اکولا فرقہ وارانہ تشدد: پولیس نے مسلم ملزمان سے کہا کہ وہ ضمانت کے لیے ہندو ضامنوں کو لے کر آئیں، مسلم ملزمان کے وکیل کا دعویٰ

نئی دہلی، جون 20: مہاراشٹر کے اکولا میں پولیس نے گذشتہ ماہ کے فرقہ وارانہ تشدد میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار مسلم مردوں سے کہا ہے کہ وہ اپنی ضمانت کے لیے ہندو ضامنوں کو لے کرآئیں۔

مسلم افراد کے وکیل نے یہ دعویٰ کیاہے، تاہم ایک سینئر پولیس اہلکار نے اس دعوے کی تردید کی ہے۔

13 مئی کو دی کیرالہ اسٹوری کے بارے میں ایک سوشل میڈیا پوسٹ کے سلسلے میں اکولا میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تشدد پھوٹ پڑا تھا۔

تشدد میں ایک شخص ہلاک اور آٹھ زخمی ہوئے تھے۔

تشدد کے سلسلے میں 150 کے قریب مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ان میں سے کم از کم 26 کی نمائندگی کرنے والے ایڈوکیٹ ایم بدر نے کہا کہ تقریباً 90 فیصد مسلمان مردوں کو مقامی سیشن کورٹ سے اس شرط پر ضمانت ملی ہے کہ وہ ہر ہفتے دو گھنٹے کے لیے کرائم برانچ میں پیش ہوں۔

تاہم بدر نے کہا کہ جب یہ لوگ کرائم برانچ گئے تو پولیس نے زبانی طور پر ان سے کہا کہ ہر ملزم کے لیے علاحدہ ہندو ضامن لائیں۔

وکیل نے دی اسکرول کو بتایا ’’انھوں نے [پولیس] کہا کہ اس میں ناکامی پر، ملزم کو ایک احتیاطی اقدام کے طور پر دوبارہ گرفتار کیا جائے گا۔ ہم نے مقامی کرائم برانچ اور پولیس سپرنٹنڈنٹ کو تحریری گذارشات دی ہیں کہ یہ غیر آئینی ہے۔‘‘

بدر نے کہا کہ پولیس نے ایک ہندو ضامن لانے سے متعلق شرط تحریری طور پر دینے سے انکار کر دیا ’’لیکن انھوں نے مسلم ملزمان کو یہ کہہ کر ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے کہ وہ ایک ہندو ضامن لے کر آئیں۔ یہ غریب لوگ ہیں… پولیس بمبئی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف جا رہی ہے۔‘‘

17 جون کو ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس نے اکولا کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سندیپ گھُگے کو ایک میمورنڈم دیا تھا جس میں حکام سے کراس ضمانت کی شرط کو واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

تاہم گھُگے نے اسکرول کو بتایا کہ ’’ملزم مردوں کو ضمانت حاصل کرنے کے لیے ہندو ضامن لانے کی کوئی شرط نہیں ہے۔ یہ ایک افواہ ہے۔‘‘

پولیس سپرنٹنڈنٹ نے کہا کہ حکام ملزمان کی معاشی حالت کی بنیاد پر ضمانتیں مانگ رہے ہیں۔