ زیادہ سے زیادہ بچے زیادہ وقت تک اسکولوں میں رہ کر معیاری تعلیم حاصل کر سکیں اور اپنا مستقبل سنواریں۔
آر بی آئی کے سابق گورنر پروفیسر رگھو رام راجن نے کہا کہ ملک کو 2047 تک ترقی یافتہ معیشت بنانے کے لیے سب سے زیادہ دھیان تعلیم اور اس کے بعد شعبہ صحت پر مرکوز کرنا ہوگا۔ ترقی یافتہ بھارت 2047کا خواب پورا کرنے کی سمت میں یہی سب سے اہم اور مضبوط قدم ہوگا۔ انہوں نے بھارت کی ترقی کے لیے مستقبل کی سمت متعین کرنے کے لیے تعلیم پر زور دیا اور کہا کہ اس سے ہمیں آبادی کا نفع ملے گا۔
***

 

***

 ہمارا تعلیمی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ہمارے اسکولی تعلیم کے شعبہ کو چھوڑ دیجیے، اعلیٰ تعلیم کا بھی کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ آئی آئی ٹی اور چند یونیورسٹیوں کو چھوڑ کر عالمی درجہ بندی میں 100تا 200کے درمیان نہیں نظر آئے۔ دیہی پرائمری اور ثانوی اسکولوں کے حالات بدترین سطح پر ہیں۔ اکثر ابتدائی اسکولوں میں ایک ہی ٹیچر نظر آتا ہے۔ شہروں میں ہائی اسکولوں اور ہائر سکنڈری اسکولوں میں اکثر اساتذہ کی کمی رہتی ہے۔ بہت سارے مضامین کے اساتذہ کی تقرری سالہا سال تک نہیں ہوتی ہے۔ اساتذہ جن پر پڑھانے کے ساتھ بچوں کی ہمہ جہت نشو و نما کی ذمہ داری ہوتی ہے انہیں مختلف اوقات میں مردم شماری ودیگر انتخابی و سماجی کاموں میں لگادیا جاتا ہے جس سے انہیں اپنے نصاب کو مکمل کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ حکومت ابتدائی و ثانوی درسگاہوں سے جہلا کی فوج تیار کرنے میں مشغول ہے۔ اور حال یہ ہے کہ طلبا حروف شناسی اور خواندگی کی بنیادی خوبیوں سے بھی ناواقف ہی رہتے ہیں


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 فروری تا 17 فروری 2024