الہ آباد ہائی کورٹ نے متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد کو ہندوؤں کے حوالے کرنے کی درخواست بحال کی

نئی دہلی، مارچ 14: بار اینڈ بنچ کی خبر کے مطابق الہ آباد ہائی کورٹ نے اتر پردیش کے متھرا شہر میں شری کرشنا مندر کمپلیکس کے ساتھ واقع شاہی عیدگاہ مسجد کو ہندوؤں کے ذریعہ چلائے جانے والے ٹرسٹ کے حوالے کرنے کے لیے حکام کو ہدایت دینے کا مطالبہ کرنے والی درخواست کو بحال کر دیا ہے۔

یہ درخواست قبل ازیں گزشتہ سال 19 جنوری کو خارج کر دی گئی تھی، کیوں کہ درخواست گزار وکیل کے بغیر عدالت میں پیش ہوا تھا۔

سری کرشنا جنم بھومی مکتی آندولن سمیتی نے اپنی درخواست میں دعویٰ کیا ہے کہ مغل بادشاہ اورنگ زیب نے 1669 میں ہندو دیوتا کرشنا کے مندر کو توڑنے کے بعد یہ مسجد بنائی تھی۔

درخواست میں عدالت سے ہدایت طلب کی گئی ہے کہ کرشنا کی جائے پیدائش پر مندر بنانے کے لیے بنائے گئے ٹرسٹ کے تحت مسجد کی زمین ہندوؤں کے حوالے کی جائے۔

الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس راجیش بندل اور جسٹس پرکاش پاڈیا کی بنچ نے اب اصل عرضی کو بحال کر دیا ہے۔ معاملے کی اگلی سماعت 25 جولائی کو ہوگی۔

شری کرشنا جنم بھومی مکتی آندولن سمیتی نے یہ عرضی دائر کی ہے، اس کے باوجود کہ عبادت گاہوں کا (خصوصی دفعات) ایکٹ 1991 تمام مذہبی ڈھانچوں کی حفاظت کرتا ہے جیسا کہ وہ آزادی کے وقت موجود تھے، سوائے ایودھیا مسجد کے۔ قانون کے تحت مسجد کی جگہ مندر یا مندر کی جگہ مسجد نہیں بنائی جاسکتی۔

تاہم 9 نومبر 2019 کو ایک تاریخی فیصلے میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ ایودھیا میں جس پلاٹ پر بابری مسجد کھڑی تھی اسے رام مندر کی تعمیر کے لیے حکومت کے زیر انتظام ٹرسٹ کے حوالے کر دیا جائے گا۔ عدالت نے کہا کہ 1992 میں بابری مسجد کا انہدام ’’قانون کی حکمرانی کی سنگین خلاف ورزی‘‘ تھا اور حکومت کو ہدایت کی کہ وہ مسجد کی تعمیر کے لیے متبادل اراضی فراہم کرے۔