بموں اور میزائیلوں کی بارش میں رمضان کی آمد

نیتن یاہو فلسطینی زندگیوں کو نظر انداز کرکے غزہ کی ’مکمل تباہی‘ کے در پے!

مسعود ابدالی

پریشانیوں اور آزمائش کے باوجود فلسطینی، القدس شریف کے معاملے پر کسی مداہنت پر تیار نہیں
جب یہ سطور آپ تک پہنچیں گی، مسلمانان عالم رمضان کی برکتوں سے مستفید ہورہے ہوں گے۔ اہل غزہ بیچارے 7؍ اکتوبر سے کھجور اور چند گھونٹ پانی پر ’سحر و افطار ‘ کررہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے عالمی ادارہ صحت (WHO)نے یہ روح فرسا خبر سنائی کہ غزہ کے دس بچے بھوک و پیاس سے دم توڑ گئے۔ ادارے نے خطرہ ظاہر کیا ہے کہ خوراک کی قلت سے مرنے والوں کی تعداد میں ہر روز مزید اضافہ ہوگا۔
دنیا یہ مظالم دیکھ رہی ہے، اس پر افسوس اور گریہ زاری کا عمل بھی نظر آرہا ہے لیکن دستِ قاتل کو روکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش اب تک سامنے نہیں آئی، حتیٰ کہ ظلم کا بچشمِ خود مشاہدہ کرنے والے بھی جنگ بندی کے مطالبے سے گریزاں ہیں۔اسرائیل سے مرعوب امریکی سیاست کا عبرتناک مشاہدہ چند روزپہلے ہوا جب امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کے چھ ارکانِ کانگریس نے اسرائیل سے واپسی پر ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ ’وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو فلسطینی زندگیوں کو نظر انداز کرکے غزہ کی ’مکمل تباہی‘ کے درپے نظر آرہے ہیں‘ ایوان کی مجلس قائمہ برائے تفویض و تخصیص (Appropriation) کی سینئر رکن روسا ڈیلیرو کی قیادت میں اس وفد نے غزہ کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے اسرائیل کا دورہ کیا تھا۔ بیان میں بہت وضاحت سے نتن یاہو کو ریلیف فراہم کرنے میں ناکامی کا براہ راست ذمہ دار ٹھیرایاگیاہے. لیکن ستم ظریفی کہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد بھی امریکہ کے ان لال بھجکڑوں نے مکمل جنگ بندی کے بجائے لڑائی میں چھ ہفتے کے وقفے کا مطالبہ کیا تاکہ قیدیوں کا تبادلہ ممکن ہوسکے یعنی 25 لاکھ فلسطینیوں پر 100 قیدی بھاری ہیں۔
غزہ آنے کے تمام راستوں پر اسرائیلی انتہا پسند دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ رفح مصر سرحد پر تلاشی کا نظام اتنا سست کہ ایک دن میں زیادہ سے زیادہ پندرہ ٹرکوں کو غزہ آنے کی اجازت مل پاتی ہے۔ جہاں 20 لاکھ افراد بھوک پیاس کا شکار ہوں وہاں پندرہ ٹرکوں سے کتنے لوگوں تک چند گھونٹ پانی پہنچ سکتا ہے؟ اسرائیلیوں کی کٹھور دلی کا یہ عالم کہ انہیں ان پندرہ ٹرکوں کا آنا بھی قبول نہیں۔
جمعرات 29؍ فروری کو شمالی غزہ میں امدادی راشن کے لیے جمع ہونے والے بھوکے پیاسے شہریوں کو اسرائیلی فوج نے گھیر کر چاروں طرف سے فائرنگ شروع کردی یا یوں کہیے کہ جلیانوالہ باغ کی تاریخ دہرادی گئی۔ نہتے لوگوں کو ڈرون سے بھی نشانہ بنایا گیا۔ اس وحشیانہ کارروائی میں خواتین اور شیرخوار بچوں سمیت 130 افراد جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان نے پہلے تو بھگڈر کو ان اموات کا سبب قراد دیا لیکن جب اقوام متحدہ کے اہلکاروں نے بصری تراشے جاری کیے تو تل ابیب نے موقف تبدیل کرلیا اور کہا کہ ہجوم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ‘دہشت گردوں’ نے ٹینکوں کو گھیر لیا اور فوج نے اپنے دفاع میں گولی چلائی۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ اکثر لاشوں میں چھ سے زیادہ گولیاں پیوست پائی گئیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مجمع پر بہت قریب سے اندھا دھند فائرنگ کی گئی۔ امریکی صدر نے اس واقعے پر گہرے رنج کا اظہار کیا لیکن اس بھیانک واقعہ پر سلامتی کونسل کی مذمتی قرارداد ویٹو کی دھمکی دے کر رکوا دی۔ الجزائر کی جانب سے پیش کردہ اس تحریک کی امریکہ کے سوا تمام کے تمام ارکان نے حمایت کی تھی۔
اس بھیانک واقعے کے دوسرے روزایک مزاحیہ فنکار کے ساتھ آئسکریم چاٹتے ہوئے امریکی صدر نے غزہ امن کی ‘نوید’ سنادی۔ موصوف بہت اعتماد سے بولے کہ دس مارچ تک جنگ بندی ہوسکتی ہے۔ْ فرمایا کہ وہ ‘احترامِ رمضان’ میں چھ ہفتےکے لیے جنگ بندی کے خواہشمند ہیں تاکہ اہل غزہ رمضان کے روزے اطمینان سے رکھیں، عید منائیں اور اس دوران قیدی بھی رہا کردیے جائیں۔زمینی حقائق سے بے خبر بائیڈن نے رمضان امن پیکج’ کی رونمائی اس شان سے فرمائی جیسے یہ امریکی خارجہ پالیس کا بڑا کارنامہ ہے۔ صدر بائیڈن اور گوری دنیا کو غزہ کے قتل عام پر فکرو پریشانی صرف اس لیے ہے کہ اس کے نتیجے میں زیر حراست اسرائیلی قیدیوں کی زندگی خطرے میں پڑسکتی ہے۔ اسی لیے وہ مسلسل عارضی جنگ بندی کی تجویز دے رہے ہیں تاکہ اس دوران قیدی رہا ہوجائیں جس کے بعد بلا سے اسرائیل ہلاکت خیز بمباری دوبارہ شروع کردے۔
عین اس وقت جب آئسکریم کے مزے لیتے ہوئے موصوف امن کی جگالی فرما رہے تھے، اہل غزہ نے اعلان کیا کہ مکمل جنگ بندی اور غزہ سے اسرائیلی فوج کی واپسی ان کی بنیادی شرط ہے جس کے بعد ہی قیدیوں کے تبادلے پر بات ہوسکتی ہے۔اسرائیلی خبر رساں اداروں نے بھی اہل غزہ کی جانب سے پیرس امن تجاویز مسترد کردینے کی تصدیق کی ہے۔
جہاں امریکی قیادت بے حسی کی انتہا پر ہے وہیں امریکی فضائیہ کے ایک با وردی افسر نے ضمیر کی خلش مٹانے کے لیے دارالحکومت واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے خود کو آگ لگالی۔ پٹرول سے شرابور جسم کو دیاسلائی دکھانے سے پہلے اس نے کہا ‘میں غزہ نسل کشی میں سہولت کار نہیں رہ سکتا اور اس ظلم پر شدید احتجاج کرتا ہوں” شعلوں میں گھرا یہ شخص ’’فلسطین کو آزاد کرو‘‘ کا نعرہ لگاتا رہا۔پولیس اور فائربریگیڈ کے عملے نے آگ بجھا کر اسے ہسپتال پہنچا دیا۔ جہاں یہ 25 سالہ اہلکار ہارون بشنیل Aaron Bushnell زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسا۔ بشنیل فضائیہ کے محکمہ سراغرسانی میں تھا اور اسے غزہ کے بارے اہم معلومات تک رسائی تھی۔ سوشل میڈیا پر اس نے کہاکہ امریکہ کی پشت پناہی میں اسرائیلی فوج نہتے اہل غزہ پر جو ظلم ڈھارہی ہے اسے بیان کرنا میرے بس میں نہیں ہے۔ ضمیر کی خلش مجھے سونے نہیں دیتی، میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ انسان ایسا وحشی بھی ہوسکتا ہے۔ اگر میں مزید زندہ رہا تو پاگل ہوجاوں گا اس لیے اپنی زندگی ختم کررہا ہوں۔
مظالم کی انتہا اور اسرائیلی جرنیلوں کی جانب سے فتح مبیں کی نوید کے باوجود زمین پر عسکری صورتحال فلسطینیوں کے لیے مایوس کن ہے۔ امریکی سراغرساں اداروں کی رپورٹ کے بعد سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے سراغرساانی کے سربراہ سینیٹر مارک ورنر نے امریکی ٹیلی ویژن NBCکو بتایا کہ غزہ سرنگ نیٹ ورک کے صرف ایک ’چھوٹے سے حصے کو کلیئر کیا گیا ہے۔ جن سرنگوں کو اسرائیلی مکمل طور پر صاف کرنے میں کامیاب رہے ہیں وہ بہت کم اور حیرت انگیز طور پر بہت چھوٹا حصہ ہے‘ امریکی مرکزی کمان کے سابق سربراہ جنرل جان ووٹل نے کہا کہ اگر اسرائیل کے اس دعوے کو درست بھی مان لیاجائے کہ وہ 40 فیصد فلسطینی جنگجووں کو ہلاک کرچکے ہیں تب بھی غزہ اسرائیل کے لیے دلدل بنتا نظر آرہا ہے۔
غیر جانب دار عسکری ماہرین، میدان جنگ میں فوجی یونٹو ں کے تعیناتی دورانیوں میں تبدیلی کو بھی معنی خیز قرار دے رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اسرائیلی فوج فلسطینی نشانچیوں کے حملے سے خاصی پریشان ہے۔ سنگلاخ و مشکل علاقوں کے لیے خصوصی تربیت یافتہ اسرائیلی گیواتی بریگیڈ میں درجنوں افسروں کو چند میٹر کے فاصلے سے نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیلی فوجی قیادت کو اس بات پر بڑی حیرت ہے کہ تربیت یافتہ کتوں، جسم کی حرارت اور سانس کی حرکت نوٹ کرنے والے حساس آلات کی موجودگی میں شکاری بلا اطلاع ان کے سروں پر کیسے پہنچ جاتے ہیں؟ جمعرات 29؍ فروری کو پیراٹروپر بریگیڈ کی جگہ تازہ دم پیادہ کور کے تربیت یافتہ کمانڈوذ کو جنوبی غزہ تعینات کیا گیا۔ اسی رات ایک دو منزلہ خستہ عمارت میں مستضعفین نے بارود بھرکر یہ تاثر دیا کہ یہاں مزاحمت کار چھپے ہوئے ہیں۔ جب اسرائیلی فوجی تلاشی کو آئے تو پوری عمارت دھماکے سے اڑگئی۔ تین اسرائیلی سپاہی ہلاک اور 14 زخمی ہوگئے یعنی سرمنڈاتے ہی اولے پڑے کے مصداق پہلے ہی روز نوواردوں پر یہ آفت ٹوٹ پڑی۔ اسرائیل کے عسکری اسپتالوں، بحالی مراکز (Rehabilitation Center) اور پارکوں میں جوانانِ رعنا بیساکھیوں پر گھسٹتے اور وہیل چیر پر محوِ خرام نظر آتے ہیں۔ گزشتہ دنوں کسی اسرائیلی صارف نے فیس بک کے ایک عبرانی صفحے پر لکھا کہ غزہ سے آنے والے زخمیوں میں کوئی بھی پورے جسم کے ساتھ نہیں آیا۔ کسی کی آنکھ غائب ہے تو کسی کا ہاتھ یا پیر۔
اسرائیلی فوجیوں کے مظالم کے جو روح فرسابصری تراشے سامنے آرہے ہیں، صحافتی حلقوں کے خیال میں وہ اسرائیل کی نفسیاتی مہم کا حصہ ہے۔ حال ہی میں ایک تراشہ جاری ہوا ہے جس میں چند مشکیں کسے بچوں کو ٹینکوں سے کچلنے کے مناظر دکھائے گئے ہیں۔ اس سے پہلے ایک فلسطینی بچے کو برہنہ کرکے تشدد کرنے کا منظر عام ہوا۔ ایک ہفتہ قبل جاری ہونےوالی کلپس میں دکھایا گیا ہے کہ غزہ کی خواتین سے چھینے گئے زیورات، اسرائیلی فوجی بہت فخر سے اپنی بیویوں اور گرل فرینٖڈز کو پیش کررہے ہیں۔ یہ مناظر کسی بھی فوج کے لیے شرمناک ہیں لیکن ان کے اجرا کامقصد ایک طرف تو فلسطینیوں کو دہشت زدہ کرنا ہے تو دوسری طرف یہ مناظر خوفزدہ سپاہیوں کے حوصلوں کو بلند کرنے اور ان کو مزید مظالم پر آمادہ کرنے کی کوشش ہے۔
جہاں امریکہ میں ایک فوجی کی خود سوزی سے انسانی ضمیر کی بیداری کا پتہ چل رہا ہے وہیں انگلستانی شہر روکڈیل (Rockdale) کے ضمنی انتخاب میں فلسطینیوں کے پرجوش حامی جارج گالوے (George Galloway)کی شاندار کامیابی سے سیاست کا نیا رجحان ظاہر ہورہا ہے۔ یہ نشست لیبر پارٹی کے سر ٹونی لائیڈ کے انتقال سے خالی ہوئی تھی۔ آزاد فلسطین نعرے پر جان گالووے ورکرز پارٹی کے نمائندے حیثیت سے کھڑے ہوئے اور 12335ووٹ لے کر یہ نشست جیت لی۔ ان کے قریب ترین حریف، آزاد امیدوار ڈیوڈ ٹلی نے 6638 ووٹ لیے۔ گالووے نے اپنی کامیابی کو غزہ کے شہیدوں کے نام کیا اور ایک بڑے ہجوم سے خظاب کرتے ہوئے انہوں نے قائد حزب اختلاف Keir Starmer کو مخاطب کرکے کہا کہ جناب، عالی یہ غزہ کی
کامیابی ہے۔ جناب گالووے نے کہا کہ وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں جو ذاتی سیاسی مفاد کے لیے غزہ قتل عام کو سہولت کاری فراہم کررہے ہیں..
غزہ کے ساتھ غربِ اردن پر مظالم میں مزید شدت آگئی ہے۔ منگل 27؍ فروری کی شام الخلیل (Hebron)شہر کی رائل پلاسٹک فیکٹری میں پراسرار طور پر آگ بھڑک اٹھی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے آدھے شہر کو لپیٹ میں لے لیا۔ یروشلم سے 30 کلومیٹر جنوب میں تلال الخلیل پہاڑ پر واقعہ یہ شہر سطح سمندر سے 930 میٹر بلند ہے۔غزہ حملے کے بعد سے غرب اردن کے دوسرے صنعتی یونٹوں کی طرح یہ فیکٹری بھی تالہ بندی کا شکار تھی۔الخلیل کے رئیس شہر تيسير أبو سنينہ کے مطابق آگ اچانک بھڑکی اور انتہائی پراسرار انداز میں پھیل گئی۔ فائر بریگیڈ کا مرکزی دفتر بھی آگ کی لپیٹ میں آگیا۔ مئیر صاحب اسرائیل خفیہ پولیس کی فہرست میں ایک دہشت گرد اور بستہ ب کے بدمعاش ہیں اس لیے فائر بریگیڈ اور شہری خدمات کے اسرائیلی اداروں نے ان کے فون کا جواب تک نہیں دیا اور دو لاکھ نفوس پر مشتمل اس شہرکا بڑا حصہ راکھ کا ڈھیر بن گیا۔ فلسطینیوں کے خیال میں آتشزدگی اسرائیلی بستی کی تعمیر کے لیے مقامی شہریوں کو بے دخل کرنے کی حکمت عملی ہے۔
غزہ قتل عام پر دنیا کی بے حسی کا کیا گلا کہ پاکستان کرکٹ سپر لیگ (PSL) کی انتظامیہ نے اسٹیڈیم میں فلسطینی پرچم لہرائے پر پابندی لگا دی۔ جواب میں کراچی کے شہریوں نے پی ایس ایل سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور الو بولتا اسٹیڈیم نشان عبرت بن گیا، کسی منچلے نے سوشل میڈیا پر ہانک لگائی کہ ’تم نے فلسطینی پرچموں پر پابندی لگائی، کراچی کے شہریوں نے تمہارے منہہ پر ویرانیت کے لعنت ثبت کردی۔ نہر تا بحر ۔۔ فلسطین‘
پریشانیوں اور آزمائش کے باوجود فلسطینی، القدس شریف کے معاملے پر کسی مداہنت پر تیار نہیں۔ رمضان میں مسجد اقصیٰ تک رسائی محدود کرنے کے خلاف مطالبہ یا درخواست کے بجائے استقبالِ رمضان کے لیے القدس مارچ کا اعلان کیا گیاہے۔ نمازی پہلی تراویح کے لیے مقبوضہ بستیوں سے جلوس کی شکل میں مسجد اقصیٰ پہنچیں گے۔ ایسے ہی ایک حوصلہ مند نوٹ پر آج کی نشست کا اختتام
اسرائیلی فوج شہریوں پر رفح خالی کرنے کے لیے دباو ڈال رہی ہے۔ ایک 80 سالہ نہتی دادی اماں نے مسلح سپاییوں سے دوٹوک کہا ‘میں کم عمری میں اپنے والدین کے ساتھ اپنے گھر سے نکالی گئی اور غزہ آگئی یہیں میری شادی ہوئی اور میرے بچوں اور ان کے بچوں نے جنم لیا۔ اسرئیلی بمباری نے مجھے اور میری بیٹیوں کو بیوہ کردیا اوراب یہیں میری قبر بنے گی۔ میں کہیں نہیں جانے والی۔ بم گراو، توپ چلاو، گولیاں مارو، ٹینکوں سے روند ڈالو
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
***

 

***

 اسرائیلی فوجیوں کے مظالم کے جو روح فرسابصری تراشے سامنے آرہے ہیں، صحافتی حلقوں کے خیال میں وہ اسرائیل کی نفسیاتی مہم کا حصہ ہے۔ حال ہی میں ایک تراشہ جاری ہوا ہے جس میں چند مشکیں کسے بچوں کو ٹینکوں سے کچلنے کا مناظر دکھائے گئے ہیں۔ اس سے پہلے ایک فلسطینی بچے کو برہنہ کرکے تشدد کا منظر عام ہوا۔ ایک ہفتہ قبل جاری ہونےوالی کلپس میں دکھایا گیا ہے کہ غزہ کی خواتین سے چھینے گئے زیورات، اسرائیلی فوجی بہت فخر سے اپنی بیویوں اور گرل فرینٖڈز کو پیش کررہے ہیں۔ یہ مناظر کسی بھی فوج کے لیے شرمناک ہیں لیکن ان کے اجرا کامقصد ایک طرف تو فلسطینیوں کو دہشت زدہ کرنا ہے تو دوسری طرف یہ مناظر خو فزدہ سپاہیوں کے حوصلوں کو بلند کرنے اور ان کو مزید مظالم پر آمادہ کرنے کی کوشش ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 مارچ تا 16 مارچ 2024