ادب، جعفر امیر اور کڈپہ

سر زمین کڈپہ سے وابستہ علم و ادب اور تنقید کا بے تاج بادشاہ

ڈاکٹر ظہیر دانش عمری، کڈپہ

جناب جعفر امیر مرحوم، کڈپہ کے شعرا اور ادباء میں نمایاں نام اور مقام رکھتے ہیں، انہوں نے شاعری اور تنقید کھل کر کی، خاص کر تنقید کے باب میں وہ ید طولیٰ رکھتے تھے۔ شہر کڈپہ بلکہ متحدہ آندھرا پردیش میں ان جیسا بے باک تنقید لکھنے والا شاید ہی کوئی نظر آئے۔ جعفر امیر مرحوم سے میرا پہلا شعوری معانقہ اس وقت ہوا تھا جب میں اپنا فارغ وقت حضرت یوسف صفی مرحوم کے یہاں گزارا کرتا تھا، یہ تب کی بات ہے جب میں نیا نیا جامعہ دارالسلام سے فارغ ہوکر آیا تھا، شہر کڈپہ کے ادیبوں اور شاعروں سے زیادہ واقفیت نہیں تھی، یوسف صفی مرحوم سے ملاقات کے لیے کڈپہ کے شعرا میں عام طور پر محمود شاہد، عقیل جامد، اقبال خسرو قادری اور جعفر امیر تشریف لایا کرتے تھے۔ گفتگو کے دوران دو ٹوک رائے پیش کرنے میں تینوں حضرات برابر تھے، بلکہ جعفر امیر ایک دو الفاظ میں کسی بھی شخص یا کتاب کے بارے میں اپنی رائے دیا کرتے تھے، مجھ جیسے ادب کے طالب علم کے لیے یہ بڑی انوکھی چیز تھی، لاگ لپیٹ کے بغیر دل کی بات زبان پر لانا اور پوری جرأت کے ساتھ بولنا جعفر امیر کا خاصہ رہا ہے ۔
جناب جعفر امیر 5؍ مئی 1939 کو شہر کڈپہ کے متوسط خاندان میں پیداہوئے، ان کا آبائی مکان حوض کے محلے میں تھا۔ والد نچلے درجے کے سرکاری ملازم تھے، ابتدائی تعلیم اور حرف شنائی ان کے والدین نے کروائی، گاؤں کے اسکول میں ان کا داخلہ کروایا گیا یہاں تک کہ ان کے والد کا تبادلہ کڈپہ ہوا تو یہاں حوض کے محلے میں قیا م پذیر ہوئے۔ جعفر امیر کو کتابوں کے مطالعے کا شوق اس وقت پیدا ہوا جب ان کے پھوپھا تاجر چرم عبدالعزیز کا انتقال ہوا اور ان کی کتابیں تلف کرنے کے لیے انہیں دی گئیں تو جو کتابیں مطالعے کے قابل تھیں یا صحیح حالت میں تھیں وہ ان کے پاس رہ گئیں۔ ان کتابوں میں عبدالحلیم شرر کی فردوس بریں اور مسلم ویلوری کی تاریخ اسلام، مسدس حالی، شکوہ جواب شکوہ، مولوی اور دلگداز کے ضخیم فائل۔ بھلا ہو ان کتابوں کا جن کی وجہ سے جعفر امیر کے اندر چھپا ہوا ناقد اور شاعر اردو دنیا کے سامنے ظاہر ہوا۔جعفر امیر اس شوق کے بارے میں کہتے ہیں کہ میرے پڑھنے کے اس شوق نے میری اردو کی نیو (بنیاد) کو مستحکم کیا اور میں دوسرے اسباق سے بھی نبرد آزما ہوتا چلا گیا۔
گزرگاہ خیال میں انہوں نے اپنی والدہ کے ساتھ جو گہرا تعلق تھا، محبت تھی، اس کا کھل کر ذکر کیا ہے کہ کس طرح والدہ انہیں تازہ دودھ پلاتی تھیں، کس طرح انہیں بکرے کا سالم بھیجہ کھلایا کرتی تھیں وغیرہ۔ ایک طرف یہ محبت اور دوسری طرف محبت کا یہ انداز بھی دیکھیے کہ ان کے پیٹ میں ٹیومر تھا۔ ان پر ذیابطیس کا حملہ ہوا۔ یہ تمام تکالیف ان کی والدہ سہہ لیتی تھیں کہ کہیں بچے دیکھ کر پریشان نہ ہوجائیں۔
اپنے تحریری سفر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بی اے میں داخلہ کے بعد انہوں نے سب سے پہلا مضمون جس کا ترجمہ کیا اس کا نام تھا اولڈ علی جسے زکی صاحب نے تبدیل کرکے بوڑھا علی کردیا۔ بہرحال آپ کے سوانحی حالات تفصیل کے ساتھ گزرگاہ خیال میں ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔
جعفر امیر کی دس کے قریب تصنیفات و تراجم ہیں لیکن مجھے سب سے زیادہ پسند سخن گسترانہ بات ہے اس میں جو بے باکی اور فطری انداز ہے وہ کسی دوسری تصنیف میں نہیں۔ میں نے اس کتاب پر تبصرہ لکھتے ہوئے بھی اس کی جانب اشارہ کیاہے۔
اس مضمون میں جعفر امیر کی شہر کڈپہ سے محبت و الفت، کڈپہ کے شاعروں سے لگاؤ کو بیان کرنا مقصود ہے۔
کڈپہ کو اگر مجسم دیکھنا ہے تو آپ جعفر امیر کی ذات کو دیکھ لیجیے، وہی سادگی وہی بے باکی، وہی محبت ان کے دل میں ملے گی جو کڈپہ والوں کا خاصہ ہے، جعفر امیر کے انگ انگ میں کڈپہ بستا ہے، جعفر امیر کی یادوں میں کڈپہ کی زندہ تصویریں آج بھی چلتی پھرتی نظر آتی ہیں۔ دوران مطالعہ کتابوں کے اخیر میں وہ اپنے تاثرات لکھ لیا کرتے تھے،اس کا ذکر یوں کرتے ہیں کہ :
’’خواجہ احمد عباس، ہفتہ وار بلٹز انگریزی پرچہ کا آخری صفحہ لکھتے رہے ہیں، مضمون بڑا دلچسپ اور تیکھا ہوتاتھا، میں نے انہیں کی نقل کی اور ہر کتاب جو میرے مطالعے میں آتی اس کے آخری صفحہ پر اپنے تاثرات لکھ دیا کرتا رہا ہوں ‘‘
(سخن گسترانہ بات،ص:۱۲)
کہیں ہم نہ بھول جائیں کے عنوان سے انہوں نے شہر کڈپہ کی تہذیب اور شعراکی محفلوں کی تصویر کشی کی ہے بڑی جاذب نظر اور عمدہ تصویر ہے، اسے پڑھتے ہوئے یوں لگتاہے جیسے ہم اسی قدیم کڈپہ میں آگئے ہیں جہاں حضرت سید درویش قادری بچوں کو اردو پڑھارہے ہیں، ادب کی تعلیم دے رہے ہیں، مشاعرے کروارہے ہیں۔ جناب بہاء الدین صاحب روحی میلاد کے مشاعرے کی صدارت کررہے ہیں، جناب جلال کڈپوی کی نعت وہ آمنہ کا لخت جگر کیا سے کیا ہوا، ہر گھر بلکہ گھر گھر میں گونج رہی ہے، آستانہ مخدوم الٰہی میں تاریخی مشاعرے منعقد ہو رہے ہیں جن میں اعجازصدیقی، ہلال کڈپوی تشریف لا رہے ہیں اور اپنے کلام بلاغت نظام سے نواز رہے ہیں۔ مسلم ہائی اسکول کے مشاعرے ہو رہے ہیں جن میں عبدالوہاب بخاری، معین نظامی شرکت کرتے ہیں اور عمدہ کلام سے نوازتے ہیں۔
حضرت برق کڈپوی کی وہ تصویر بھی اس میں پیش ہوئی جس میں رنگ ریزی اس طرح کرتے ہیں:
’’وہ مشاعروں میں نعت بھی سناتے اور غزل بھی، بہت ہی خلیق، خندہ جبین اور مرنجان مرنج شخص تھے، جہاں شاعری میں نام کمایا وہیں ابدی سکونت کا انتظام بھی کرلیا۔ لڑکیوں کو گھر گھر جاکر عربی کا درس دیا کرتے تھے اور اس راستے ثواب کمایا کرتے تھے‘‘(ایضاً،۲۷)
جعفر امیر کڈپہ میں اردو شاعری، اردو ادب کا جو ماحول ہے اسے حضرت درویش قادری زکی کی دین مانتے ہیں۔ تقریباً شعراء کڈپہ نے حضرت درویش قادری سے اپنے کلام کی اصلاح لی لیکن پتہ نہیں کیوں اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے وہ جھجکتے ہیں۔
حضرت زکی کا تقرر 1953 کو مقامی کالج میں ہوا، یہاں انہوں نے مختلف مشاعروں کے ذریعے ادبی فضا پیدانکرنے کی کوشش کی۔ اس زمانے میں کڈپہ کے ادبی ماحول کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شادیوں میں ناچ گانے کے بجائے تہنیتی مشاعرے اور ادبی محافل منعقد ہوا کرتی تھیں۔ جعفر امیر نے حضرت زکی کی علمی ادبی کاوشوں کو بہت سراہا اور انہی کی بدولت شہر کڈپہ کے مشاعروں میں اعجاز صدیقی، شکیل بدایونی، حسرت جے پوری، خمار بارہ بنکوی، مینا قاضی، طرفہ قریشی، ارشد صدیقی، مخدوم محی الدین، اوج یعقوبی، خواجہ شوق، دانش فرازی، عبدالوہاب بخاری، سلیمان اطہر جاوید وغیرہ شہر کڈپہ تشریف لائے اور یہاں کی محفلوں کو رونق بخشی۔ اسی مضمون میں وہ بزم زکی اور اس کے زیر اہتمام منعقد کی گئی ایک کانفرس کا بھی تذکرہ کرتے ہیں جس میں راج بہادر گوڈ، شاہد صدیقی اور عابد علی خان نے شرکت کی تھی۔ اردو کانفرس کے بعد یہاں غالب صدی بھی تزک و احتشام کے ساتھ منعقد کی گئی جس میں مینا قاضی اور کیفی اعظمی مدعو رہے ہیں۔
کڈپہ کے جن شعرا کے کلام پر آپ نے تنقید کی ہے ان میں پروفیسر انوراللہ انور، ساغر جیدی، عقیل جامد، مولانا راہی فدائی، یوسف صفی، نازش کڈپوی، اقبال خسرو قادری، محمود شاہد، برق کڈپوی اور حبیب احمد ساجد قابل ذکر ہیں۔
اک لوہار جب لوہے کو کوئی خوب صورت شکل دینا چاہتا ہے، مڑے تڑے لوہے کو سیدھا کرنا، اس میں چمک اور نکھار پیدا کرنا اس کا مقصد ہوا کرتا ہے تو وہ بار بار لوہے کو پیٹتا ہے لہٰذا لوہے پر ضربیں لگانے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ اس لوہے کا دشمن ہے بلکہ وہ لوہے کا دوست ہے اور اسے حسین روپ دینا چاہتا ہے۔ یہی کا م جعفر امیر نے کڈپہ کے شعراء کے ساتھ کیا، جعفر امیر کی تنقیدی ضرب راہی فدائی، حبیب احمد ساجد، ساغر جیدی پر پڑتی ہے اور ان کے یہاں جو اسقام ہیں انہیں وا کرتی ہے۔
چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
ساغر جیدی کی رباعیات پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
’’اس مجموعۂ رباعیات میں شامل شاعری پوری کی پوری بے ربط بے معنی مہمل الفاظ کو کسی فیکٹری میں ڈھال کر شعر کا روپ اور جسم دے دیا گیا ہے، البتہ روح سے عاری ہے‘‘
ڈاکٹر راہی فدائی کی کلیات فبہا پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
’’مولانا راہی تیس سال سے میرے شناسا ہیں، گو مجھ سے عمر میں چھوٹے ہیں، اب ان کے خاندان سے میرا رشتہ بھی منسلک ہے، یہ باتیں الگ زمرے میں آتی ہیں، اور شاعری پر گفت و شنید دوسرے زمرے میں۔ وہ عربی کے عالم ہیں اور فارسی میں اچھی دستگاہ ہے۔ علم عروض سے بھی واقفیت ہے۔ شاعری کے لیے عربیت فارسیت اور عروضیت سے کام چلے گا؟ آپ ان کا کلیات دیکھیے کسی بھی شعر میں آپ کو دل کی دھڑکن سنائی نہ دے گی، کسی بھی شعر میں آنسو کے ٹپکنے کی آہٹ نہ ہوگی، ہر غزل میں طنز کا طومار کہیں کہیں شکوہ شکایت بھی کہ شاید انہیں احساس ہوا کہ دنیا ان کی اتنی قدر و منزلت نہیں کرتی جس کے وہ اہل ہیں‘‘
(ایضاً،ص:۷۳)
حبیب احمد ساجد کی کتاب اسلوب پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
’’ایک بے ساختگی سی،ایک والہانہ پن یا ایک باغیانہ انداز یا کم از کم ایک ناصحانہ طرز شاعری میں کیفیت پیداکرنے کا حامل ہوتا ہے،فقط لفظ کی معنویت اور رعایت لفظی کی بے ساکھی سے شعر تو بن جاتا ہے مگر وہ بات پیدا نہیں ہوتی جس سے شاعری عبارت ہے‘‘
(ایضاً،ص:۹۷)
ان مثالوں سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ جعفر امیر صرف نقائص بیان کرتے تھے، جہاں انہیں خوبیاں نظر آتی ہیں ان کی دل کھول کر ستائش بھی کرتے ہیں، جیسے راہی فدائی کی کتاب کڈپہ میں اردو کی توصیف پر یوں بیان کرتے ہیں کہ:
’’بہر کیف راہی کی یہ تنقیدی اور تحقیقی کوشش لائق صد ستائش ہے،اللہ کرے کہ اہل قلم ان کے ادبی قد کی جیسی قدر کرنی ہے کریں‘‘(ایضاً،ص:۱۲۰)
محمود شاہد کی نثر کی توصیف میں یوں رطب اللسان ہیں کہ :
’’اب میرا مشورہ ہے کہ جم کر لکھو صرف نثر لکھو، آپ کی نثر میں ایک رمق نظر آتی ہے جس نے مجھے پوری کتاب پڑھنے پر آمادہ کیا، میری دعا ہے اللہ کرے زور قلم اور زیادہ‘‘
(ایضاً،ص:۱۲۶)
اقبال خسرو قادری کی سیمیا کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’خسرو نے کسی ایسے خیال کو نظم کرنے کے خیال ہی سے احتراز کیاہے جو کسی کے دماغ کا کبھی خیال بنا ہو‘‘
(ایضاً،ص:۹۴)
ان نمونوں سے جعفر امیر کا ربط شہر کڈپہ اور شعراء کڈپہ سے کتنا گہرا ہے یہ نہایت بہترین انداز سے معلوم ہوتا ہے۔
(مضمون نگار سے رابطہ :9701065617)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 فروری تا 2 مارچ 2024