آسام میں 15لاکھ افراد کو بھکمری کا خطرہ

راشن کارڈ کو آدھار کارڈ سے مربوط کرنے کا لزوم

دعوت نیوز نیٹ ورک

بسوا سرما حکومت کے اچانک فیصلے کے بعد راشن روک دیا گیا
گوہاٹی: یوں تو قومی میڈیا میں آسام اور اس کے بنیادی مسائل پربات بہت ہی کم ہوتی ہے، مگر آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما ان دنوں قومی میڈیا میں ہیرو کے طور پر پروجیکٹ کیے جارہے ہیں۔ بسوا سرما کی سیاسی زندگی کا بڑا حصہ کانگریس کے ساتھ وابستگی میں گزرا ہے اور خاندانی طور پر وہ کانگریسی رہے ہیں۔2014میں مودی لہر کے بعد وہ کانگریس کا دامن چھوڑ کر بی جے پی سے وابستہ ہوگئے۔اگرچہ اس میں کانگریس کی اندرونی خیمہ بازی کا بہت بڑا قصور رہا ہے۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ہیمنت بسوا سرمانے بھی بی جے پی کی’’ صفائی مہم ‘‘سے فائدہ اٹھایا۔بی جے پی میں شمولیت کے بعد شاردا اور دیگر چٹ فنڈ گھوٹالوں میں ملوث ہونے کے داغ سے پاک صاف ہوگئے۔بسوا سرما نے بی جے پی کو شمال مشرقی ریاست میں اقتدار تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا اور 2021کے انتخابات میں انہیں اس کاصلہ بھی دیا تھا۔2021کے اسمبلی انتخابات کے آسام کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد سے ہی ہیمنت بسوا سرما کے نشانے پر آسام کی 34فیصد مسلم آبادی ہے۔انہوں نے پے درپے کئی ایسے اقدامات کیے ہیں جن سے آسام کی مسلم آبادی کےلیے مشکلات پیدا ہوئیں ۔
آسام کے سرکاری مدارس کےخاتمہ کے بعد ان کے نشانے پر آسام کے خارجی مدارس اور مساجد ہیں، انہیں دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس سے قبل وہ مقامی اور غیر مقامی کے نام پر آسام کے مسلمانوں کو تقسیم کرچکے ہیں ۔حال ہی میں انہوں نے آسام کی مساجد میں دوسری ریاست سے آنے والے ائمہ کےلیے پولیس سے تصدیق کو لازمی قرار دیا ہے۔حکومت کے فیصلےکے عوامل اور عواقب پر ابھی غور ہی کیا جارہا تھا کہ بسوا سرما کی قیادت والی حکومت کے ایک اور فیصلے سے لاکھوں افراد کی زندگی متاثر ہوگئی ہے۔ آسام کی حکومت نے راشن کارڈ کو آدھار کے ساتھ لنک کرنے کو لازمی قرار دیا ہے۔ملک کی دوسری ریاستوں میں 90فیصد سے زاید شہریوں کے پاس راشن کارڈز ہیں مگر آسام کی صورت حال ملک کی دوسری ریاستوں کے مقابلے میں مختلف ہے۔آسام میں حکومت نے 2017 میں آدھار رجسٹریشن کو روک دیا،اس وقت تک آسام میں صرف 7فیصد شہریوں کے پاس راشن کارڈز تھے۔روکنے کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ اس وقت این آر سی کے اپ ڈیٹ کا کام چل رہا ہے اس لیے آدھار کارڈنہیں بنائے جا سکتے بلکہ این آرسی کی تکمیل کے بعد ہی آدھار کارڈ بنائے جاسکتے ہیں۔31اگست 2019کواین آر سی کی فائنل رپورٹ شائع ہوئی ۔اس کے ایک سال بعد جون 2020 میں آسام میں آدھار رجسٹریشن دوبارہ شروع کیا گیا۔لاکھوں افراد جن کے نام این آر سی میں نہیں تھے وہ اب آدھار کارڈ کے مستحق نہیں تھے۔مگر جن لوگوں کے نام این آر سی میں شامل ہوئے وہ بھی آدھار کارڈ سے محروم ہیں کیوں کہ این آر سی کے عمل کے دوران جمع کیے گئے 27 لاکھ سے زیادہ لوگوں کے بائیو میٹرک ڈیٹا منجمد کردیے گئے ہیں۔چناں چہ ایسے لوگوں کےلیے آدھارکارڈ بنانا اب مشکل ہے۔
آسام حکومت کے فوڈ سول سپلائی اور کنزیومر افیئر محکمہ کے ڈائریکٹر انکور بھرالی کہتے ہیں کہ 15لاکھ افراد کے راشن کارڈ آدھار کارڈ سےلنک نہیں کیے گئے ہیں ۔تاہم انہوں نے اس رپورٹ کی تردید کی کہ اس کی وجہ سے ان لوگوں کو راشن سے محروم کیا گیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ریاستی حکومت نے ضلع کمشنروں کوہدایت دی ہے کہ این آر سی کی وجہ سے جن کے آدھارکارڈ نہیں ہے ان کے راشن نہیں روکے جائیں گے ۔اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ اس پورے معاملے میں حکومت کا رویہ لچکدار ہے۔
حکومت کے دعوؤں کے برعکس زیریں آسام کے اضلاع بونگائیگاؤں، بارپیٹا اور بکسا کے متعدد علاقوں کے راشن ڈیلروں نے کہا کہ وہ حکومت کے دباؤ کے نتیجے میں ایسے افراد جن کے راشن کارڈ آدھارکارڈ سے مربوط نہیں ہیں انہیں راشن دینا بند کردیا گیاہے۔انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کےمطابق بونگائیگاؤں میں مقیم ایک ڈیلر نے کہا کہ انتظامیہ کے دباؤ کی وجہ سے ہم نے راشن دینا بند کردیا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ لوگ آدھار کو جان بوجھ کر مربوط نہیں کرتے ہیں، اس لیے ہمیں راشن فراہم کرنا بند کرنا پڑا ہے۔اسی طرح بارپیٹا کے ایک ڈیلر نے کہا کہ اپریل سے ہی انہوں نے ان لوگوں کو راشن دینا بند کر دیا ہے جن کے راشن کارڈ آدھار کے ساتھ مربوط نہیں ہے۔
آسام میں این آر سی کی تکمیل ایک طویل پریکٹس کےبعد مکمل ہوئی ہے، این آر سی میں نام شامل کرانے کے لیے لاکھوں افراد کو سخت مشکلات سے گزرنا پڑا ہے، دفاتر کی خاک چھاننی پڑی ہے۔جولائی2018کواین آر سی کا پہلا مسودہ شائع ہوا جس میں 40 لاکھ شہریوں کے نام شامل نہیں تھے ۔تاہم جن کے نام نہیں آئے انہیں دوبارہ کاغذات داخل کرنے اور این آر سی کا حصہ بننے کےلیے موقع دیا ہے۔اس عمل کے دوران، ان کا بایومیٹرک ڈیٹا بھی ریاستی این آر سی انتظامیہ نے اکٹھا کیا۔این آر سی کرنے والی انتظامیہ کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ایک مرتبہ جب این آرسی کی حتمی رپورٹ شائع ہوجائے گی تو اس کے بعد جن لوگوں کے نام این آر سی میں شامل ہیں انہیں ملک کے دیگر شہریوں کی طرح آدھار کارڈ بنانے کا حق حاصل ہوجائے گا۔
مگر این آر سی میں 19لاکھ افراد کے نام شامل نہیں ہیں ، انہیں باہر کردیا تھا ان کی بائیو میٹرک تفصیلات ابھی تک منجمد ہیں مگر جن لوگوں کے نام این آر سی میں شامل ہوگئے ہیں ان کے بھی بائیو میٹرک تفصیلات ابھی تک منجمد ہیں، اس وجہ سے کہ یہ پورا معاملہ اس وقت سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ۔عدالت اس سوال پر غور کررہی ہے کہ آیا آدھارکارڈ 27.4لاکھ افراد کو جن کے بائیو میٹرک تفصیلات منجمد ہیں جاری کیے جائیں یا نہیں۔ عدالت نے مرکز، آسام حکومت، رجسٹرار جنرل آف انڈیا اور یونیک آئیڈینٹی فکیشن اتھارٹی آف انڈیا کو نوٹس جاری کیا ہے۔اب سب لوگوں کی نگاہیں سپریم کورٹ کی طرف مرکوز ہیں۔مگر اس درمیان سب سے بڑاسوال یہ ہے کہ 15لاکھ افراد کا کیا ہوگا۔ان میں لاکھوں ایسے افراد ہیں جن کے گھر مفت راشن سے چولہے جلتے تھے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  04 ستمبر تا 10 ستمبر 2022