آزادی کے 75 سال اور ملک میں پھیلی عدم برابری

از: زعیم الدین احمد، حیدرآباد

اس سال ہمارے ملک نے آزادی کی 75 ویں سالگرہ منائی۔ آزادی کے بعد اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ہمارا ملک سماجی عدم مساوات کا شکار ہے۔ کیا وجہ ہے کہ سماج کا ایک بہت بڑا طبقہ سماجی نا انصافی کا شکار ہے حالانکہ ہمارا ملک معاشی ترقی کے میدان میں روز ایک نئی تاریخ رقم کر رہا ہے؟ وہ یوکرین جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اناج کی قلت کے بحران کو دور کرنے میں لگا ہوا ہے اور دنیا کو اس مسئلے سے نکالنے میں مدد کر رہا ہے لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ ہمارے ملک میں 35.5 فیصد بچے جن کی عمریں 5 سال سے کم ہیں غذائی قلت کا شکار ہیں۔ تغذیہ کی کمی کی وجہ سے بچوں کا جسمانی نشوونما اپنے معمول کے مطابق نہیں ہو پا رہا ہے، نہ ان کا قد بڑھ رہا ہے اور نہ ہی ان کا وزن۔ یہاں چراغ تلے اندھیرا والی کہاوت صادق نظر آتی ہے۔ ہمارا ملک جہاں اس وقت معاشی میدان میں ترقی کر رہا ہے وہیں دنیا بھر میں سب سے زیادہ خون کی کمی کے شکار افراد بھی یہیں پائے جاتے ہیں۔
دنیا میں سو کروڑ ڈالر یا اس سے زیادہ دولت رکھنے والے افراد کی فہرست میں ہمارے ملک کا مقام تیسرا ہو چکا ہے۔ 2011ء میں اس فہرست میں 55 افراد تھے، 2021ء میں ان کی تعداد بڑھ کر 145 ہوگئی یعنی محض دس سالوں میں ان کی تعداد دوگنی سے زیادہ ہو گئی۔ اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں دولت میں کس قدر اضافہ ہو رہا ہے اور کس بڑے پیمانے پر دولت بٹوری جا رہی ہے۔ 2011ء میں ان سو کروڑ ڈالر والے افراد کی دولت کا تخمینہ قومی آمدنی میں 13 فیصد تھا۔ 2021ء میں ان کی دولت کا تخمینہ قومی آمدنی کا 20 فیصد ہو گیا، اس طرح یہ دولت ایک طرف مرکوز ہو کر رہ گئی۔ اس دولت کا عوام کو کسی قسم کا کوئی فائدہ نہیں ملا۔ اسی لیے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ملک میں سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ورلڈ ان ایکوالیٹی یعنی عدم مساوات اشاریہ میں ہمارا نام سر فہرست ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ عدم مساوات ہمارے ہی ملک میں ہے۔ اس عدم مساوات کی وجہ سے ہمارا ملک نہ صرف سماجی طور بلکہ معاشی طور پر بھی غیر مستحکم ہے۔ ایسی ہی غیر مستحکم معیشت میں گنتی کے چند لوگ دولت مند ہو جاتے ہیں اور اکثر آبادی غریب رہ جاتی ہے۔ چند کارپوریٹس جن کے سر پر حکومت کا دست شفقت رہتا ہے وہی ترقی کرتے جاتے ہیں۔ دولت کی اسی غیر منصفانہ تقسیم کے نتیجے میں عوام معاشی پریشانی اور غربت کا شکار ہوتے جاتے ہیں، مثال کے طور پر اگر ایک روپیہ کسی دولت مند کے ہاتھ میں ہو گا تو اس کا فائدہ معیشت کو کم ہو گا کیوں کہ وہ اس روپیہ استعمال کم کرے گا جبکہ اگر یہی ایک روپیہ ایک عام آدمی کے ہاتھ میں ہو گا تو وہ اس کا استعمال کئی مرتبہ کرے گا جو معیشت کے لیے فائدہ مند ثابت ہو گا۔ ایک دولت مند شخص کی بہ نسبت ایک عام آدمی اس ایک روپیہ کا استعمال زیادہ کرتا ہے۔ وہ اس روپیہ کا استعمال اپنی ضروریات زندگی کے لیے کرتا ہے اشیائے ضروریہ خریدتا ہے، اس طرح وہ روپیہ معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ معیشت کا ایک عام اصول یہ ہے کہ عام آدمی کے ہاتھ میں پیسہ ہو گا تو مال کی کھپت میں اضافہ ہو گا جس کے نتیجے میں معاشی ترقی ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ آج کروڑ پتیوں کی تعداد میں اضافہ سے معاشی عدم مساوات میں اضافہ ہوا ہے، اسی معاشی عدم برابری نے ملک کی معاشی ترقی میں بڑی رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔
ایک اور مثال: کوویڈ کی وبا نے کئی ممالک کو ہر لحاظ سے تہ وبالا کر کے چھوڑا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں اس وبا کی ویکسین تیار نہیں ہوئی لیکن ہمارے ملک میں اس کو کئی کمپنیوں نے بنایا مثلا "کوویکسین بھارت بائیوٹیک، آکسفورڈ اسکاجنکا سیرم انسٹیٹیوٹ، روس کی جانب بنائی گئی ویکسین ریڈی لیابس نے تیار کی۔ اسی طرح بیالوجیکل ای لمیٹڈ نے ایک ویکسین تیار کی، اس قدر کثیر تعداد میں ویکسینیں یہاں تیار ہوئیں جنہیں ہمارے ملک نے ساری دنیا کو فراہم کیں۔ ہمارا ملک دنیا کو مطلوب مقدار کی 60 فیصد ویکسین فراہم کرتا ہے۔ بر اعظم افریقہ کو ایچ آئی وی جیسی مہلک بیماری کی تباہی کاریوں سے ویکسین دے کر بچایا، یہاں تک کہ امریکہ جیسے سوپر پاور کو بھی ہمارا ملک دوائیاں بنا کر دیتا ہے۔ دوا سازی کی اتنی صلاحیت رکھنے کے باوجود ہمارا ملک صحت عامہ کے معاملے میں کسی افریقی ملک کے برابر نظر آتا ہے۔ آپ کو یہ جان کر تعجب ہو گا کہ ہمارا ملک صحت عامہ پر اپنی جی ڈی پی کا صرف ایک فیصد حصہ خرچ کرتا ہے۔ عوام کی صحت پر اس قدر معمولی خرچ کو کسی بھی صورت میں معقول قرار نہیں دیا جاسکتا۔
کینیڈا میں ایک صوبہ البرٹا کے نام سے موسوم ہے جہاں ہائیڈرو کاربن کی پیداوار ہوتی ہے۔ پٹرول، ڈیزل کی پیداوار ہونے والا یہ صوبہ کینیڈا کے دولت مند ترین صوبوں میں سے ایک ہے۔ یہاں کے انفراسٹرکچر کے وزیر پرساد پانڈا ہیں ان کا تعلق آندھرا پردیش سے بھی رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا صوبہ اپنے بجٹ کا 70فیصد حصہ تعلیم اور صحت عامہ پر خرچ کرتا ہے۔ ایک طرف ہمارا ملک صحت کے شعبے میں اس طور سے ترقی کر رہا ہے کہ وہ دنیا کو ویکسین فراہم کر رہا ہے تو دوسری طرف ملک کے صحت عامہ کی صورتحال انتہائی دگرگوں ہے۔ ترقی کا یہ کون سا نمونہ ہے کہ ہماری دوا ساز کمپنیاں دوائیں ایکسپورٹ کر کے ہزاروں کروڑ کی کمائی کر رہی ہیں لیکن خود ملک کے عوام ناقص صحت کا شکار ہیں؟ یہی وہ معاشی عدم مساوات ہے جس سے حکومت کی چھتر چھایا میں پنپنے والی کمپنیاں تو خوب کماتی ہیں لیکن عوام محروم رہ جاتے ہیں۔
اس وقت ہمارا ملک دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے۔ ہمارے ملک کو غلام بنا کر اس پر حکومت کرنے والے برطانیہ کو یہ پیچھے چھوڑنے کے قریب ہے۔اگلے پانچ سالوں میں اندازہ لگایا جا رہا ہے ہمارا ملک جرمنی کی معیشت کو بھی پیچھے چھوڑ دے گا۔ اگلے دس سالوں میں ہم جاپان کی معیشت کو بھی پیچھے کر دیں گے۔ لیکن یہ ترقی وہ ترقی نہیں ہے جس کے ثمرات سارے سماج کو حاصل ہوتے ہوں۔ جس معاشی نظام کو ہمارے ملک نے اختیار کیا ہے وہ صرف سرمایہ داروں کے سرمائے میں مزید اضافہ کرتا ہے دولت مندوں کو مزید دولت مند بناتا ہے اور غریبوں کی غربت میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔
***

 

***


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  2 اکتوبر تا 8 اکتوبر 2022