بی جے پی اور ٹی ایم سی کی لڑائی آگے بھی چلتی رہے گی، سوچ سمجھ کر ووٹنگ کرنے کی ہے ضرورت
70 فیصد رائے دہندے ممتا کے ساتھ مگر ٹی ایم سی کے لیے بی جےپی ایک بڑا چیلنج۔پہلی بار سہ رخی مقابلہ
افروز عالم ساحل
’مغربی بنگال کا یہ الیکشن کافی اہم ہے۔ تاریخ میں پہلی بار یہاں سہ رخی مقابلہ ہو رہا ہے۔ ایک جانب بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا عروج ہے تو دوسری جانب ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کی اقتدار میں برقرار رکھنے کی جدوجہد اور تیسری جانب لیفٹ فرنٹ، کانگریس اور پیرزادہ عباس صدیقی کا ایک ساتھ آنا۔ میرا اپنا ماننا ہے کہ ان سب باتوں کا اثر اس بار کے الیکشن میں زیادہ پڑنے کا امکان ہے۔‘
یہ باتیں مغربی بنگال کے سیاسی تجزیہ نگار و ریسرچ اسکالر جناب عبدالمتین کی ہیں۔ واضح رہے کہ عبدالمتین دہلی کے جواہرلال نہرو یونیورسٹی سے ’بنگال کی مسلم سیاست‘ پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں اور ان دنوں مغربی بنگال کے جادھوپور یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ فرفرہ شریف اور جمعیت علماء ہند کے بنگال کی سیاست پر اثرات کا تجزیہ ان کی دلچسپی کا میدان ہے۔
ہفت روزہ دعوت نے بنگال کے موجودہ الیکشن کے سلسلے میں ان سے خاص بات چیت کی۔
عبدالمتین کے مطابق فرفرہ شریف کے عباس صدیقی کا الگ اثر ہے۔ ایسے میں کچھ جگہوں پر لیفٹ، کانگریس یا کہیے کہ عباس صدیقی کچھ اسمبلی سیٹوں پر کامیاب ہو سکتے ہیں۔
لیکن اگر مین اسٹریم میڈیا کی بات جائے تو میڈیا مغربی بنگال کی پوری لڑائی کو بی جے پی بنام ٹی ایم سی کے طور دکھا رہا ہے۔ عبدالمتین کہتے ہیں کہ میڈیا کیسے اور کس کے لیے کام کرتا ہے یہ کہنے کی ضرورت نہیں۔ ادھر ممتا بنرجی نے بھی اپنا سارا زور بی جے پی کو شکست دینے کے لیے لگا کر ایسا ماحول بنا دیا ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ ان کی لڑائی صرف اور صرف بی جے پی سے ہے۔ ایسا ماحول بنانے سے بی جے پی اور ٹی ایم سی دونوں کا فائدہ ہے۔ لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ اس بار کے سیاسی ’کھیل‘ میں لیفٹ، کانگریس اور انڈین سیکولر فرنٹ بھی شامل ہیں گویا مقابلہ سہ رخی ہے۔
تو کیا اس کا فائدہ بی جے پی کو نہیں ملے گا؟ اس سوال پر عبد المتین کہتے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی کو فائدہ سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا کیونکہ 2019 کے لوک سبھا الیکشن میں غیر بی جے پی ووٹ کافی تعداد میں ممتا بنرجی کی وجہ سے بی جے پی کے کھاتے میں گئے تھے، اگر اس بار وہ ممتا کے پاس واپس آجاتے ہیں تو پھر نتیجہ ہو گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ حد تک بی جے پی کو فائدہ ہو جائے لیکن کوئی بڑا الٹ پھیر نہیں ہو پائے گا۔جب عبد المتین سے پوچھا گیا کہ کیا اس بار مسلم ووٹ تقسیم ہونے والا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ آپ اسے تقسیم بھی کہہ سکتے ہیں یا مستحکم بھی کہہ سکتے ہیں۔ جو ووٹ اب تک یکطرفہ طور پر ٹی ایم سی کو جاتا تھا ویسا اس بار شاید کچھ جگہوں پر نہ ہو۔ اس وقت ٹی ایم سی کے اندر ایک بھی ایسا لیڈر نہیں ہے جو حقیقت میں مسلمانوں کی نمائندگی کرتا ہو۔
یہ پوچھنے پر کہ مغربی بنگال میں ہندوتوا کا جو عروج ہوا ہے اس کے لیے آپ کس کو ذمہ دار مانتے ہیں؟ اس سوال پر عبدالمتین کہتے ہیں کہ اس کے دو اہم اسباب ہیں۔ پہلا مسلمانوں کے بہتر ہوتے ہوئے اقتصادی حالات ہیں۔ سچر کمیٹی رپورٹ آنے کے بعد گزشتہ 12 تا 15 سالوں میں مسلمانوں میں ایک چھوٹا موٹا مڈل کلاس تیار ہوا ہے جسے یہاں کا اکثریتی طبقہ اپنے لیے ایک خطرہ سمجھتا ہے۔ کیونکہ ان کا خیال ہے کہ مڈل طبقے کے مسلمانوں سے ان کے اقتصادی حالات پر خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ دوسرا مغربی بنگال میں ’سافٹ ہندوتوا‘ ایک پرانی دریافت ہے خاص طور پر گزشتہ 4 تا 5 سالوں میں بنگال کی سیاست میں تبدیلی آئی ہے اور ممتا بنرجی نے جس طرح سے شناخت کی سیاست شروع کی وہ ہندوتوا کے عروج کی ایک اہم وجہ ہے۔
عبد المتین مزید کہتے ہیں کہ سال 2011 کے بعد جو مسلمان لیفٹ کے ساتھ تھے وہ ٹی ایم سی کے ساتھ ہو گئے، لیکن ٹی ایم سی نے ان کے لیے کچھ نہیں کیا۔ اس کے الٹ انہوں نے امام و مؤذن کے وظائف کو ایسے پیش کیا جیسے یہ حکومت اپنے خزانے سے دے رہی ہو چنانچہ اس کا سیاسی طور پر بہت غلط اثر پڑا۔ جبکہ سچائی یہ تھی کہ امام و مؤذنوں کو یہ وظیفہ حکومت نہیں بلکہ یہاں کا وقف بورڈ دے رہا تھا اور وقف بورڈ کی جو آمدنی ہے وہ مسلمانوں کے وقف کردہ جائیدادوں سے ہے۔ اگر ممتا بنرجی حقیقت میں اقلیتوں کے بارے میں فکر مند ہوتیں تو اس بار الیکشن میں مسلم امیدواروں کی تعداد نہیں گھٹاتیں۔ مسلمانوں سے ان کو کتنی محبت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے انتخابی منشور سے مسلمانوں کو غائب ہی کر دیا جبکہ یہی ٹی ایم سی رام نومی اور درگا پوجا میں جم کر روپیہ خرچ کر چکی ہے۔ مغربی بنگال میں ہر پوجا، ہر پروگرام کے لیے حکومت یا ٹی ایم سی نے تعاون کیا ہے۔ اس کی وجہ سے بھی یہاں ’مذہبی سیاسی کلچر‘ بنا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ کئی اور معاملے ایسے ہیں جن میں بی جے پی کو بڑھانے میں ممتا بنرجی کا ہی بڑا رول رہا ہے۔ 2018 کے پنچایت الیکشن میں ٹی ایم سی نے بی جے پی کے سوا کسی سیاسی جماعت کو پرچہ نامزدگی داخل کرنے نہیں دیا۔
عبدالمتین کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس نے بھی یہاں خوب کام کیا ہے یا یوں کہیے کہ حکومت کی جانب سے انہیں کام کرنے کا موقع دیا گیا۔ ان کا ’ایکل ودھیالیہ‘ یہاں کے بیشتر گاؤوں میں ہے۔نارتھ بنگال میں تو آر ایس ایس کافی مضبوط ہے، یہاں ان کا کافی کام ہے، بلکہ سچ کہا جائے تو بنگال کے ہر ضلع میں ان کا کام ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ سب کچھ پہلی بار ہو رہا ہے بلکہ ان کا کام یہاں پہلے بھی تھا، لیکن پہلے کھلے عام سرکاری اسکولوں میں شاکھائیں نہیں لگا کرتی تھیں، لیکن اب سب کچھ کھلے عام اور حکومت کی نظر میں ہو رہا ہے۔
آخر میں عبدالمتین کہتے ہیں کہ بی جے پی اور ٹی ایم سی کی لڑائی آگے بھی چلتی رہے گی، وہ اس ایک الیکشن میں تو ختم ہونے والی نہیں ہے۔ اس لیے یہاں کے سیکولر لوگوں کو سوچ سمجھ کر ووٹنگ کرنے کی ضرورت ہے۔
***
سچر کمیٹی رپورٹ آنے کے بعد گزشتہ 12 تا 15 سالوں میں مسلمانوں میں ایک چھوٹا موٹا مڈل کلاس تیار ہوا ہے جسے یہاں کا اکثریتی طبقہ اپنے لیے ایک خطرہ سمجھتا ہے۔ کیونکہ ان کا خیال ہے کہ مڈل طبقے کے مسلمانوں سے ان کے اقتصادی حالات پر خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ دوسرا مغربی بنگال میں ’سافٹ ہندوتوا‘ ایک پرانی دریافت ہے خاص طور پر گزشتہ 4 تا 5 سالوں میں بنگال کی سیاست میں تبدیلی آئی ہے اور ممتا بنرجی نے جس طرح سے شناخت کی سیاست شروع کی وہ ہندوتوا کے عروج کی ایک اہم وجہ ہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 4 اپریل تا 10 اپریل 2021