بلقیس بانو کیس کے مجرموں کی رہائی کے بعد بانو کے شوہر کا کہنا ہے کہ ان کا خاندان اپنی حفاظت کو لے کر پریشان ہے

نئی دہلی، اگست 17: دی انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق بلقیس بانو کے شوہر یعقوب رسول نے منگل کے روز کہا کہ وہ اور ان کے اہل خانہ اپنی بیوی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کرنے والے اور ان کی بیٹی کو قتل کرنے والے افراد کے گجرات کی جیل سے باہر آنے کے بعد اپنی حفاظت کے بارے میں فکر مند ہیں۔

بانو کے ساتھ 3 مارچ 2002 کو گجرات میں فسادات کے دوران اجتماعی عصمت دری کی گئی تھی۔ وہ اس وقت 19 سال کی تھیں اور حاملہ تھیں۔ احمد آباد کے قریب فسادیوں نے اس کی تین سالہ بیٹی سمیت اس کے خاندان کے چودہ افراد کو قتل کر دیا تھا۔ ان میں سے ایک نے لڑکی کو اس کی ماں کے بازو سے چھین لیا تھا اور اس کا سر پتھر پر دے مارا تھا۔

2002 کے فسادات میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے، جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔ بانو کا کیس بڑے پیمانے پر ہونے والے تشدد کی سب سے ہولناک اقساط میں سے ایک تھا۔

سوموار کو اجتماعی عصمت دری اور قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا پانے والے 11 افراد کو گودھرا قصبے کی جیل سے رہا کر دیا گیا، جب گجرات حکومت نے سزا میں معافی کے لیے ان کی درخواست منظور کر لی۔ رہا ہونے کے بعد ہاروں اور مٹھائیوں سے ان کا استقبال کیا گیا۔

رسول نے دی انڈین ایکسپریس کو بتایا ’’[2002 میں] جو کچھ ہوا وہ اتنا ہولناک تھا کہ کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا ہے کہ اس (بلقیس بانو) کے دماغ میں کیا گزر رہی ہوگی۔ اس پر ظلم کیا گیا لیکن اس نے اپنی بیٹی کے قتل کو دیکھا۔ وہ صرف ایک عورت کے طور پر ہی نہیں بلکہ ایک ماں اور ایک انسان کے طور پر بھی پامال ہوئی، اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے؟‘‘

رسول نے کہا کہ بلقیس بانو 11 مجرموں کی رہائی کے بعد پریشان، اداس اور کسی سے بات کرنے کے قابل نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہمارے پاس اس خبر پر کارروائی کرنے کا وقت بھی نہیں ہے اور ہم جانتے ہیں کہ وہ [مجرم] اپنے گھروں کو پہنچ چکے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ انھوں نے کبھی پیرول نہیں لیا۔ انھوں نے کئی بار لیا۔ لیکن ہمیں امید نہیں تھی کہ انھیں اس طرح رہا کر دیا جائے گا۔

دی وائر کی خبر کے مطابق رسول نے کہا کہ ان کا خاندان گجرات حکومت کے فیصلے سے غمزدہ ہے۔

انھوں نے دی وائر کو بتایا ’’اب ہم ڈرے ہوئے ہیں کہ کیا ہوگا۔ ہمیں یقین نہیں ہے کہ اب ہم کیا کریں گے کیوں کہ ہمیں لگتا ہے کہ کوئی امید نہیں ہے۔ اب ہمارے پاس کرنے کو کچھ نہیں بچا ہے۔‘‘

رسول نے مزید کہا کہ وہ اپنی پانچ بیٹوں کی تعلیم کے لیے گجرات حکومت کی طرف سے معاوضے کے طور پر دی گئی رقم کا استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن انھوں نے کہا کہ انتظامیہ نے 2019 میں سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق نوکری اور رہائش فراہم کرنے کے لیے ابھی تک کوئی انتظامات نہیں کیے ہیں۔

گجرات کے ایڈیشنل چیف سکریٹری (ہوم) راج کمار نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ حکومت نے مجرموں کی معافی کی درخواست پر غور کیا کیوں کہ انھوں نے 14 سال جیل میں گزارے ہیں اور ساتھ ہی دیگر عوامل جیسے ’’عمر، جرم کی نوعیت اور جیل میں ان کے سلوک‘‘ کو بھی بنیاد بنایا گیاہے۔

کمار نے وضاحت کی تھی کہ قانون کے مطابق عمر قید کا مطلب ہے کم از کم 14 سال قید کی سزا بھگتنا اور اس کے بعد مجرم معافی کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ حکومت اہلیت کے ساتھ ساتھ جیل ایڈوائزری کمیٹی اور ضلعی قانونی حکام کی سفارشات کی بنیاد پر قبل از وقت رہائی کا فیصلہ کرتی ہے۔

تاہم جون میں مرکز نے ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو اس عمل کی تفصیل دیتے ہوئے لکھا تھا، جس کے ذریعے قیدیوں کو خصوصی معافی کے لیے منتخب کیا جا سکتا ہے اور جس کے تحت انھیں یوم آزادی پر رہا کیا جاتا ہے۔

اس طرح کی خصوصی معافی دینے کے رہنما خطوط کی دفعہ 5 میں کہا گیا ہے کہ دیگر جرائم کے علاوہ عصمت دری کے مجرموں کو اس طرح کی چھوٹ نہیں دی جا سکتی۔ رہنما خطوط کے سیکشن 5 (ii) میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عمر قید کی سزا پانے والوں کو خصوصی معافی نہیں دی جانی چاہیے۔