زعیم الدین احمد، حیدرآباد
انسان جب دنیا میں آتا ہے اس کے دیگر انسانوں سے تعلقات قائم ہوجاتے ہیں۔ انسانی تعلقات سے مراد ایک ایسا نظم جو کسی ادارے یا تنظیم کو چلانے اور اس کو آگے بڑھانے کے لیے درکار ہے۔ اسی انسانی تعلقات کے نظریہ کو بعد میں انسانی وسائل کے تصور سے دیکھا جانے لگا۔ معاشرے کی تعمیر اور اس کی ترقی کے لیے اچھے انسانی تعلقات کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ انسانوں کے درمیان فطری تعلقات نہ ہونے کی صورت میں معاشرے کی تشکیل کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ انہی انسانی تعلقات کو معاشرہ کہا جاتا ہے۔ معاشرے کی حیثیت سے ہمارے ارتقا کے لیے انسانی تعلقات اہم ہیں کیوں کہ یہ معاشرے کی کسی بھی قسم کی تشکیل اور تنظیم کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ انسانوں کو زندہ رہنے کے لیے دوسروں کے تعاون کی ضرورت پڑتی ہے، اس کے بغیر انسانی وجود کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
انسانوں کے ان تعلقات کو بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلی قسم کے تعلقات جن کو بنیادی تعلقات بھی کہا جاتا ہے، اس کے والدین، بیوی بچے اور قریبی رشتے دار ہیں۔ یہ تعلقات فرد کے قریب ترین دائرے میں رہتے ہیں۔ دوسرے وہ تعلقات ہیں جو رشتے کی ضرورت و افادیت کے ذریعے طے پاتے ہیں جیسے اس کے پڑوسی سے تعلقات یا وہ تعلقات جہاں وہ کام کرتا ہے، یا کسی مریض کا طبیب سے تعلق رکھنا وغیرہ۔ اس کو دوسرے درجے کے تعلقات کہا جاتا ہے۔
انسانی تعلقات چاہے وہ والدین کے ساتھ ہوں یا دیگر رشتے داروں کے ساتھ، بیوی بچوں کے ساتھ ہوں یا بھائی بہنوں کے ساتھ، دوست احباب کے ساتھ ہوں یا پڑوسیوں کے ساتھ، کبھی ان کے اندر گرمجوشی ہوتی ہے اور کبھی سرد مہری ہو جاتی ہیں۔ کبھی کشیدگی پیدا ہو جاتی تو کبھی خوشگواری۔ انسانی تعلقات میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔ تعلقات اچھے ہوں تو معاشرے میں خوشحالی پروان چڑھتی ہے لیکن اگر تعلقات میں خرابی پیدا ہو جائے تو معاشرہ تباہی کی طرف بڑھنے لگتا ہے۔ تعلقات کو بہتر رکھنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے، وہ کیا اصول ہیں جنہیں اپنا کر تعلقات بہتر رکھے جاسکتے ہیں؟ آج ہم اس پر گفتگو کریں گے۔
تعلقات اچھے ہوں تو کوئی دقت پیش نہیں آتی لیکن جب ان میں خرابی پیدا ہوگی تو نت نئے مسائل جنم لیتے ہیں۔ جب انسانوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہوں گی، شکوک وشبہات جنم لیں گے، اندیشے پیدا ہوں گے تو انسانی زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔ بد قسمتی سے دور حاضر میں جیسے جیسے سماجی پیچیدگیاں بڑھ رہی ہیں ویسے ویسے انسانی تعلقات میں کشیدگی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ افراد کے درمیان خلیج گہری ہوتی جا رہی ہے، لیکن ان کشیدگیوں کو کم کرنے اور ان کے درمیان خلیج کو پاٹنے کے لیے چھوٹی چھوٹی تدبیروں کو کام میں لایا جا سکتا ہے۔
دراصل تعلقات کا اچھا ہونا تعلقات کی بنیادوں پر منحصر ہوتا ہے۔ اگر تعلقات کی بنیاد خالص مادہ پرستی پر ہو گی تو جیسے ہی مفاد پورا ہو گا تعلقات بھی ختم ہو جائیں گے، لیکن اگر ان کی بنیاد انسانیت پر ہو گی تو انہیں دائمی اور بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اگر تعلقات کی بنیادیں روحانیت، محبت و الفت پر مبنی ہوں گی تو وہ پائیدار ہوں گی۔
انسانی تعلقات اخوت و محبت کی بنیاد پر قائم رہتے ہیں، ایک دوسرے سے مودت تعلقات کی کلید ہیں، ایک دوسرے کے احترام سے اس میں پائیداری آتی ہے۔ تعلقات میں بگاڑ کی سب سے اہم وجہ ایک دوسرے کے تئیں احترام کا نہ ہونا، ایک دوسرے سے مودت کا نہ ہونا، اپنی ہی خواہشات کو مقدم رکھنا اور اپنے آپ کو دوسرے سے برتر سمجھنا ہے۔ ہمارے سماج میں تعلقات کی مختلف شکلیں ہیں، باپ کا اپنی اولاد سے تعلق، بھائی کا اپنے بھائیوں و بہنوں سے تعلق، دوست کا دوست سے تعلق، استاد کا اپنے شاگرد سے تعلق۔ باپ گھر کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے اپنا حکم چلانے کا خواہشمند ہوتا ہے، بڑا بھائی بڑا ہونے کی وجہ سے اپنی بات ہی منوانا چاہتا ہے، اولاد اپنی مرضی پر کام کرنا چاہتی ہے، ہر کوئی اپنی اپنی حیثیت میں اپنی بات منوانا چاہتا ہے اور یہیں سے تعلقات کے بگڑنے کی ابتدا ہوتی ہے۔ لیکن اگر ان رشتوں و تعلقات میں رحم و کرم کا معاملہ ہو گا تو ایک مثالی خاندان وجود میں آئے گا، ایک بہترین معاشرہ کی تشکیل ہو گی۔ جب آپس میں ایک دوسرے کے تئیں احترام کی کیفیت پیدا ہو گی تو ایک اچھے سماج کا وجود ممکن ہوگا۔
انسانی تعلقات میں بگاڑ کی سب سے پہلی وجہ بد زبانی ہے۔ زبان کی عدم حفاظت سے ہی انسانوں کے درمیان تعلقات میں دراڑیں پیدا ہوتی ہیں، دلوں میں نفرتیں جنم لیتی ہیں جس کے باعث گھر کا امن و سکون برباد ہو جاتا ہو۔ محبت و پیار کے رشتے منقطع ہوجاتے ہوں اور لڑائی جھگڑے بلکہ خون خرابہ تک کی نوبت آجاتی ہے۔ زبان کی حفاظت کی بڑی تاکید آئی ہے، زبان سب سے زیادہ ضرر رساں اور خطرناک ہے۔ لہٰذا اس کی حفاظت بہت ضروری ہے اور اس پر کنٹرول کرنے کے لیے بڑی کوشش و جدوجہد کی ضرورت ہے۔ بہت ساری احادیث زبان کی حفاظت کے سلسلے میں وارد ہوئیں ہیں، حضرت سفیان بن عبدﷲ سے مروی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ اللہ کے رسول سے عرض کیا، یا رسول اللہ، آپ میرے لیے سب سے خطر ناک اور نقصان دہ چیز کسے قرار دیتے ہیں؟ تو آپ نے اپنی زبان مبارک کو پکڑ کر ارشاد فرمایا، ’’ اسے‘‘ (ترمذی شریف) امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ ’’اے عزیز! معلوم ہونا چاہیے کہ زبان عجائبات الہٰی میں سے ہے، اگرچہ وہ گوشت کا ایک ٹکڑا ہے لیکن حقیقت میں جو کچھ موجود ہے وہ سب کچھ اس کے تصرف میں ہے، کیوں کہ وہ موجود و معدوم دونوں کو بیان کرتی ہے، زبان عقل کی نائب ہے اور عقل کے احاطے سے کوئی چیز باہر نہیں ہے اور جو کچھ عقل و وہم اور خیال میں آتا ہے، زبان اس کی تعبیر کرتی ہے۔ انسان کے کسی دوسرے عضو میں یہ صفت نہیں ہے۔‘‘ اس کا محفوظ استعمال ہی اچھے تعلقات کی ضمانت ہے۔
اللہ رب العزت نے انسان کو پیدا فرمایا اور اس میں خیر و شر کے جذبات بھی رکھ دیے تاکہ آزمائے کہ وہ اپنے کون سے جذبے کو استعمال میں لاتا ہے اور اس پر کتنا قابو پاتا ہے، ان جذبات میں ایک اہم جذبہ غصہ بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانوں میں غصہ کا ہونا ایک فطری امر ہے، اسی غصے کی وجہ سے اختلافات جنم لیتے ہیں اور زندگیاں اجیرن بن جاتی ہیں۔ شوہر بیوی کے درمیان کسی بات پر کبھی نزاع پیدا ہو جاتا ہے تو ان پر غصہ حاوی ہو جاتا ہے، دونوں ایک چھوٹی سی بات پر دن بھر غصے کو اپنے دماغ میں ڈھوتے پھرتے ہیں، جب کہ ان کے درمیان اچھے اور پرمسرت لمحات، اچھے وخوبصورت واقعات زیادہ گزرے ہوتے ہیں، لیکن غصہ ان تمام لمحات کو ان کے ذہنوں سے کچھ دیر کے لیے اوجھل کر دیتا ہے، جب کہ غصے پر قابو پانے والے ہی اصل میں بہادر ہوتے ہیں اور ایسے لوگ ہی اللہ کو پسند ہیں۔ قرآن میں اللہ فرماتا ہے کہ "جو غصے کو پی جانے والے ہیں اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے” پسندیدہ چیز اللہ کے نزدیک غصے کو پی جانا ہے۔ مثبت انداز سے اس پر قابو پایا جا سکتا ہے، مثال کے طور پر شوہر بیوی کے درمیان گزرے حسین لمحات کو یاد کرکے نزاع کو آسانی سے ختم کیا جا سکتا ہے، غصے کی وجہ بننے والے واقعہ کو چھوڑ کر ان کے درمیان گزرے ہوئے خوشگوار یادوں کے ذریعے غصے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ غصہ ایک شیطانی عمل ہے جو دلوں میں دراڑیں ڈالتا ہے، رنجشوں کو بڑھاتا ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ غصہ کے عالم میں اگر کھڑے ہوں تو بیٹھ جائیں، پانی پی لیا جائے تاکہ غصے کی آگ ٹھنڈی ہو جائے۔ آپ یہ عمل کر کے دیکھیں جب کبھی کسی بات پر نزاع ہو جائے تو گفتگو میں کچھ وقفہ دیجیے یا اس جگہ سے کچھ دیر کے لیے ہٹ جائیے، آپ دیکھیں گے کہ غصہ کم ہو جائے گا یا ختم ہو جائے گا۔ ان چھوٹی چھوٹی تبدیلوں سے غصے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس کسی نے اس پر قابو پا لیا اس نے سارے جہاں کو پا لیا۔ دنیا میں اس سے زیادہ بہادر کوئی نہ ہوگا جس نے غصے پر قابو پا لیا، بڑا وہ نہیں ہے جس کا دبدبہ چلتا ہے بلکہ بڑا وہ ہے جو طاقت کے باوجود دوسروں کو معاف کرنے والا درگزر کرنے والا ہے۔
دنیا میں اچھائی اور برائی دونوں پائے جاتے ہیں، انسانوں میں بھی اچھے اور برے دونوں طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ بظاہر برائی زیادہ، بڑی اور قوی نظر آتی ہے، اس کے برعکس اچھائی چھوٹی اور کمزور نظر آتی ہے، بالکل اسی طرح انسانوں میں بھی برائی ہی نظر آتی ہے، لوگ آپس میں ایک دوسرے کی برائیاں ہی تلاش کرتے ہیں، جب کہ ان میں اچھائیاں زیادہ ہوتی ہیں۔ ایک انسان دوسرے انسان میں برائی تلاش کرے گا تو اسے برائی ہی نظر آئے گی اور اگر وہ اچھائی تلاش کرے گا تو اچھائی نظر آئے گی۔ انسان سے ہی غلطیوں کا صدور ہوتا ہے، کوئی انسان بھی غلطیوں سے پاک نہیں ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس میں صرف غلطیاں ہی ہیں کوئی اچھائی نہیں پائی جاتی۔ ہر انسان میں اچھائیاں بھی پائی جاتی ہیں، لیکن انسان صرف خرابیوں کو ہی دیکھتا ہے، اس میں موجود اچھائیوں پر اس کی نظر نہیں جاتی، جب کہ اس کی خرابیوں کو، اس کی لغزشوں کو محسنات سے دور کیا جاسکتا ہے، انسانوں کی غلطیوں کو، برائیوں کو، لغزشوں کو نیکی اور اچھائی سے دور کیا جانا چاہیے، ہمیں انسان میں اچھائیاں ڈھونڈنی چاہیے یہ انسانی تعلقات میں بہتری کے لیے ضروری ہے۔ تعلقات میں بہتری کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان اپنی غلطی کو تسلیم کرے، انسان کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ وہ اپنی غلطی کو کبھی تسلیم نہیں کرتا، غلطی قبول کرنے میں اس کی انانیت آڑے آجاتی ہے، وہ غلطی پر ہونے کے باوجود اس کا دفاع کرتا رہتا ہے۔ ہم خود تو اپنی ذاتی پسند یا نا پسند کا خیال کرتے ہیں لیکن دوسرے کے نفع نقصان کے بارے میں نہیں سوچتے۔ اسی کیفیت کو انا کہتے ہیں، انا یہ بھی ہے کہ جس میں کچھ بھی صلاحیت و قابلیت نہیں ہوتی پھر بھی وہ اسے جتاتا پھرتا ہے۔ انا کی غلامی اختیار کرنے والے شخص کی زندگی سطحی اور مصنوعی ہوتی ہے، وہ تصنع پسند ہوتا ہے، اسے ہر آن اپنی کھوکھلی شخصیت کو برقرار رکھنے کے لیے کھوکھلے اور جھوٹے رویوں کا سہارا لینا پڑتا ہے اور نتیجتا تنہائی کا شکار ہو جاتا ہے۔ انا پسند اور خود غرض انسان کے لیے اس کی ذات کی اہمیت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ اذیت پسند ہو جاتا ہے، اور جو لوگ اس سے محبت کرنے والے تھے اس سے دوری اختیار کر لیتے ہیں۔ انسانوں میں پایا جانے والا یہ عنصر بھی آپسی تعلقات کے بگاڑ کا سبب بنتا ہے۔ انسانی تعلقات میں بہتری کے لیے آپسی انا کو اپنے دل سے نکال دینا ہو گا۔
انسانی تعلقات ہمیشہ ایک دوسرے سے شراکت پر مبنی ہوتے ہیں، یہ دو طرفہ ہوتے ہے، اس میں یکطرفہ فیصلہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے، ایک دوسرے کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے، ایسا ممکن نہیں کہ میں تو کسی کا احترام نہیں کروں گا، مجھے کسی سے محبت کی ضرورت نہیں ہے، کسی کی عزت کرنا میری سرشت میں نہیں، لیکن دوسرے میرا احترام کریں، میری عزت کریں، مجھ سے محبت کریں۔ تعلقات میں آپس کے جذبات کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے تب ہی اچھے تعلقات قائم ہو سکتے ہیں۔ ایک دوسرے کے جذبات و احساسات کا خیال رکھتے ہوئے آپسی تعلقات کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔
تعلقات کی مضبوطی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ سامنے والی کی باتوں کو اہمیت دی جائے، اس کے مشورے کو سنا جائے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ اس کی باتوں کو غیر اہم سمجھتے ہوئے، اس کے مشورے کو غیر اہم گردانتے ہوئے اچھے تعلقات کی امید رکھی جائے چاہے اس کی باتیں آپ کو ناپسند ہوں یا اس کے مشورے آپ کی نظروں میں نامناسب ہی کیوں نہ ہوں، اس سے آپ اختلاف کر سکتے ہیں لیکن اس کو یکلخت رد نہیں کیا جا سکتا، اس کی تذلیل نہیں کی جا سکتی، تذلیل تعلقات میں بگاڑ کی ایک اہم وجہ ہے اس سے بچ کر ہم اچھے تعلقات استوار کر سکتے ہیں۔
انسانی تعلقات میں مضبوطی کے لیے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کو معاف کیا جائے۔ بھول جانے اور معاف کرنے کا رویہ اختیار کرنے سے آپسی تعلقات بہتر اور مضبوط ہوتے ہیں۔ ایسا ممکن نہیں کہ آپ کی غلطیوں کو وہ معاف کرتا رہے اور آپ اس کی خرابیوں کو ناقابل معافی سمجھتے رہیں اور تعلقات بھی اچھے رہیں۔ ایک دوسرے کو درگزر کرنا چاہیے تاکہ تعلقات میں بہتری اور مضبوطی آئے۔
تعلقات میں بہتری کے لیے ضروری ہے کہ ایک دوسرے پر اعتماد اور بھروسہ بھی ہو۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں کرتے، ان کے اندر اعتماد کی کمی پائی جاتی ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کی صلاحیتوں پر بھروسہ ہونا چاہیے، ایک دوسرے کے اخلاص پر یقین ہونا چاہیے، اگر ایک دوسرے پر اعتماد نہیں ہوگا تو دوستی اور تعلقات ایک لمحہ کے لیے بھی قائم نہیں ہو سکتے اور اگر قائم ہو بھی جائیں تو دیر پا ثابت نہیں ہوتے، لہٰذا ضروری ہے کہ آپسی اعتماد قائم رہے۔
ایک اور چیز جو تعلقات کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے وہ ہے ایک دوسرے کے لیے وقت نکالنا۔ اس دور میں سب سے بڑا مسئلہ دوسروں کے لیے وقت دینا ہے، لوگ اپنی زندگی میں اس قدر مصروف ہو گئے ہیں کہ اپنے عزیزوں کے ساتھ گزارنے کے لیے بھی ان کے پاس وقت نہیں ہے۔ دن رات کے اوقات کار وہی ہیں جو پہلے تھے لیکن تعلقات کو نبھانے کے لیے انسان وقت نہیں نکال پا رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس دور کا انسان مادہ پرستی کے دلدل میں اس طرح پھنس گیا ہے اس کو اپنی ذات کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ پیسہ دولت، شہرت ہی اس کا مقصد زندگی بن گیا ہے۔ وہ رشتوں اور دوستیوں کو بھی اسی زاویہ نگاہ سے دیکھنے لگا ہے۔ شوہر بیوی کے درمیان بھروسہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ والدین کا اپنی اولاد پر اعتماد باقی نہیں رہا۔ ذرا سی بات پر ایک دوسرے کے دست و گریباں چاک کیے جانے لگے ہیں۔ بے اعتمادی، غصہ، بدزبانی، بے عزتی، ایک دوسرے کے جذبات کا عدم احترام ہر سو پھیلا ہوا ہے۔ یہ ساری کیفیات اس لیے پیدا ہوتی ہیں کہ انسان اسی دنیا کو ابدی قیام گاہ سمجھ بیٹھا ہے۔ وہ یہ بھول گیا ہے کہ دنیا عارضی قیام گاہ ہے اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے جہاں اسے ہمیشہ رہنا ہے، وہاں اسے اپنے ہر ایک عمل کا حساب دینا اور بدلہ پانا ہے۔ جب انسانوں میں یہ یقین پیدا ہوگا تو خاندان کی اصلاح ہو گی اور جب خاندان اچھے ہوں گے تو معاشرہ بھی بہتر ہو گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے آپ کو تبدیل کریں اور ایک اچھے اور پرامن معاشرے کی تعمیر کریں۔
***
***
اس دور میں سب سے بڑا مسئلہ دوسروں کے لیے وقت دینا ہے، لوگ اپنی زندگی میں اس قدر مصروف ہو گئے ہیں کہ اپنے عزیزوں کے ساتھ گزارنے کے لیے بھی ان کے پاس وقت نہیں ہے۔ دن رات کے اوقات کار وہی ہیں جو پہلے تھے لیکن تعلقات کو نبھانے کے لیے انسان وقت نہیں نکال پا رہا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 جنوری تا 07 جنوری 2023