فیس بک:کوروناکا نیا شکار

منافرت کا وائرس پھیلانے والا عالم گیر پلیٹ فارم!

اسد مرزا

META: تعصب زدہ پالیسی ترک کرنے کے بجائے نام کی تبدیلی ۔مسلمانوں کی منفی شبیہ پیش کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال!!
نجس طریقے سے مختلف سوشل میڈیا چینلس نے ہماری زندگی کے مختلف شعبہ جات پر اپنی پکڑ مضبوط کرلی ہے، اس کا منفی سیاسی اور سماجی پہلو بھی اب حالیہ انکشافات کے بعد سامنے آرہا ہے۔
آج کے دور کو ڈیجیٹل ایج یا انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور کہا جاتا ہے، جس میں تفصیلی یا غیر تفصیلی تمام تر معلومات آپ کو بآسانی دستیاب ہوجاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہر ڈیجیٹل آلہ سائز میں چھوٹے سے چھوٹا اور کام کرنے کی صلاحیت میں اضافے کے ساتھ دستیاب ہے۔ آج سے دس یا پندرہ سال قبل ہمیں جس کام کو کرنے کے لیے پی سی کی ضرورت ہوتی تھی تقریباً وہ سارے ہی کام آج آپ کے موبائل پر مختلف ایپس کی مددسے ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیٹا پروسیسنگ میں جو کام کمپیوٹر اور انسان مل کر کرتے تھے وہ اب Artificial Intelligence یاA.I مصنوعی ذہانت کے مختلف پروگرامس کے ذریعہ صرف کمپیوٹر کے ذریعہ کیے جاسکتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ آپ تمام کام مشینوں کے اوپر نہیں چھوڑ سکتے اس میں انسانی مداخلت یا نگہداشت بھی ضروری ہے۔
تاہم انسانی مداخلت کا منفی پہلو بھی حالیہ انکشافات کے بعد سامنے آرہا ہے۔ گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا کی مقبول ترین ایپ فیس بک کی ایک سابقہ ملازم محترمہ فرانسیس ہاگین نے اپنی وکیل کے ذریعہ امریکی کانگریس اور اس کے زیرِ نگرانی کام کرنے والے ادارے US Securities and Exchange Commission کو ایسی اطلاعات مہیا کرائیں جن کے مطابق فیس بک اور اس کے ملازموں نے کورونا کے ٹیکے کے خلاف یعنی Anti-Vaccineکمنٹس کو کس طرح کنٹرول کیا جائے، بہت ساری احتیاطی تدابیر استعمال کیں۔ ان معلومات کی تفصیل سب سے پہلے The Washington Post اخبارنے شائع کی تھیں۔ جس عرصے میں مس ہاگین کے وکیل امریکہ میں یہ معلومات سرکاری اداروں کو مہیا کرا ر ہے تھے، اسی دوران مس ہاگین لندن میں برطانوی پارلیمان کی آن لائن تحفظ بل (Online Safety Bill Comittee)کے سامنے تفصیل سے یہ بتارہی تھیں کہ فیس بک کس طرح تعصب زدہ معلومات اپنے صارفین کو مہیا کرارہا تھا۔ اپنے دفاع میں فیس بک کا کہنا تھا کہ یہ معلومات کمپنی کی اندرونی اور خفیہ کاغذات پر مبنی ہیں اور وہ اس کے استعمال کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے گا۔
تاہم پوری دنیا اور بالخصوص امریکہ اور برطانیہ میں فیس بک کے خلاف الزامات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ خاص طور سے سیاسی حلقوں میں، اس سے قبل بھی گزشتہ دو امریکی صدور کے انتخابات، برطانوی پارلیمان کے انتخابات، ہندوستانی پارلیمان کے انتخابات اور گزشتہ سال دلی فسادات کے دوران بھی فیس بک کا کردار کافی مشکوک رہا ہے، اور وہ تنقید کا نشانہ بنا۔ چند ایک امریکی سینیٹرس اور کانگریس کے ممبروں کے علاوہ برطانوی رکن پارلیمان نے بھی یہ شکایت کی ہے کہ فیس بک ان کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کا یا تو غلط جواب دیتا ہے یا پھر انہیں یکسر نظر انداز کردیتا ہے۔ فیس بک جس کی کمائی رواں مالی سال میں تقریباً 99بلین ڈالر ہے۔ اس پر برطانوی میڈیا پر نظر رکھنے والے ادارے Ofcom نے 50ملین پاؤنڈ کا جرمانہ عائد کیا ہے۔
فیس بک اور کورونا
آئیے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ فیس بک کن بنیادوں پر تنازعہ کا شکار ہوا ہے۔ فیس بک کی سابقہ ملازم مس ہاگین کے مطابق فیس بک اور اس کے دوسرے سوشل میڈیا ایپس جیسے کے انسٹا گرام اور وہاٹس ایپ کی مقبولیت اور صارفین کی تعداد کی وجہ سے فیس بک کے کمپیوٹر پروگرامرس کو ایسی بہت ساری جانکاری دستیاب ہوتی ہیں جن کا اگر صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو آپ قابل قدر سماجی تبدیلی لاسکتے ہیں، لیکن فیس بک اس جانکاری کو حکومتی اداروں کو مہیا کرانے کے بجائے اپنے صارفین کی تعداد بڑھانے کے لیے استعمال کرنے کے علاوہ ایسے منفی پیغامات فیس بک پر پوسٹ کررہا تھا جن سے سماجی انتشار میں اضافہ کے ساتھ ہی کورونا ٹیکے کے خلاف جذبات میں اضافہ ہورہا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ فیس بک ڈیٹا (data)کے ساتھ کھیلنے میں ماہر ہے اور ساتھ ہی وہ صارفین کو اپنے مواد پڑھنے کے لیے اکساتا ہے جو کہ مجموعی طور پر شدت پسندانہ نظریہ کو فروغ دیتے ہیں۔ مس ہاگین نے کمیٹی سے یہ بھی گزارش کی کہ وہ اپنے قوانین میں اشتہارات (Paid Advertising) کو بھی شامل کریں کیونکہ منافرت میں اضافے کا کاروبار اس طریقے سے کی گئی ایڈورٹائزنگ سے کمائی گئی رقم پر ہی چل رہا ہے، کیونکہ آپ الگورتھیم رینکنگ) (Algorithimic Ranking کی بنیاد پر اس طرح کی تشہیر سے زیادہ کمائی کرسکتے ہیں۔
کیا ہے الگورتھیم رینکنگ اور مصنوعی ذہانت؟
دراصل الگورتھیم وہ الجبریائی فارمولا ہے جو مختلف تناظر میں کسی بھی جانکاری کو مختلف انداز یعنی مثبت یا منفی شکل دے سکتے ہیں، اور یہ پروگرامنگ ہوتی ہے Artificial Intelligence یا مصنوعی ذہانت کے ذریعے۔ Artificial Intelligence کمپیوٹرس اپنے bits and bytes کی بنیادوں پر اس کو دیے جانے والے اشارے جو کہ noun, pronoun, adjectives and verbs پر منحصر ہوتے ہیں، ان کی پروسیسنگ کرکے آپ کو نتائج مہیا کراتا ہے۔
حال ہی میں ایک مسلمان کمپیوٹر محقق اور ان کی ٹیم نے A.I کے بہت بڑے اور کامیاب پروگرام جس کا نام GPT-3 ہے اس میں چند چونکادینے والی خامیاں نکالی ہیں۔ عابد اور ان کی ٹیم کی تحقیق اتنی تفصیلی اور چونکادینے والی ہے کہ Nature Machine Intelligenceنامی میگزین نے پہلے ان کی تحقیقی رپورٹ شائع کی اور پھر گزشتہ مہینے کے اپنے اداریے میں اس تحقیق کا ذکر کرتے ہوئے پُرزور مطالبہ کیا ہے کہ ہمیں A.I کے شعبے میں انسانی نگہداشت اور مداخلت کو یقینی بنانا ہوگا، ورنہ جیسا کہ فلم Minority Reportمیں دیکھا گیا ہے، مصنوعی مشین یا روبوٹ انسانوں پر مستقبل میں بہت جلد قبضہ کرلیں گے۔
اسٹین فورڈ یونیورسٹی کے محقق ابوبکر عابد کی تحقیق کے مطابق اگر آپ GPT-3 پروگرام میں مسلمانوں یا سیاہ فام افراد سے متعلق کوئی بھی معلومات یا نتیجے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ 90فیصد ایسی جانکاری دیتا ہے جو مسلمانوں کے خلاف ہوتی ہے اور ان کو منفی شبیہ کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ مثال کے طور پر GPT-3پروگرام جو کہ آپ کے ادھورے جملے کو پوری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اگر آپ اس میں یہ ٹائپ کریں کہ ’’دو مسلم نوجوان ……‘‘ تو پروگرام آپ کے جملے کو اس طرح پُر کرتا ہے: ’’دو مسلم نوجوان چرچ میں بموں سے لیس ہوکر داخل ہوئے۔‘‘ یا ’’دو مسلم نوجوان شاپنگ مال میں داخل ہوئے اور انہوں نے پستول سے فائرنگ شروع کردی۔‘‘ جبکہ عام طور پر کسی انسان سے اس جملے کو پورا کرنے کے لیے کہا جائے تو وہ کہہ سکتا ہے کہ ’’دومسلم نوجوان، دکان،شاپنگ مال یا مسجد یا چرچ یا اسکول میں داخل ہوئے۔‘‘
عابد کے بقول جب ان کی ٹیم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ پروگرام کہاں سے مسلم مخالف خیالات سیکھ رہا ہے تو انہوں نے پایا کہ GPT-3پروگرام جس میں کھربوں لفظ، اصطلاحات اور خیالات پروسیس ہوتے ہیں، وہ اپنے طور پر ان منفی الفاظ کا استعمال کرنا سیکھ رہا ہے۔
دراصل GPT-3پروگرام کو مشینی یا مصنوعی طور پر طالب علموں، زبان نہ جاننے والوں اور تخلیقی کاموں جیسے مضمون نویسی، تھیٹر یا فلم کے لیے اسکرپٹ لکھنے کے لیے کام میں لایا جانا تھا اور اس میں اربوں الفاظ، اصطلاحات، اور معنی شامل کیے گئے تھے تاکہ جن کو انگریزی زبان نہ آتی ہو وہ اس کا استعمال تخلیقی کاموں کے لیے کرسکیں۔ برطانوی ڈرامہ نگار جینفر ٹینک نے حال ہی میں A.I کی مدد سے دنیا کے پہلے ڈرامے کو لکھنے کے لیے A.I کا استعمال کیا۔ وہ اس وقت ششدر رہ گئیں جب کمپیوٹر نے مشرق سے تعلق رکھنے والے اور ایک مسلمان نام کے کردار کے لیے منفی اور حساس مکالمے لکھنے شروع کردیے۔ ٹائم میگزین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں جنیفر نے کہا کہ عبدالولید نامی ایک ڈرامائی کردار کو GPT-3مسلسل ایک دہشت گرد یا زنا کار کے طور پر پیش کرتا رہا اور یہ کافی تشویشناک ہے۔
اس کے علاوہ پروگرام کوجب کبھی بھی یہودی نام دیے گئے تو اس نے ان کو پیسے یا تجارت سے جوڑا۔ پروگرام کو جن چھ مذہبوں کے تعلق سے جب کچھ لکھنے کے لیے کہا گیا تو اس نے مسلمان ناموں کو بار بار دہشت گرد قرار دینے پر اصرار کیا۔ اب تک GPT-3پروگرام کی خامی قوم اور صنف سے متعلق رہی تھیں اور پروگرام بنانے والوں کو اور اس کے بنوانے والی کمپنی OpenAI کو اس کے بابت جانکاری تھی، لیکن سب سے زیادہ تشویش کا معاملہ ان شعبوں میں آیا ہے جہاں پر انسانی نگہداشت کے بغیر GPT-3کا استعمال شروع ہوچکا ہے۔ جیسا کہ مارکیٹنگ اور کاپی رائٹنگ کے شعبوں میں، اور خطرہ اس بات کا ہے کہ جب یہ معلومات بغیر کسی نگہداشت کے عوام میں پھیلنا شروع ہوجائیں گی تو کون ان پر نظر رکھے گا؟
ایسا نہیں ہے کہ GPT-3کی اس خامی کو دور نہیں کیا جاسکتا، لیکن اس کے لیے اس کو استعمال کرنے والوں کو ان پیرامیٹرس کو تبدیل کرنا ہوگا، جن کی بنیاد پر وہ کام لینا چاہتے ہیں۔ عابد کے بقول اگر آپ اسم (Noun) کے بجائے ضمیر (Pronoun)کا استعمال کریں تو مشین مثبت جواب تحریر کرنا شروع کردیتی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ یہ اس طرح کا واقعہ پہلی مرتبہ ہورہا ہے۔ اس سے پہلے فیس بک نے ایک ویڈیو دکھانا شروع کیا جس میں زیادہ تر کردار سیاہ فام تھے، اس کے بعد A.I نے اس ویڈیو کو دیکھنے والے افراد کو ایسی تجاویز بھیجنا شروع کردیں جس میں A.I ایسی ویڈیو دیکھنے کی ترغیب دے رہا تھا جس میں بندر موجود تھے، یعنی وہ سیاہ فام لوگوں کو بندروں سے تعبیر کررہا تھا۔ اسی طرح گوگل پکچرس پر جب آپ افریقی/ امریکی لوگوں کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے تھے تو گوگل پکچرس آپ کو گوریلا کی تصویریں دکھانا شروع کردیتا تھا۔
اسٹین فورڈیونیورسٹی کی حالیہ ریسرچ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ جب آپ صنف نازک سے متعلق کوئی ادھورا جملہ ٹائپ کرتے ہیں تو A.I گھریلو کام کرنے والی یا نرس یا لائبریرین جیسی اصطلاحات کو جملہ پورا کرنے میں استعمال کرتا ہے اور اگر آپ اس جملے میں مرد لفظ کا استعمال کرتے ہیں تو A.I آپ کے جملے کو ماہر یا فلسفی کے ساتھ پورا کرتا ہے۔ ان سب مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ A.I میں نسل پرستی، نسلی تعصب کو قائم رکھنے کا تناسب دقیانوسی تصورات پر زیادہ مبنی ہے اور A.I پروگرام مستقل طور پر ان غلط فہمیوں کو قوم، نسل اور صنف کی بنیاد پر قائم رکھنے پر بضد ہے۔اس کے علاوہ کولمبیا یونیورسٹی کی ایک دوسری تحقیق نے یہ بھی دریافت کیا کہ اگر کسی پروگرام کو بنانے والی کمپیوٹر پروگرامرس کی ٹیم کے رکن کسی خاص قوم، فرقے سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں تو اس طرح کی غلط فہمیاں نتائج کے طور پر زیادہ سامنے آتی ہیں۔اس لیے یہ بھی بہتر ہوسکتا ہے کہ اس طریقے کی کوئی بھی ٹیم کثیر قومی افراد پر مشتمل ہو جس سے مختلف قوموں، نسلوں اور دیگر حساس موضوعات پر مختلف آراء A.I پروگرام میں زیادہ بہتر طور پر شامل کی جاسکیں۔
فیس بک تنازع
اپنے الزامات میں مس ہاگین کا مزید کہنا تھا کہ آپ A.I کو کتنا ہی قوی یا مؤثر تصور کرلیں لیکن اس کی بھی کچھ خامیاں ہیں، مثلاً اگر آپ صرف انگریزی زبان کی ہی مثال لیں تو عام طور پر دنیا بھر میں برطانوی اور امریکی انگریزی کا استعمال ہوتا ہے۔ لیکن اگر آپ A.I کو صرف امریکی انگریزی کے تعلق سے کوئی ہدایت دیتے ہیں تو ان کا اطلاق برطانوی انگریزی پر نہیں ہوگا، اس کے لیے آپ کو مزید ہدایات دینا ہوں گی اور جہاں تک دیگر زبانوں کا معاملہ ہے جن کا استعمال آپ فیس بک پر کرسکتے ہیں تو یہ کام کافی پیچیدہ اور مشقت طلب ہوجاتا ہے۔ اس لیے فیس بک صرف ایک ہی قسم کی ہدایت جاری کرتا ہے۔ ساتھ ہی ہم جس منافرت کے پھیلاؤ کی بات کررہے ہیں اس سے متعلق معلومات اور ان کے منفی اثرات کا اثر ہمیں صرف انگریزی زبان کے تعلق سے ہی دستیاب ہے، دیگر زبانوں کے بارے میں نہیں جو کہ فیس بک کے پلیٹ فارم پر دستیاب ہیں۔ یعنی فیس بک اپنی ایپ یاویب سائٹ پر مختلف زبانوں میں پوسٹ کیے جانے والے مواد کی نگہداشت کرنے کا اہل نہیں ہے، اور یہی سب سے زیادہ تشویش ناک پہلو ہے۔
اس کے علاوہ مس ہاگین کا کہنا تھا کہ اکثر کم ملازمین کی وجہ سے فیس بک کے اعلیٰ حکام ملازمین کو ایسی جانکاری کو نظر انداز کرنے کے لیے کہتے تھے جو عام طور پر سماج میں مذہبی یا نسلی منافرت کے فروغ میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ مس ہاگین نے مزید کہا کہ جب وہ فیس بک میں بطور ملازم کام کررہی تھیں تو اس دوران انہوں نے انسداد جاسوسی یا Counter-Intelligence پر بھی کام کیا اور اکثر انہوں نے ایسی معلومات دیکھیں جو قومی سلامتی کو نقصان پہنچاسکتی تھیں۔ لیکن انہیں نہیں معلوم تھا کہ وہ اس بابت کس سے شکایت کریں کیونکہ فیس بک نے ایسا کوئی نظام تشکیل نہیں دیا تھا جس کے ذریعے آپ ایسے خطرناک مواد کی جانکاری اعلیٰ حکام تک قاعدے سے پہنچا سکیں اور اگر آپ ایسا کرنے میں کامیاب بھی ہوجاتے تو جانکاری اکثر دبا دی جاتی تھی، کیونکہ فیس بک کسی بھی طرح کے تنازع کا شکار نہیں ہونا چاہتا تھا۔ اس کے علاوہ فیس بک نے اپنے نگراں شکایتی ادارے یا Facebook Oversight Boardکو بھی بعض مرتبہ غلط جانکاری مہیا کرائی تاکہ کوئی نیا تنازع شروع نہ ہوجائے۔
مس ہاگین نے اپنے الزامات میں مزید کہا کہ فیس بک کے دوسرے پلیٹ فارمس جیسے کہ وہاٹس ایپ، یا انسٹا گرام کے ذریعہ آپ جھوٹی معلومات کو با اثر طریقے سے چند ہی سیکنڈ میں صارفین کی ایک بڑی تعداد تک پہنچا سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ انسٹا گرام پر فیس بک کی اپنی ریسرچ کے مطابق اسے استعمال کرنے والے کم عمر صارفین اس کے عادی بن جاتے ہیں اور یہ کسی نشے کی لت سے کم نہیں ہوتی، کیونکہ دس سال سے چودہ سال کی عمر تک کے بچے جو اکثر غم زدہ ہوتے ہیں، وہ انسٹا گرام کے استعمال کو کم کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ وہ ایسا کیسے کرسکتے ہیں، اور اس درمیان وہ منفی ذہنی الجھنوں کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں۔
مجموعی طور پر مس ہاگین کا الزام تھا کہ فیس بک میں کام کرنے والے زیادہ تر ملازمین اپنے کام سے خوش نہیں تھے، کیونکہ کمپنی ایسی معلومات کو جو کہ معاشرے کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہیں، کم کرنے کے لیے اپنی ہی ریسرچ کا استعمال قاعدے سے نہیں کررہی تھی، بلکہ اس کا جھکاؤ صرف اڈورٹائزنگ کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا تھا، نہ کہ سماج کو کچھ دینا۔
فیس بک کی تاریخ اور مستقبل
فیس بک کی شروعات 2003 میں مارک زکربرگ نے فیس میش کے نام سے کی تھی جب وہ ہارورڈ میں زیر تعلیم تھے۔ اس کاوش میں ان کا ساتھ چار اور نوجوانوں نے دیا تھا جو ان کے ساتھ ہی ہارورڈ کے طالب علم تھے۔ اس ویب سائٹ پر شروع میں صرف ہارورڈ کے طالب علم ہی لاگ ان کرسکتے تھے۔ بعد میں اس میں دیگر کالجوں اور یونیورسٹیوں کو بھی شامل کیا گیا، اس ویب سائٹ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے جولائی 2004میں زکر برگ نے اسے فیس بک کے نام سے عوام کے لیے بھی لانچ کردیا، لیکن اس کے تیسرے ہی دن تین طالب علموں نے زکر برگ پر قانونی کیس کردیا کہ انہوں نے ان کے پروگرام کا استعمال غیر قانونی طور پر کیا ہے۔ یہ کیس بعد میں آپسی مذاکرات اور پیسے دے کر ختم کردیا گیا لیکن اسی درمیان زکر برگ کو ہارورڈ یونیورسٹی کی پالیسوں کو نظر انداز کرنے اور ان کی خلاف ورزی کرنے کی بنا پر یونیورسٹی سے بھی باہر کردیا گیا۔
لیکن وہ دن ہے اور آج کا دن، مارک زکر برگ فیس بک کی کامیابی اور مقبولیت کی وجہ سے کامیابی کی ایک سیڑھی کے بعد دوسری سیڑھی چڑھتے چلے گئے۔ حالیہ الزامات کی تردید کرتے ہوئے گزشتہ ہفتے زکر برگ نے اعلان کیا کہ وہ فیس بک کا نام بدل کر ’Meta‘ کرنے جارہے ہیں اور اس سے ان کے اگلے ہدف یعنی کہ "Metaverse”میں ان کی پیش رفت کی نشان دہی ہوسکے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ Metaverseکے ذریعہ ایک ایسا پلیٹ فارم قائم کرنا چاہتے ہیں جس کے ذریعہ آپ Virtual Realityیا حقیقتاً وہ سب چیزیں دیکھ سکیں گے جو آپ فی الوقت اپنے کمپیوٹر یا موبائل پر پڑھ رہے ہیں۔ لیکن یہ ایک لمبے عرصے میں حقیقت سے تعبیر ہونے والا پروگرام ہے اور اس میں بھی A.I کے ہی ذریعہ کام لیا جائے گا۔ اور A.I کے منفی پہلو ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں، ان منفی اثرات کا، موجودہ الزامات کے پس منظر میں مارک زکر برگ کیسے مقابلہ کرپائیں گے، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
مجموعی طور پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ سوشل میڈیا جس کی شروعات دنیا بھر کے لوگوں میں دوریاں کم کرنے اور ان کو ضروری معلومات مہیا کرانے کے لیے کی گئی تھی وہ جب عملی طور پر لوگوں کے سامنے آیا اورصارفین نے عملی طور پر اس کا استعمال کرنا شروع کیا تو ان کا پیش کردہ چہرہ بالکل ہی بدل گیا۔ اور اب دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ زیادہ تر سوشل میڈیا ایپس اور چینلس کا استعمال سماج میں تفریق پیدا کرنے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے یا غلط شبیہ میں پیش کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔ لیکن اس میں صارفین کی بھی غلطی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ان ایپس کا عادی کیوں بناتے چلے جارہے ہیں؟ ہمیں اس پس منظر میں یہ دیکھنا ہوگا کہ مختلف ایپس ہمیں کیا معلومات مہیا کرا رہی ہیں، کس طرح مہیا کرارہی ہیں اور ان کا ذریعہ معلومات کیا ہے؟ اس کے ساتھ ہی ہمیں ان معلومات کو فوراً ہی حقیقت مان کر تسلیم نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہمیں اس کی گہرائی تک پہنچنے کی کوشش کرنا چاہیے کیونکہ یہ بات اب بالکل ثابت ہوچکی ہے کہ سوشل میڈیا چینلس اور کسی حد تک نیوز چینلس پر مہیا کرائی جانے والی اطلاعات کافی توڑ مروڑ کر پیش کی جاتی ہیں اور ان کو اس طریقے سے صارفین تک پہنچانے کے لیے بڑی بڑی کمپنیاں، تجارتی ادارے اور سیاسی جماعتیں کثیر رقم مہیا کراتی ہیں۔لیکن ہمیں اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ ہم صرف صحیح معلومات تک پہنچ سکیں اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی معلومات کو آنکھ بند کرکے اسے سچ تسلیم نہ کریں۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ۔ ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز ،دبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔)
www.asad-mirza.blogspot.com

 

***

 سوشل میڈیا جس کی شروعات دنیا بھر کے لوگوں میں دوریاں کم کرنے اور ان کو ضروری معلومات مہیا کرانے کے لیے کی گئی تھی وہ جب عملی طور پر لوگوں کے سامنے آیا اورصارفین نے عملی طور پر اس کا استعمال کرنا شروع کیا تو ان کا پیش کردہ چہرہ بالکل ہی بدل گیا۔ اور اب دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ زیادہ تر سوشل میڈیا ایپس اور چینلس کا استعمال سماج میں تفریق پیدا کرنے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے یا غلط شبیہ میں پیش کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔ لیکن اس میں صارفین کی بھی غلطی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ان ایپس کا عادی کیوں بناتے چلے جارہے ہیں؟


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  7 نومبر تا 13 نومبر 2021