زعیم الدین احمد حیدرآباد
نہ کھاؤں گا اور نہ کھانے دوں گا کا نعرہ لگانے والے مودی اتنا کھا گئے کہ کھانے کے پچھلے سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ اب نعرہ یہ ہونا چاہیے "میں ہی کھاؤں گا کسی کو کھانے نہ دوں گا”۔
سی ایس ڈی ایس اور لوک نیتی کی جانب سے ایک سروے کیا گیا کہ آنے والے عام انتخابات کے سلسلے میں وہ کیا مسائل ہیں جو عوام کے ذہنوں میں رہیں گے اور جس کی بنیادی پر ووٹ ڈالے جاسکتے ہیں؟ بنیادی طور پر عوام نے تین بڑے مسائل پر اپنی رائے ظاہر کی ہے، سوالات اور بھی تھے لیکن ان میں سے یہ تین باتیں ابھر کر سامنے آئیں۔ پہلی بات بے روزگاری، دوسری مہنگائی اور تیسری بات ترقی کی،ل۔ رائے دہندگان اس بات پر متفق ہیں کہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں سب سے زیادہ یہی مسائل ان کے لیے باعث تشویش ہوں گے۔
پہلی دو چیزیں یعنی بے روزگاری اور مہنگائی برسراقتدار بی جے پی کے لیے درد سر بننے والی ہیں، رہی تیسری بات ترقی کی تو بھاجپا کی ساری مشینری اس بات کی تشہیر میں رات دن لگی ہوئی ہے کہ ملک نے اس کے دور میں بے حد ترقی کرلی ہے، اتنی ترقی کہ گزشتہ ستر سال میں ایسی ترقی نہیں ہوئی، ہر طرف بھارت کی ترقی کا ڈنکا بج رہا ہے، عوام اتنے خوشحال ہیں کہ امریکہ جیسے ملک کی بھی رال ٹپکنے لگی ہے۔ واٹس ایپ یونیورسٹی میں بھاجپا کے ہرکارے یہ ثابت کرنے لگے ہوئے ہیں کہ ملک نے ترقی میں امریکہ و یورپ جیسے ممالک کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے، ہمارے ملک کے معصوم و بھولے بھالے عوام بھی شاید اس کے جھانسے میں آ بھی جائیں، بہر حال یہ بھی انتخابات میں موضوع رہے گا۔
لوک نیتی – سی ایس ڈی ایس کے ما قبل انتخابی سروے کے مطابق رائے دہندوں میں سر فہرست مسئلہ بے روزگاری کا، اس کے بعد قیمتوں میں اضافے کا مسئلہ ہے۔ جب کہ کرپشن اور رام مندر جیسے مقبول عام مسائل کو ووٹروں نے اپنے اہم خدشات میں ذکر بھی نہیں کیا ہے۔ بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن کی حالیہ رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ بے روزگاری کا مسئلہ جو کہ ریاستی انتخابات میں بھی ایک اہم مسئلہ کے طور پر ابھرا تھا، اب اس نے وقت کے ساتھ ساتھ مزید شدت اختیار کرلی ہے۔ بھارت جیسے کثیر آبادی والے ملک اور جس کی آبادی کا ایک بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، یہی نوجوان بے روزگاری سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2022 میں اگر سو بے روزگار تھے تو ان میں 82.9 فیصد بے روزگار نوجوان ہی ہیں۔
مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ رائے دہندگان میں سے تقریباً 60 فیصد یہ محسوس کرتے ہیں کہ پچھلے پانچ سالوں میں گزشتہ کے مقابلے میں ملازمتیں حاصل کرنا زیادہ مشکل ہو گیا ہے، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ملازمت کے بازار میں کتنے چیلنجز پائے جاتے ہیں۔ محض 12 فیصد لوگوں نے کہا کہ انہیں نوکریاں حاصل کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی ہے۔ رپورٹ سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ان مسائل سے دیہی عوام بہت زیادہ متاثر ہیں، دیہی رائے دہندوں کے مطابق بے روزگاری اور مہنگائی میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے، 2019 سے ان میں بہت زیادہ اضافہ دیکھا گیا۔
ترقی کے متعلق رائے دہندوں کا خیال جانیے، ہر 10 رائے دہندوں میں سے دو رائے دہندوں کا احساس ہے کہ نریندر مودی کے پچھلے پانچ سالہ دور اقتدار میں، ملک میں کوئی ترقی نہیں ہوئی، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "اگرچہ کہ 2004 سے رائے دہندوں کا اتنا ہی تناسب تھا جن میں اسی قسم کا خیال پایا جاتا تھا، لیکن اس سروے سے تعجب خیز امر یہ سامنے آیا ہے کہ 32 فیصد رائے دہندوں کا خیال یہ ہے کہ پچھلے پانچ سال میں ترقی صرف امیروں کی ہوئی ہے، غریب عوام کے لیے کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوئے ہیں۔ ان رائے دہندوں نے ہونے والے ترقیاتی اقدامات پر بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ 15 فیصد رائے دہندگان نے کہا کہ کسی بھی قسم ترقی نہیں ہوئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صرف 8 فیصد رائے دہندگان نے بدعنوانی اور ایودھیا و رام مندر کو اہم مسائل کے طور پر ذکر کیا۔ تاہم رائے دہندگان کی اکثریت نے یہ احساس ظاہر کیا ہے کہ مودی حکومت کے پچھلے پانچ سالوں میں بدعنوانی میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ 55 فیصد کا کہنا ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں کرپشن میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ایک ایسا مکھیا جو دوسری پارٹیوں کو رشوت خور بد عنوانی میں لت پت بتاتا تھا، خود اس کی پارٹی بدعنوانی میں لت پت پائی گئی ہے، طرفہ تماشا یہ ہے کہ بد عنوانوں کو اپنی پارٹی شامل کر کے، بدعنوانی کو قانونی درجہ دلانے کی کوشش کی جا رہی ہے، الیکٹورلول بانڈس نے تو بدعنوانی کا ایک نیا باب کھول دیا ہے، مودی نے بدعنوانی کے خلاف ہونے کا جو مصنوعی حالہ بنا رکھا تھا وہ اب موم کی طرح پگھلتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ عوام ان کے جھوٹ کو جان چکی ہے۔ مجھے بھاجپا کے ان نیتاؤں پر ہنسی آتی ہے جو اپنے آپ کو بدعنوانی کے خلاف چیپمین ہونے کا دعویٰ کرتے تھے، آج ان کی پارٹی میں نامور بدعنوان شامل ہو کر انہیں ہی منہ چڑا رہے ہیں۔
رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ دارالحکومت دہلی کے رائے دہندوں نے کہا ہے کہ پچھلے دو سالوں میں قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، ہر دس میں سے نو افراد نے کہا ہے کہ قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں جبکہ آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے، ضروریات زندگی کے ہر چیز کی قیمتوں میں بہت اضافہ ہوا ہے، گھریلو پکوان کی گیس ہو یا پھر بجلی کا بل، راشن کا سامان ہو یا کھانے کا سامان، دوائیاں ہو یا بچوں کی تعلیمی فیس، گھر کا کرایہ ہو یا ذرائع حمل و نقل، 87 فیصد کا کہا ہے کہ قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ 84 فیصد کا کہنا ہے کہ ہماری آمدنی سے گھر کے اخراجات پورے نہیں ہو رہے ہیں، ان میں سے بھی 56 فیصد لوگ ایسے ہیں جنہوں نے کہا کہ ہماری کمائی سے گھریلو اخراجات پورے کرنا ممکن نہیں ہے، یعنی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ یہ صورت حال تقریباً تمام ہی شہری علاقوں میں پائی جاتی ہے۔
لیکن مودی سرکار ان مسائل پر گفتگو کرنے کو تیار ہی نہیں ہے، پوری بھاجپا اور اس کے اندھے بھکت جھوٹے پرچار میں لگے ہوئے ہیں، وہ بے جا تائید میں اس قدر اندھے ہوچکے ہیں کہ انہیں حقیقت نظر ہی نہیں آرہی ہے۔ بے غیرتی کی حد یہ ہے کہ وہ دوسرے ملک کی چمچماتی سڑک دکھا کر کہتے ہیں کہ دیکھو اترپردیش نے کتنی ترقی کرلی ہے۔ انہوں نے جھوٹ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے۔ جو سڑکیں بنی ہیں وہ صرف اور صرف امیروں کے لیے بنی ہیں، اس پر زیادہ تو سامان سے لدی گاڑیاں ہی سفر کرتی ہیں تاکہ اپنے ساہو کاروں کا سامان بحفاظت پہنچانے میں آسانی ہو، ان کی جیبیں بھریں، مودی کا یہی وطیرہ ہے کہ غریبوں سے چھینو، امیروں میں بانٹو۔
***
***
پوری بھاجپا اور اس کے اندھے بھکت جھوٹے پرچار میں لگے ہوئے ہیں، وہ بے جا تائید میں اس قدر اندھے ہوچکے ہیں کہ انہیں حقیقت نظر ہی نہیں آرہی ہے۔ بے غیرتی کی حد یہ ہے کہ وہ دوسرے ملک کی چمچماتی سڑک دکھا کر کہتے ہیں کہ دیکھو اترپردیش نے کتنی ترقی کرلی ہے۔ انہوں نے جھوٹ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے۔ جو سڑکیں بنی ہیں وہ صرف اور صرف امیروں کے لیے بنی ہیں، اس پر زیادہ تو سامان سے لدی گاڑیاں ہی سفر کرتی ہیں تاکہ اپنے ساہو کاروں کا سامان بحفاظت پہنچانے میں آسانی ہو، ان کی جیبیں بھریں، مودی کا یہی وطیرہ ہے کہ غریبوں سے چھینو، امیروں میں بانٹو۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 اپریل تا 27 اپریل 2024