عدلیہ کے پر کتر دیے گئے

اسرائیل خانہ جنگی کے دہانے پر، فلسطینی شدید خطرے میں

مسعود ابدالی

اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب میں مظاہرین جو قومی پرچم لہرارہے تھے اس پر حکومت کی شدت پسندی ظاہر کرنے کے لیے سرخ رنگ چھڑک دیا گیا۔اس پر ایک فلسطینی خاتون نے طنزیہ انداز میں کہا ’بھولے اسرائیلیو! رنگ چھڑکنے کی کیا ضرورت ہے، یہ پرچم تو ہزاروں فلسطینی بچوں کے لہو سے پہلے ہی سرخ ہے‘
اسرائیلی کنیسہ (پارلیمان) نے 24 جولائی کو عدالتوں کے اختیارات محدود کرنے کے سلسلے میں عدالتی اصلاحات (Judicial Overhaul) بل کا پہلا قانون صفر کے مقابلے میں چونسٹھ ووٹوں سے منظور کرلیا۔ حزب اختلاف کے چھپن ارکان نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا ۔ منظور شدہ بل کے مطابق عدالتوں کو حکومت اور وزارتی فیصلوں کی "معقولیت” کا جائزہ لینے کی اجازت نہیں ہوگی۔ قانون کی منظوری کے بعد ایک سال سے جاری احتجاج میں شدت آگئی ہے۔
دنیا بھر کے سیاستدانوں کی طرح اسرائیلی حکمرانوں کو بھی شکایت ہے کہ عدالتیں ان کے کاموں میں مداخلت کرتی ہیں۔ چنانچہ گزشتہ برس کے اختتام پر اقتدار سنبھالتے ہی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو المعروف بی بی کی قدامت پسند حکومت نے عدالتی اصلاحات کا مسودہ قانون (بل) کنیسہ میں پیش کر دیا۔ بنیادی طور پر اس بل کا مقصد کنیسہ سے منظور شدہ قوانین کو عدالتی جائزوں سے تحفظ اور قانون سازی و عوامی پالیسیوں پر عدلیہ کے اثر و رسوخ کو محدود کرنا ہے۔ اسی طرح عدالتی تقرریوں پر حکومت کے صوابدیدی اختیارات میں اضافہ ان اصلاحات کا حصہ ہے۔ عام اسرائیلی اسے عدلیہ کے پر کترنے کی کوشش قرار دے رے ہیں۔
مجوزہ بل کے قانون بن جانے کی صورت میں اسرائیلی عدالتِ عظمیٰ کے کسی بھی فیصلے کو کنیسہ واضح اکثریت، یعنی اکسٹھ ووٹوں سے غیر موثر کرسکتی ہے۔ اسی طرح ججوں کی تقرری کے لیے جوڈیشل کونسل کا فیصلہ محض سفارش ہو گا جس کی منظوری وزارت انصاف کرے گی اور اہم تقرری کے لیے کنیسہ سے منظوری لی جائے گی۔
عدالتی اصلاحات کا یہ قانون اسرائیلی قدامت پسندوں کی تزویزاتی (Strategic) حکمت عملی کا حصہ ہے۔ نتن یاہو المعروف بی بی کی قیادت میں حلف اٹھانے والی موجودہ حکومت، اسرائیلی تاریخ کی سب سے انتہا پسند انتظامیہ ہے۔ قوم پرست سیکیولر جماعت لیکوڈ، خوشنودیِ رب پارٹی (Noam) جماعت عزمِ یہود (Otzma Yehudit) دینِ صیہون پارٹی (Religious Zionism) پاسبانِ توریت (شاس) اور توریت پارٹی پر مشتمل اس اتحاد کو ایک سو بیس رکنی کنیسہ میں چونسٹھ ارکان کی حمایت حاصل ہے۔
شدت پسند حکومت کا ایک اور طرہ امتیاز یہ ہے کہ اس کے کئی رہنماوں پر بددیانتی اور قانون شکنی کے مقدمات چل رہے ہیں بلکہ ایک بڑی اتحادی جماعت کے سربراہ سزا یافتہ بھی ہیں۔ شاس پارٹی کے قائد اور توریت و تلمود کے عالم آریہ مخلوف درعی Aryeh Makhlouf Deri کو بے ایمانی، رشوت ستانی، ٹیکس فراڈ اور منتخب نمائندے کی حیثیت سے عوام کا اعتماد پامال کرنے کے الزام میں تین سال قید کی سزا ہوچکی ہے۔ یہ جرم 1999ء میں ثابت ہوا لیکن پارلیمانی استثنیٰ کی بناپر وہ جیل سے باہر ہیں۔
عزمِ یہود پارٹی کے قائد، چھیالیس سالہ اتامر بن گوئر Itamar Ben-Gvirکے خلاف جو وزیر قومی سلامتی یا پولیس منسٹر ہیں، نفرت انگیز تقریر (hate speech) کے الزام میں کئی بار پرچے کٹ چکے ہیں۔ انہوں نے سابق اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابن کو قتل کی دھمکی دی تھی جس کے ایک ہفتے بعد جناب رابن قتل کر دیے گئے۔
وزیر خزانہ اور دینِ صیہون جماعت کے سربراہ بیزلیل اسموترش Bezalel Smotrich پر اسرائیلی فوج نے الزام لگایا ہے کہ یہ عرب مہاجر کیمپوں میں اشتعال انگیزی کے ساتھ تخریب کاری میں مصروف ہیں۔ اسموترش بھی اشتعال انگیزی کے الزام میں زیرحراست رہ چکے ہیں۔
اور تو اور خود وزیر اعظم پر بدعنوانی اور مالی بے ضابطگی کا مقدمہ چل رہا ہے۔ وزارت عظمیٰ کے دوران انہوں نے استثنیٰ کے سہارے پیشیوں سے جان چھڑائی اور جب حکومت ختم ہو گئی تو کورونا کے نام پر عدالت کا سامنا کرتے سے کتراتے رہے حتیٰ کہ گزشتہ سال دسمبر میں وزارت عظمیٰ کے ساتھ انہیں استثنیٰ کی چھتری دوبارہ حاصل ہوگئی۔
اسرائیلی قدامت پسندوں کو اپنے نظریاتی ایجنڈے کی تکمیل میں عدالت کی جانب سے رکاوٹ کا سامنا ہے۔ مدارس کے طلبہ کے لیے لازمی فوجی تربیت سے استثنیٰ، دیوار گریہ کے اردگرد اختلاطِ مرد و زن، سرکاری اسپتالوں، پیر خانوں (old age facilities) کنیسہ کے ریستوران اور دوسرے عوامی مقامات پر کوشر (حلال) کھانے کی فراہمی یقینی بنانے جیسے کئی معاملات پر عدالت حکم امتناعی جاری کر کے رنگ میں بھنگ ڈال چکی ہے۔ فلسطینیوں کے معاملے میں دوسرے اداروں کی طرح اسرائیلی عدلیہ نے بھی آنکھیں بند کر رکھی ہیں لیکن حومش قبضہ بستی کو غیر قانونی قرار دینے پر اسرائیلی سپریم کورٹ 2005ء سے بہت مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے موقف پر قائم ہے۔
قومی و نظریاتی معاملات کے علاوہ برسر اقتدار سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی مقدمات کی زد میں ہیں چنانچہ عدالت کو قابو میں رکھنا بی بی اور ان کے رفقا کے لیے ضروری ہے۔ اشتراکِ اقتدار معاہدے کے تحت کنیسہ میں ایک قانونی ترمیم بھی پیش کی جانی ہے جس کے ذریعے جناب درعی کے استثنیٰ کو قانونی تحفظ فراہم کر دیا جائے گا۔ بی بی یہ بھی چاہتے ہیں کہ استثنیٰ کے تحفظ کو حاضر کے ساتھ سابقین تک توسیع دیدی جائے۔ قانون کے علما کو یقین ہے کہ اس قسم کے فرمائشی قوانین کو عدالت کالعدم قرار دے گی۔ اسی لیے پہلے مرحلے میں عدلیہ کے حکومت اور وزارتی فیصلوں کی ’’معقولیت‘‘ پر سوال اٹھانے کے حق کو معطل کر دیا گیا ہے۔
عدالتی اصلاحات کے بل پر احتجاج اس وقت سے جاری ہے جب اس کا ابتدائی مسودہ کابینہ نے اس سال جنوری میں منظور کیا تھا۔ ہنگاموں کی بناپر ستائیس مارچ کو بل پر بحث معطل کرکے حکومت نے اس میں ’مناسب‘ ترمیم کے لیے حزب اختلاف کو دعوت دی لیکن پانچ ماہ طویل مذاکرات کے باوجود دونوں فریق کسی ایک نکتے پر بھی متفق نہ ہوسکے۔ کنیسہ کی دونوں عرب جماعتوں، اخوانی نظریات کی حامل رعم اور لبرل و سیکیولر حداش مذاکرات میں شریک نہیں ہوئیں۔ عرب جماعتوں کا موقف تھا کہ اسرائیل کے عرب شہریوں کو عدلیہ سے انصاف کی کوئی امید نہیں، تاہم دونوں جماعتوں نے وعدہ کیا کہ ان کے دس ارکان رائے شماری کے دوران بی بی کے مجوزہ فسطائی عدالتی پیکیج کے خلاف ووٹ دیں گے۔ حزب اختلاف نے مذاکرات میں ناکامی کا ذمہ دار حکومتی وفد کی ’شدت پسندی‘ کو قرار دیا۔ مذاکرات نے نتیجہ ہونے پر وزیر انصاف نے بل پر بحث کا دوبارہ آغاز کیا اور گزشتہ ہفتے اس پیکیج کا پہلا قانون منظور کرلیا گیا۔
معقولیت پر سوال اٹھانے کے حق سے محروم ہوجانے کے باوجود چھبیس جولائی کو عدالتِ عظمیٰ نے اعلان کیا کہ بنچ اس قانون کی معقولیت پر داخل کی جانے والی کسی بھی درخواست کی سماعت کے لیے تیار ہے۔ عدلیہ کے اس عزم پر مشتعل ہوکر بی بی نے خبردار کیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ نے ’معقولیت‘ قانون کو کالعدم قرار دے دیا تو اسرائیل ’سرزمینِ بے آئین‘ بن جائے گا۔
قانون کی منظوری کے بعد حکومت مخالف مظاہروں کا دائرہ پورے ملک تک پھیل گیا ہے۔ دارالحکومت تل ابیب میں مظاہرین جو قومی پرچم لہرا رہے تھے اس پر حکومت کی شدت پسندی ظاہر کرنے کے لیے سرخ رنگ چھڑک دیا گیا۔ اس پر ایک فلسطینی خاتون نے طنزیہ انداز میں کہا ’بھولے اسرائیلیو! رنگ چھڑکنے کی کیا ضرورت ہے، یہ پرچم تو ہزاروں فلسطینی بچوں کے لہو سے پہلے ہی سرخ ہے‘
عام لوگوں کے ساتھ احتجاج کا دائرہ اسرائیلی فوج، خفیہ اداروں، ڈاکٹروں اور سائنسدانوں تک وسیع ہوگیا ہے اور حساس اداروں میں اس قانون کے خلاف بے چینی کے آثار نمایاں ہیں۔ فوج کے رکن محفوظہ یا reservists تربیت پر آنے سے انکار کر رہے ہیں۔ اسرائیل میں لازمی فوجی تربیت کا نظام رائج ہے اور ہر صحت مند شہری سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ بوقت ضرورت دفاع وطن کے لیے ہتھیار اٹھائے گا۔ محفوط دستے کے سپاہیوں نے مظاہرین سے اظہار یکجہتی اور تربیت سے انکار کی علامت کے طور پر تل ابیب کی مرکزی شاہراہ پر اپنے فوجی جوتے لٹکا دیے۔ رضاکار فوجیوں کی بڑی تعداد بھی احتجاجاً کام چھوڑ چکی ہے۔ دفاعی حکام نے اسرائیل کی جنگی تیاری خطرے میں پڑنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
اسرائیل کے جوہری سائنسدان بھی اب میدان میں ہیں اور اسرائیل کے خفیہ اداروں کے مطابق دس انتہائی سینئر جوہری سائنسدانوں نے عدالتی ترامیم منظوری کے خلاف مستعفی ہونے کی دھمکی دی ہے۔ وزارت تعلیم کے ڈائریکر جنرل آصف ظلال Asaf Tzalel یہ کہہ کر مستعفی ہوگئے کہ اب پڑھانے کو رہ ہی کیا گیا ہے۔ سرکاری جامعات کے بہت سے اساتذہ بھی مستعفی ہو رہے ہیں۔
اسرائیل کے عبرانی چینل 13 نے ستائیس جولائی کو رائے عامہ کا ایک جائزہ شائع کیا ہے جس کے مطابق اٹھائیس فیصد اسرائیلیوں نے ملک چھوڑنے کا عندیہ دیا ہے۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہا اگر عدالیہ کے کینسہ کے زیر نگیں آگئی تو جمہوریت اور قانون کی حکمرانی ختم ہوجائے گی۔ اس جائزے میں چوون فیصد اسرائیلیوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ بل نے فوج کو تقسیم کر دیا ہے جس سے ملکی سلامتی خطرے میں پڑسکتی ہے جبکہ چھپن فیصد اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ خانہ جنگی اسرائیل کے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔
دوسری طرف بی بی مصر ہیں کہ عدالتی اصلاحات سے جمہوریت مضبوط ہوگی۔ امریکی ٹیلی ویژن ABC سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم اسرائیلی جمہوریت میں انہیں اقدار و خصوصیات کی تجدید کر رہے ہیں جو تمام جمہوریتوں میں مشترک ہے۔ یعنی اکثریت کی مرضی اور اقلیت کے حقوق کے درمیان توازن، جس کے لیے مملکت کی تینوں شاخوں کے درمیان اعتدال ضروری ہے۔
قانون سازی اسرائیل کا اندرونی معاملہ ہے، لیکن انتہا پسند اسرائیلی حکومت کی جانب سے فلسطینی علاقوں میں تشدد کی آگ بھڑکا کر عوامی تحریک کا رخ موڑنے کی کوشش خارج از امکان نہیں۔ وزیر دفاع یوآوو گیلنٹ Yoav Gallant نے صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے حماس، ایران اور حزب اللہ کے خفیہ اجلاس کا شوشہ چھوڑ کر پیش بندی کا آغاز کر دیا ہے۔ اسی کے ساتھ لیکوڈ رکن کنیسہ نسم وطری Nissim Vaturi نے ایک نیا مسودہ قانون پیش کیا ہے جس کے تحت انتخابات کی ذمہ دار سنٹرل الیکشن کمیٹی (CEC) کے فیصلوں کو چیلینج نہیں کیا جا سکے گا۔ الیکشن کمیٹی کے ارکان کا انتخاب کنیسہ کرتی ہے۔ گزشتہ انتخابات میں CEC نے عرب جماعت البلد کی مملکت سے وفاداری مشکوک قرار دیتے ہوئے اسے انتخاب میں حصہ لینے سے روک دیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے کمیٹی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ بادی النظر میں نسیم وطری بل کا مقصد عرب جماعتوں کو انتخابات کے عمل سے باہر کرنا ہے۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***

 

***

 اسرائیل کے عبرانی چینل 13 نے ستائیس جولائی کو رائے عامہ کا ایک جائزہ شائع کیا ہے جس کے مطابق اٹھائیس فیصد اسرائیلیوں نے ملک چھوڑنے کا عندیہ دیا ہے۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہا اگر عدالیہ کے کینسہ کے زیر نگیں آگئی تو جمہوریت اور قانون کی حکمرانی ختم ہوجائے گی۔ اس جائزے میں چوون فیصد اسرائیلیوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ بل نے فوج کو تقسیم کر دیا ہے جس سے ملکی سلامتی خطرے میں پڑسکتی ہے جبکہ چھپن فیصد اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ خانہ جنگی اسرائیل کے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 اگست تا 12 اگست 2023