!اکھلیش اور راہل ایک ہی کشتی میں سوار

کسانوں کے احتجاج کو روکنے کے لیے ہر ممکن طاقت کا استعمال

عرفان الٰہی ندوی

سیاسی مفادات کے حصول کے لیے گڑے مردے اکھاڑنے کی سیاست تیز
شمالی ہند میں موسم سرما آخری مرحلے میں ہے اور بسنت بہار کا موسم شروع ہو چکا ہے سیاسی ماحول بھی ہر روز بدل رہا ہے اقتدار کے پروانے نئے نئے آشیانوں کی تلاش میں نکل پڑے ہیں سیاسی جماعتوں میں شکست و ریخت کا عمل تیز تر ہو گیا ہے شمال کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں سماجوادی پارٹی کو بالآخر کانگریس کے ہاتھ کا ساتھ مل ہی گیا۔ کانگریس کے اندرونی ذرائع کے مطابق پارٹی کی ریاستی قیادت سماج وادی پارٹی کے بجائے بہوجن سماج پارٹی سے انتخابی مفاہمت کرنے کے حق میں تھی لیکن مایاوتی کی جانب سے دو ٹوک انکار کے بعد پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے سماج وادی پارٹی سے ڈیل پکی کر دی۔اس کے لیے کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی کو خود میدان میں اترنا پڑا۔ انہوں نے اکھلیش یادو سے بات کر کے معاملہ فائنل کر دیا ‌۔مدھیہ پردیش کے اسمبلی انتخابات کے دوران کمل ناتھ کے بیان اکھلیش وکھلیش سے بگڑی بات کا ہرجانہ کانگریس کو مدھیہ پردیش کی کھجوراہو پارلیمانی سیٹ سماج وادی پارٹی کو دے کر چکانا پڑا دونوں پارٹیوں نے آئندہ عام انتخابات میں این ڈی اے کا مقابلہ کرنے کے لیے انڈیا گٹھ بندھن کو مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب جلد ہی راہل کی نیاے یاترا میں اکھلیش اور راہل ایک ساتھ منچ پر نظر آسکتے ہیں ۔دلتوں کو رجھانے کے لیے آزاد سماج پارٹی کے لیڈر چندر شیکھر آزاد راون کے لیے ایک سیٹ چھوڑی گئی ہے جبکہ سماج وادی پارٹی 62 اور کانگریس 17 سیٹوں پر اپنے امیدوار اتارے گئے ۔
دلی اور دیگر ریاستوں میں عام آدمی پارٹی اور کانگریس میں بھی سیٹوں کا بٹوارا آخری مرحلے میں ہے ۔ چنڈی گڑھ میئر کے انتخاب میں پیش آئی دھاندلی کو سپریم کورٹ نے پلٹ دیا جس کے بعد دونوں پارٹیوں کے مشترکہ امیدوار کو جیت حاصل ہوئی۔ سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے نے جہاں جمہوریت کی لاج بچائی وہیں کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے درمیان انتخابی مفاہمت کی راہ بھی ہموار کر دی۔ انڈیا گٹھ بندھن کے لیے مغربی بنگال سے بھی اچھی خبر ہے۔ ذرائع کے مطابق ممتا دیدی کے تیور کچھ نرم پڑے ہیں اور بہت جلد مغربی بنگال میں دونوں پارٹیوں کے درمیان سیٹوں کا بٹوارا ہو سکتا ہے۔
تاہم کسانوں کا معاملہ ابھی بھی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ دارالحکومت دلی کے بارڈر پر گھیرا ڈالے کسان پنجاب اور ہریانہ کی سرحدوں پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ کسانوں نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے 21؍ فروری کو دلی کوچ کا اعلان کیا تھا لیکن پولیس کی ناکہ بندی نے انہیں آگے بڑھنے سے روک دیا۔ اس دوران کسان اور پولیس کے درمیان تصادم میں کئی کسانوں کے ساتھ پولیس اہلکار بھی زخمی ہو گئے۔ ایک نوجوان کے سر میں گولی لگنے کی بھی اطلاع ہے۔ سنیکت کسان مورچہ نے ہریانہ پولیس کو مورد الزام ٹھہرایا ہے تاہم، ہریانہ پولیس اسے افواہ بتا رہی ہے۔ کسانوں کی تحریک کو دبانے کے لیے حکومت نے جو سخت رویہ اختیار کیا ہوا ہے اس پر سوشل میڈیا پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ہریانہ پولیس کی کارروائی میں زخمی ہونے والے صحافی نیل بھالندر سنگھ نے ہریانہ پولیس کے عہدے داروں پر مقدمہ درج کرانے کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ ان کے مطابق احتجاجی تحریک کو کور کرنے کے دوران انہیں جو چوٹ لگی ہے اس کے لیے پولیس ذمہ دار ہے۔
اتر پردیش کی حکومت ایک بار پھر بڑے امتحانات کرانے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ پولیس بحالی کے امتحانات کو پرچہ لیک ہونے کی متعدد شکایتیں ملنے کے بعد رد کر دیا گیا ہے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے امتحانات رد کرنے کا اعلان کرتے ہوئے چھ مہینے کے اندر پھر سے امتحان کرانے کا یقین دلایا ہے۔ واضح رہے اس امتحان میں شامل ہزاروں امیدوار لکھنؤ میں جمع ہو کر امتحانات کو رد کرنے کا مطالبہ کر رہے تھےاس سے پہلے’ آر او اے آر او‘ میں بھی پرچہ لیک ہونے کی شکایت ملی تھی جس پر حکومت نے جانچ کے احکامات جاری کیے ہیں اتر پردیش میں مسلسل کئی امتحانات میں گڑبڑیوں اور پرچہ لیک ہونے کی شکایتیں سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا میں حکومت کی منشا پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔
کسانوں کی احتجاجی تحریک کے درمیان جے پور سے ایک دلچسپ خبر سامنے آئی ہے کہ آر ٹی ائی سے انکشاف ہوا ہے کہ فوڈ کارپوریشن آف انڈیا جے پور نے وزیر اعظم نریندر مودی کے فوٹو والے ایک کروڑ 74 لاکھ 5 ہزار168 تھیلے مفت میں راشن تقسیم کروانے کے لیے چھپوائے ہیں، ان کی چھپائی پر تقریبا 13 کروڑ روپے سے زیادہ کا خرچہ آیا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک صارف جی ایس ورما نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’ کون کہتا ہے کہ مودی جی جنتا یا دیس کے لیے کام کر رہے ہیں مودی جی صرف اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے اپنے اشتہاروں کے ذریعے اپنا چہرہ چمکانے کے لیے اور اپنے دوستوں کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘
اتراکھنڈ کے ضلع ہلدوانی میں فساد سے متاثر ہونے والے لوگوں کی مدد کرنا ایک حیدرآبادی نوجوان پر بھاری پڑ گیا۔ سوشل میڈیا میں وائرل ہونے والے ایک ویڈیو کے مطابق سلمان نام کا ایک حیدرآبادی نوجوان اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ فساد متاثرین میں نقدی بانٹ رہا تھا پولیس کو جب اس کی بھنک لگی تو پولیس ان نوجوانوں کو پوچھ تاچھ کے لیے تھانے لے گئی بعد میں سلمان نے ایک ویڈیو پیغام جاری کر کے بتایا کہ وہاں پر ماحول اچھا ہے پولیس والے اچھا کام کر رہےہیں۔ بزرگوں کی ایک کہاوت ہے نیکی کر دریا میں ڈال۔ اس پر کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ اگر حیدرآبادی نوجوان نے اس پر عمل کیا ہوتا تو کم سے کم تھانے جانے کی نوبت تو نہیں آتی۔
اسی درمیان دارالعلوم دیوبند کے شعبہ افتاء کی ویب سائٹ کا ایک پرانا فتوی موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ بچوں کے حقوق کا تحفظ کرنے والے ادارے این سی پی سی آر نے ضلع سہارنپور کی انتظامیہ کو غزوہ ہند سے متعلق ایک فتوے پر مقدمہ درج کرنے کی ہدایت دی ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے میڈیا میں اپنا موقف رکھتے ہوئے بتایا کہ 2009 میں ایک سوال کے جواب میں غزوہ ہند سے متعلق حدیث کا متن نقل کیا گیا تھا۔ ان کے مطابق ماضی میں سندھ کی فتوحات کی صورت میں غزوہ ہند ہو چکا ہے اس لیے جو لوگ غزوہ ہند کو مستقبل میں پیش آنے والے کسی غزوے سے منسوب کرتے ہیں وہ غلط اور بد نیتی پر مبنی ہے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق آئندہ عام انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے ماحول سازی کے لیے گڑے مردے اکھاڑے جا رہے ہیں، اسی کڑی میں جمیعت علماء ہند کے صدر مولانا محمود مدنی سے حلال سرٹیفیکیشن کے معاملے پر پوچھ تاچھ کی خبر سامنے آئی ہے۔ اسے بھی سیاسی محرکات سے جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے۔
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال، آئندہ ہفتے پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دلچسپ حال احوال کے ساتھ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر صلا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 3 مارچ تا 9 مارچ 2024