فوجی عدالت نے کشمیر میں فرضی مقابلے میں تین کشمیریوں کو ہلاک کرنے والے افسر کو عمر قید کی سزا سنانے کی سفارش دی
نئی دہلی، مارچ 6: ایک فوجی عدالت نے شوپیاں ضلع میں مبینہ طور پر فرضی فائرنگ کے مقابلے سے متعلق ایک معاملے میں ایک افسر کو عمر قید کی سزا کی سفارش کی ہے، جس میں تین کشمیری نوجوان مارے گئے تھے۔
فوجی افسر کیپٹن بھوپیندر سنگھ کا کورٹ مارشل بھی کیا گیا، جب کورٹ آف انکوائری نے پایا کہ فوج کے اہلکاروں نے اس کیس میں آرمڈ فورسز (خصوصی اختیارات) ایکٹ کے تحت انھیں حاصل اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔
پی ٹی آئی نے نامعلوم اہلکاروں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ عمر قید کی سفارش اعلیٰ فوجی حکام کی تصدیق سے مشروط ہے۔
تین کشمیری نوجوان، ابرار احمد، امتیاز احمد اور محمد ابرار کو 18 جولائی 2020 کو عسکریت پسند ہونے کے شبہ میں ایک مبینہ فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ نے دعویٰ کیا تھا کہ ہلاک ہونے والے تینوں نوجون مزدور تھے۔
9 اگست 2020 کو تینوں افراد کے اہل خانہ نے پولیس میں گمشدگی کی شکایت درج کرائی تھی۔ اس کے بعد فوج نے اس معاملے کی باقاعدہ انکوائری شروع کر دی۔
انکوائری شروع کیے جانے کے ایک ماہ بعد فوج نے کہا تھا کہ اسے ’’واضح ثبوت‘‘ ملے ہیں کہ اس کے اہلکاروں نے انکاؤنٹر کے دوران آرمڈ فورسز (خصوصی اختیارات) ایکٹ کے تحت دیے گئے اختیارات کا غلط استعمال کیا تھا۔ اس میں مزید کہا گیا تھا کہ ان کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت تادیبی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔
بعد ازاں جموں و کشمیر پولیس نے بھی اس معاملے کی تحقیقات شروع کر دی تھی۔ جنوری 2021 میں پولیس نے اپنی چارج شیٹ میں کہا کہ کیپٹن سنگھ نے کیس میں ثبوت کو ختم کرنے کی کوشش بھی کی۔
پولیس کی تفتیش میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ تینوں مقتولین مزدور تھے اور ان کا عسکریت پسندی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پولیس نے یہ بھی الزام لگایا کہ مسلح تصادم کے دوران پکڑا گیا اسلحہ تینوں افراد کی لاشوں کے ساتھ منصوبہ بندی کے ساتھ رکھا گیا تھا۔
پیر کو فوجی عدالت کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے سنگھ کو سنائی گئی سزا کا خیر مقدم کیا۔
مفتی نے ٹویٹر پر کہا ’’امشی پورہ فرضی انکاؤنٹر میں ملوث کیپٹن کو عمر قید کی سزا کی تجویز ایسے معاملات میں جواب دہی پیدا کرنے کی طرف ایک خوش آئند قدم ہے۔ امید ہے کہ لاوا پورہ اور حیدر پورہ مقابلوں کی بھی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا حکم دیا جائے گا تاکہ اس طرح کے خوف ناک واقعات کی تکرار کو روکا جا سکے۔‘‘