آزادی کے 75برسوں بعد بھی ’دیوداسی نظام‘کیوں موجود ہے؟

غریب اورپسماندہ طبقے کی متاثرہ خواتین باوقار زندگی کےحق اورانصاف سے محروم

نور اللہ جاوید، کولکاتا

عالمی قیادت کا خواب دیکھنے والے بھارت کی کرب ناک کہانی
اسلامی تہذیب وتمدن سے آشنا ہونے سے قبل مہا بھارت کے زیر اثر پروان چڑھنے والی بھارتی تہذیب میں خواتین ہمیشہ سے تفریح طبع کا سامان رہی ہیں۔ کرشن جی کی رادھا سے قربت اور بنسری کی تان پر رادھا اور اس کی گوپیوں (سہیلیاں جو گئوپال گھرانوں سے تھیں) کے بے خود ہو جانے کے فسانے۔ مہا بھارت کی کہانی میں ایک جانب تو دروپدی کی عزت اور وقار کے نام پر جنگ کی گئی تو دوسری جانب اسی دروپدی کو پانچ شوہروں نے مل کر جوئے میں ہار دیا۔ مزید سرِ دربار اسے برہنہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن پورا دربار تماشائی بنا رہا۔ آرین لٹریچر میں بڑے بھائی کی بیوی سے اس کے تمام چھوٹے بھائیوں کے ازدواجی تعلقات کی کہانیاں موجود ہیں۔ نیز شوہر کے ساتھ زندگی میں فدا کار بن کر رہنے اور شوہر کی موت پر اس کی چتا کے ساتھ ستی ہو جانے والی عورت کو مثالی بیوی، ستی ساوتری یعنی سچی اور کھری کے القابات، ستی پر چڑھنے سے انکار کرنے والی عورت کو معاشرے کے لیے بوجھ بنا دینے کے کلچر کی نشان دہی بھی ہوتی ہے۔ اسی طرح لنکا کے راجا کے ذریعہ رام چندر جی کی بیوی سیتا جی کے اغوا پر آریہ ورت کا کوئی راجا یا پھر کوئی شہزادہ اپنے گھر کی بہو کی بازیابی کے لیے سامنے نہیں آیا۔ وہ تو ہنومان اور اس کی بندروں کی فوج کا کارنامہ ہے کہ لنکا کو ڈھا کر راکھشس راون کی گرفت سے سیتاجی باز یاب ہو سکیں۔ عورت کو اس تہذیب نے کبھی وراثت کا حق نہیں دیا۔ بڑے بڑے مندروں میں پجاریوں اور زمین داروں اور عوام کی تفریح طبع کے لیے نا بالغ لڑکیوں کی دیوتاوں سے نام نہاد شادی کرادی جاتی اور پھر ان کا جنسی استحصال کیا جاتا۔ زندگی بھر یہ معصوم لڑکیاں نہ کبھی شادی کر سکتیں اور نہ ہی انہیں اپنے گھر آباد کرنے کی اجازت تھی۔ مندروں کی آمدنی اور اس کے لیے جائیداد وقف کرانے کے لیے یہ دیو داسیاں رقص پیش کرتی تھیں۔ آزاد بھارت میں دیو داسی نظام پر پابندی عائد کے جانے کے باوجود جنوبی ہند کی ریاستوں، مہاراشٹر اور اڑیسہ کی مندروں میں آج بھی لڑکیاں دیو داسی بنائی جا رہی ہیں۔آریائی تہذیب و ثقافت کے یہ وہ مظاہر ہیں جن کی قیمت آج بھی بھارت چکا رہا ہے۔
14 اکتوبر کو قومی انسانی حقوق کمیشن نے مرکزی حکومت اور دیگر 6 ریاستوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ آج بھی مختلف مندروں میں لڑکیاں دیو داسیاں بنائی جا رہی ہیں۔ قومی انسانی حقوق کمیشن نے مرکز اور 6 ریاستوں سے رپورٹ طلب کی ہے۔ کمیشن نے نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ دیو داسی نظام پر قدغن لگانے کے لیے ماضی میں متعدد قوانین بنائے گئے ہیں مگر ان تمام قوانین کے باوجود ملک کے مختلف حصوں میں نا بالغ لڑکیوں کو دیو داسی بنایا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی کم عمر لڑکیوں کو دیو داسی بنانے کا سلسلہ جاری رہنے پر سخت تنبیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ دیو داسیوں کے ساتھ جنسی استحصال اور عصمت فروشی کروائی جاتی ہے۔ یہ رواج خواتین کو زندگی کے حق، وقار اور مساوات سے محروم کر دینے والے ہیں۔کمیشن نے میڈیا رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ زیادہ تر متاثرین کا تعلق غریب خاندانوں، درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل سے ہے۔ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق صرف کرناٹک میں 70 ہزار دیو داسیاں ہیں۔ جسٹس رگھو ناتھ راؤ کی صدارت میں تشکیل دیے گئے کمیشن کی رپورٹ کے مطابق تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں 80 ہزار دیوداسیاں ہیں۔ کمیشن نے خواتین اور بچوں کی ترقی کی مرکزی وزارت اور سماجی انصاف اور بااختیار بنانے کی وزارت کے سکریٹریوں اور کرناٹک، کیرالا، تمل ناڈو، آندھرا پردیش، تلنگانہ اور مہاراشٹر کے چیف سکریٹریوں سے اگلے چھ ہفتوں میں تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔
قومی انسانی حقوق کمیشن کی نوٹس پر 6 ہفتوں کے بعد حکومتی رپورٹس اور دیو داسیوں سے متعلق نئے اعداد و شمار سے صرف نظر جنوبی ہند کی ریاستوں میں دیو داسیوں کی بدحالی اور ان کی بے بسی سے متعلق حالیہ دنوں میں مختلف اخبارات اور تحقیقاتی مطالعات میں جو حقائق سامنے آئے ہیں وہ رونگٹے کھڑے کر دینے والے ہیں۔ ان رپورٹوں کو پڑھ کریہ یقین نہیں ہوتا کہ یہ اس ملک کی کہانی ہے جو وشو گرو بننے کا خواب دیکھ رہا ہے اور یہ دعویٰ کررہا ہے کہ دنیا کے گونا گوں مسائل کا حل اسی کے پاس ہے اور وہی دنیا کو روشنی دکھا سکتا ہے۔ ایسے میں یہ سوال بہت ہی اہم ہے کہ ایک طرف ملک میں نفرت انگیز مہم کا عفریت ملک کے اتحاد وسلامتی کو خطرے میں ڈال رہا ہے، ملک کی ایک بڑی آبادی کا امن و قانون اور عدالتی نظام سے بھروسا اٹھ رہا ہے تو دوسری طرف ملک میں خواتین کے خلاف جنسی زیادتی کے واقعات میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے۔ آئے دن ملک کے کسی نہ کسی حصے سے خواتین کے خلاف زیادتی کی خبریں اخباروں کی زینت بن رہی ہیں۔ پانچویں اور چھٹی صدی کی دیو داسی کی لعنت کی شکار آج بھی غریب اور دلت خواتین ہو رہی ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے محض خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ملک تیزی سے اکثریت پسند ہوتا جا رہا ہے۔ ان حالات میں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیریس کا 20 اکتوبر کو ممبئی آئی آئی ٹی میں دیا گیا یہ بیان بہت ہی اہم ہے کہ ’’عالمی سطح پر بھارت کی آواز کو صرف اور صرف اندرون ملک شمولیت اور انسانی حقوق کے مضبوط عزم سے ہی اعتبار حاصل ہو سکتا ہے۔ بھارت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عالمی انسانی حقوق کی تشکیل کرے اور اقلیتی برادریوں کے ارکان سمیت تمام افراد کے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ تکثیریت کا بھارتی ماڈل سادہ ہے لیکن گہری سمجھ پر مبنی ہے۔ انٹونیو گوٹیریس نے نفرت انگیز تقاریر کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں، طلبا، ماہرین تعلیم کے حقوق، آزادیوں کا تحفظ، اکثریتی ثقافتی، کثیر مذہبی اور کثیر النسلی معاشرے کی حفاظت کے بغیر عالمی پلیٹ فارم پر آپ کی آواز با اثر نہیں ہو سکتی ہے۔
انتونیو گوٹیریس کا یہ بیان واضح کرتا ہے کہ دنیا بھارت کو کس نظر سے دیکھ رہی ہے۔ اس بیان پر خود احتسابی کے عمل سے گزرنے کے بجائے نام نہاد قوم پرسٹ لیڈر اور ان کی ٹرول آرمی ان کے خلاف مہم چلانے لگے مگر سوال اپنی جگہ پر قائم ہے جس سے ہم صرف نظر نہیں کر سکتے ہیں۔ 21ویں صدی کی دنیا میں جہاں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ ترقی کی منازل طے کر رہی ہیں، آسمانوں پر کمند اور ہواوں میں اڑ رہی ہیں مگر ہمارے ملک کی بچیاں کم عمری ہی میں جنسی ہوس کی بھینٹ چڑھائی جا رہی ہیں اور یہ سب مذہب کی آڑ میں ہو رہا ہے۔ یہ سوال بھی کافی اہم ہے کہ آزادی کے 75 سال بعد بھی مہا بھارت کے کوکھ سے جنم لینے والی تہذیبی و سماجی استحصال کا خاتمہ کیوں نہیں ہو سکا ہے؟ اس نقطہ پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ شمال کے مقابلے میں جنوبی بھارت ترقی اور تعلیم یافتہ ہے مگر اس کے باوجود دیو داسی نظام وہاں آج بھی قائم ہے۔ 2020ء کی قومی خواتین کمیشن کی رپورٹ کے مطابق آج پورے ملک میں دو لاکھ سے زائد دیو داسیاں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے شمالی ہند کی مندروں میں دیو داسیاں نہیں ہیں لیکن جنوب کی مندروں میں ہیں، جبکہ ذات پات کی تفریق اور سماجی جبر شمالی بھارت کی ریاستوں میں کسی بھی درجے میں کم نہیں ہے؟
دیو داسی نظام کیا ہے؟
دیوداسی نظام برہمنی تسلط اور طبقاتی نظام کی دین ہے۔ معاشی، معاشرتی اور مذہبی اجارہ داری کے نتیجے میں دیو داسی نظام کی شروعات ہوئی۔ ویسے تو خواتین پر زیادتی انسانی تاریخ کا بدنما باب رہا ہے۔ لیکن جب بربریت مذہب کے لبادے میں ہو تو اس کے نقصانات مزید گہرے اور دائرہ کار مزید وسیع ہو جاتا ہے۔ ملک میں برہمنی نظام نے اپنی ہوس کو پورا کرنے کے لیے جہاں اور طریقے وضع کیے وہیں ایک اور راستہ دیو داسی کا بھی وضع کیا۔ دیو داسی کی رسم بھارت میں مندروں کی طلسماتی دنیا میں دیواروں کے پیچھے کی کالی دنیا سے تعلق رکھتی ہے۔ دیو داسی کا مطلب ہے خدا کی خدمت کرنے والی۔ یہ عورتیں خدا کے لیے وقف کی جاتی ہیں اور ان کی شادی خدا کے ساتھ کر دی جاتی ہے، اسی لیے وہ کسی انسان سے شادی نہیں کر سکتیں۔ سی ایس مروگن نے اپنی تصنیف ’وارالٹریل دیوداسیگل‘ (‘Varalatril Devadasigal’) میں لکھا ہے کہ دیو داسی کا ذکر ’’پدما پران‘‘ میں موجود ہے۔اس کے علاوہ دیود اسی کا ذکر کوٹلیا کے ارتھ شاستر میں بھی ملتا ہے اور متسیہ پران، وشنو پران وغیرہ میں بھی دیوداسی کا ذکر موجود ہے۔ تاریخی اعتبار سے دیو داسی کی رسم چھٹی صدی عیسوی میں شروع ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ زیادہ تر پران اسی دور میں لکھے گئے ہیں۔ ابتدائی تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ دیو داسی شکتا مندروں (شکتی کے مندر) میں خدمت کرتی تھیں۔ وہ زیادہ تر ایسی جگہوں پر پائی جاتی تھیں جہاں بہت سارے کالی مندر ہوتے تھے۔ چنانچہ مغربی بنگال کے کالی مندروں میں بھی دیو داسیاں ہوتی تھیں۔ پوٹوکٹو نامی تقریب کے ذریعے ان دیو داسی خواتین کو مندر کے لیے وقف کیا جاتا تھا۔ یہ تقریب روایتی شادی کی تقریب سے ملتی جلتی ہے، سوائے اس کے کہ ان خواتین کو خدا کی بیویاں سمجھا جاتا تھا۔ چھٹی صدی سے تیرہویں صدی عیسوی کے دوران بھارت کے بیشتر مندروں میں دیو داسیاں تھیں۔ وہ رقص و موسیقی سمیت مختلف فنون لطیفہ کی ماہر بھی ہوتی تھیں۔ اس دور میں فارمنگ آرٹ مندر کی عبادت کا ایک حصہ ہوتا تھا۔ ابتدائی دور میں دیو داسیوں کے جنسی استحصال کی روایات نہیں ملتی ہیں۔ مورخین اس پر خاموش ہیں۔ تاہم چند بنیادی حقائق ہیں جن سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یہ دیو داسیاں مجع عام میں رقص پیش کرتی تھیں اور اس کے ذریعہ مندروں کی آمدنی میں اضافہ ہوتا تھا۔ اس دور میں اشرافیہ کے خاندان کی خواتین کا مجمع میں رقص کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ ۔چنانچہ ایک دو واقعات کو چھوڑ کر زیادہ تر دیو داسیوں کا تعلق پسماندہ اور نچلے طبقات سے ہوتا تھا۔ اس دور میں جب پسماندہ اور دلت طبقے کے مردوں کو مندروں میں جانے کی اجازت نہیں تھی ایسے میں یہ کیسے امید کی جا سکتی ہے کہ بھگوان سے شادی کرنے والی دلت سماج کی خواتین کو معاشرے میں عزت و وقار کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہو گا۔ جنوبی بھارت میں چولوں، چیروں اور پانڈیوں کے دور میں دیو داسی جنسی غلاموں یا چائلڈ سیکس ورکرز سے زیادہ کچھ نہیں تھیں۔ جدید بھارت کی دیو داسیاں زیادہ تر آندھرا پردیش، گجرات، کرناٹک، مہاراشٹر، تمل ناڈو اور تلنگانہ کے کچھ حصوں میں ہیں۔ انہیں مہاراشٹرا میں ماتھنگی، آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں جوزینی یا متھما، کرناٹک میں دیو داسی اور تمل ناڈو میں متھما کہا جاتا ہے۔
11ویں صدی میں بھارت اسلامی تہذیب و تمدن سے روشناس ہوا۔ دہلی میں مسلم سلطنت کا قیام مندروں میں سماجی طور پر پس رہی خواتین کے لیے مژدہ جاں فزاں کا پیغام لے کر آیا۔ اسلام کی تعلیمات کی وجہ سے صدیوں سے سماجی تفریق اور ذات پات کے ظلم و جبر میں پس رہے پسماندہ سماج کو ظلم سے نکلنے کے مواقع ملے۔ مسلم حکمرانوں نے جنسی استحصال میں ملوث مندر کے پجاریوں کے خلاف کارروائیاں کیں۔ مشہور مؤرخ، سفارت کار اور فارسی کے عالم ڈاکٹر تارا چند نے اپنی بلند پایہ تصنیف ’’تاریخِ ہند‘‘ میں محمود غزنوی کے ذریعہ سومناتھ کے مندر کے انہدام کی وجوہات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سومناتھ کے مندر میں ہزاروں دیو داسیاں بھی تھیں جو غزنوی کے حملے کی وجہ سے آزاد ہوئیں۔ بیشتر مورخین نے اعتراف کیا ہے کہ شمالی ہند کے مندروں میں دیو داسی کا نظام مسلم حکمرانوں کی وجہ سے کمزور ہوا اور نوآبادیاتی دور میں یہ سماجی لعنت کے طور پر دوبارہ متعارف ہوئی۔ مگر ساتھ ہی دیوداسیوں کی جسم فروشی اور جنسی استحصال کا ٹھیکرا مسلم حکمرانوں کے سر پر یہ کہہ کر پھوڑا جاتا ہے کہ مندروں کے انہدام کی وجہ سے دیو داسیوں کی کفالت کا نظام کمزور ہو گیا تھا لہذا یہ دیو داسیاں شادی بیاہ کی تقریبات میں رقص کرنے لگیں اور جسم فروشی پر مجبور ہوئیں۔ چونکہ جنوبی ہند میں مسلم حکمرانوں کے حملے کم ہوئے اس لیے جنوبی ہند میں یہ رسم باقی رہ گئی۔ اس قسم کے دعوے جھوٹے پروپیگنڈے کے سوا کچھ نہیں ہیں، جیسا کہ آج کل سنگھی ذہنیّت والے ستی کی لعنت کو مسلم حکمرانوں سے جوڑ کر کہتے ہیں کہ مسلم حکمرانوں کے خوف سے بیوہ خواتین اپنے شوہروں کے ساتھ ستی پر چڑھنے کے لیے تیار ہو جاتی تھیں۔ مشہور مورخ ڈیوس نے اپنی کتاب ”ہندو مائنرس، کسٹمس اینڈ سِرِمنینر“(Hindu Manners Customs and Ceremonies ) میں لکھا ہے کہ ہر دیو داسی کو مندر میں ناچنا گانا پڑتا تھا، ساتھ ہی مندروں میں آنے والے خاص مہمانوں کے ساتھ سونا بھی پڑتا تھا۔ اس کے بدلے میں انہیں اناج یا روپیہ دیا جاتا تھا۔ دہلی یونیورسٹی کی پروفیسر اور سماجی کارکن وملا تھوراٹ اپنے تحقیقی مقالے میں لکھتی ہیں کہ ”دیو داسی بننے کے بعد عورتوں کو اس بات کا بھی حق نہیں رہتا تھا کہ وہ کسی کی ہوس پوری کرنے سے انکار کر سکیں۔
جنوبی بھارت کے منادر پوجا پاٹ کے ساتھ ساتھ ثقافت، فن، رقص، آرتھا اور انصاف کے مراکز ہوا کرتے تھے۔ بھارت ناٹیم، کتھک جیسے رقص مندروں سے ہی شروع ہوئے ہیں۔ جنوبی بھارت میں دیو داسی کا نظام برقرار رہنے کے پیچھے ایک سماجی وجہ بھی ہے۔ دراوڑ تحریک اور پری یار کی خود تحفظ تحریک کے باوجود جنوبی ہند کے نظام میں برہمن طبقات کا بول بالا رہا ہے۔سماجی اور معاشی برتری قائم رکھنے کے لیے پسماندہ طبقات کی خواتین کو دیو داسی بننے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ 19ویں صدی میں شمالی بھارت میں ہندوؤں میں اصلاحی مہم چلائی گئی کیوں کہ نو آبادیاتی دور میں بڑی تعداد میں مشنریاں انگریز حکومت کی مدد سے دلت اور قبائلی علاقے میں سرگرم ہوئیں۔ بڑے پیمانے پر تبدیلی مذہب کے واقعات ہونے لگے، انہیں روکنے کے لیے شمالی بھارت میں سماجی و معاشرتی تفریق کے خاتمے کی کوششیں کی گئیں۔
دیو داسی نظام پر پابندی اور موجودہ صورت حال
19ویں صدی کے آغاز میں دیو داسی نظام کے خلاف تحریک کی شروعات ہو گئی تھی جس میں ناچ مخالف تحریک اور ’عزت نفس تحریک‘ قابل ذکر ہیں ۔ان تحریکوں کے نتیجے میں دیو داسی پریکٹس کے خلاف پہلی قانونی پابندی بمبئی دیو داسی پروٹیکشن ایکٹ، 1934 میں عائد کی گئی تھی۔ دیو داسی نظام پر پابندی کا پہلا قانون آزادی سے پہلے نافذ کیا گیا تھا جو آخری بار 17 سال پہلے نافذ کیا گیا۔ آزادی کے فوراً بعد مدراس دیوداسی روک تھام ایکٹ 1947 نافذ کیا گیا۔ بعد میں 1988 میں اس میں ترمیم کی گئی۔ کرناٹک دیو داسی ممانعت ایکٹ 1982 میں منظور کیا گیا تھا اور یہ حیرت انگیز بات ہے کہ کرناٹک حکومت نے ابھی تک اس قانون کے نفاذ کے لیے قواعد جاری نہیں کیے ہیں۔ مہاراشٹر دیو داسی نظام کے خاتمے کا قانون 2005 میں منظور کیا گیا ۔ان قوانین کے باوجود آزادی کے 75 سال بعد بھی دیو داسی کی روایت ایک زہریلی شکل میں بھارتی سماج میں موجود ہے اور ملک کے کئی حصوں میں پروان چڑھ رہی ہے۔در اصل قانون سازی الگ بات ہے اور اس پر عمل درآمد دوسری بات ہے۔ سمپارک کی 2015 کی رپورٹ کے مطابق ان قوانین کا کمزور پہلو یہ ہے کہ دیو داسیوں کی حفاظت اور ان کی باز آباد کاری پر توجہ نہیں دی گئی ہے۔ٹاٹا انسیٹیوٹ آف سوشل سائنس کی رپورٹ 2016 میں حکومتوں کی لاپروائی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ زیادہ تر ریاستی حکومتیں دیو داسی بنائے جانے کی خبروں کو سنجیدگی سے نہیں لیتی ہیں۔بسا اوقات دیو داسی کے حاملہ ہونے کے بعد ہی حکومت کو خبر ہوتی ہے کہ کس لڑکی کو دیو داسی بنایا گیا ہے۔ غیر منافع بخش تنظیم سمپارک کی 2015 کی رپورٹ جو انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے تعاون سے تیاری کی گئی ہے، اس میں بتایا گیا ہے ک بھارت میں اس وقت ساڑھے چار لاکھ دیو داسیاں ہیں۔ کرناٹک، آندھرا پردیش، تمل ناڈو اور مہاراشٹرا کی شناخت ایسی ریاستوں کے طور پر کی گئی ہے جہاں دیو داسیوں کی آبادی سب سے زیادہ ہے۔نیشنل لاء اسکول آف انڈیا یونیورسٹی (NLSIU) کے 2018 کے مطالعے کے مطابق دیو داسی روایت کو متعدد ریاستوں میں خاندانی منظوری حاصل ہے۔ خواتین ہر سال خاندان کی منظوری سے دیو داسی بنتی ہیں۔ NLSIU مطالعہ میں خوفناک تفصیلات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ دیو داسی بننے والیوں میں 92 فیصد نابالغ ہوتی ہیں، ان میں 74 فیصد لڑکیاں 18 سال سے بھی کم عمر میں جنسی تعلقات قائم کر لیتی ہیں اس کی وجہ سے وہ صحت سے متعلق مختلف پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتی ہیں۔ بسا اوقات کم عمری میں انہیں اسقاط حمل کی تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے۔ 2018 کے ٹاٹا انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنسز (TISS) کے مطالعے اور دیگر سروے میں یہ بھی بتایا گیا ہے دیو داسی بننے والی زیادہ تر خواتین کا تعلق سماجی اور معاشی طور پر پسماندہ ذاتوں سے ہے۔
سول سوسائٹی آرگنائزیشنز (CSOs) نے کرناٹک، آندھرا پردیش، تلنگانہ اور مہاراشٹر میں سرکاری سرویوں کا جائزہ لینے کے بعد اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ دیو داسی نظام میں بتدریج کمی آئی ہے مگر مکمل طور پر یہ سلسلہ نہیں رک سکا ہے بلکہ کرناٹک، تمل ناڈوں اور مہاراشٹر میں اب بھی بڑی تعداد میں دیو داسیاں موجود ہیں اور لڑکیاں اب بھی مندروں کے لیے وقف ہو رہی ہیں۔ دراصل 2010 کے بعد کسی بھی ریاستی حکومت یا مرکزی حکومت نے دیو داسی نظام سے متعلق کوئی سروے اور مطالعہ نہیں کروایا ہے۔ اس لیے دیو داسی سے متعلق کوئی حتمی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ البتہ کچھ غیر سرکاری تنظیموں نے سروے کیے ہیں جو حکومت کا تعاون نہ ہونے کی وجہ سے یہ رپورٹس صد فیصد زمینی حقائق کو پیش کرنے سے قاصر ہیں۔1990 میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق 45.9 فیصد دیو داسیاں بڑے شہروں میں جسم فروشی کرتی ہوئی پائی گئی ہیں۔ایک سروے کے مطابق کرناٹک میں 70 ہزار اور آندھرا و تلنگانہ میں 80 ہزار دیو داسیاں مذہب کے نام پر جسمانی استحصال کا شکار ہوئی ہیں۔
آندھرا پردیش سے تعلق رکھنے والی دیو داسی اشممّا کہتی ہے کہ ”صرف محبوب نگر میں ان ناجائز رشتوں سے پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد پانچ سے لے کر دس ہزار تک ہے۔ اس کا سروے ہونا چاہیے۔ اشممّا آگے کہتی ہے کہ ایسے سارے بچوں کا ڈی این اے ٹسٹ کرایا جائے تاکہ ان کے باپوں کا پتہ لگایا جا سکے اور ان کی جائیداد میں ان بچوں کو بھی حقوق مل سکیں۔ کرناٹک میں دیو داسی مہدیارا ویموچنا سنگھ کی ریاستی نائب صدر نگرتنا بتاتی ہیں کہ جنوبی بھارت میں سیکڑوں مقامی دیوتا ہیں جن کے نام پر لڑکیوں کو دیو داسی بنایا جاتا ہے۔ ان میں تین دیویاں ہلاگمما، یللما اور ہوسورما مشہور ہیں ان کے نام پر بھی درج فہرست ذاتوں کی خواتین کو وقف کیا جاتا ہے۔ دیو داسیوں کی کوئی عمر مقرر نہیں ہوتی ہے۔ پانچ سال کی معصوم بچی بھی دیو داسی بن سکتی ہے اور دس سال کی بھی۔ دیو داسی بننے والی لڑکیاں صرف دلت خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ دلت ہکوگڑھ سمیتی شوشن مکتی سنگھ کے سربراہ ستیہ مورتی کہتے ہیں کہ یہ روایت صدیوں سے چلی آ رہی ہے۔ پہلے دیوی دیوتاوں کی خدمت کے لیے لڑکیوں کو وقف کیا جاتا تھا اور اب گاؤں کے سربراہ، سردار یا پھر اعلیٰ ذات کے کسی بھی دبنگ کا کسی لڑکی پر دل آ جائے تو وہ اپنے چیلوں کے ذریعے اس کے گھر والوں پر دیو داسی بننے کا دباؤ ڈالتا ہے۔ وہ جا کر اس کے خاندان والوں کو ڈراتے ہیں کہ تمہارے گھر کی پریشانیاں ختم ہو جائیں گی اگر تم اپنی اس بیٹی کو دیو داسی بنا دو۔ مکتی سنگھ کہتے ہیں کہ ہر دیو داسی کے لیے مندر میں پجاری ہوتے تھے۔ دیوتا کے ساتھ دوبارہ ملنے کے نام پر وہ دیو داسیوں کے ساتھ جسمانی تعلقات استوار کرتے تھے۔ جنوبی بھارت کے مختلف حصوں میں دیو داسیوں کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ اڈیشہ میں مہاری کہا جاتا ہے یعنی عظیم عورت جو اپنی خواہشات پر قابو رکھتی ہے۔ کرناٹک میں انہیں راجداسی، جوگتھی اور دیو داسی کہا جاتا ہے۔ مہاراشٹر میں مرلی، بھاوین، چنناویڈو، کنی گائیر، نتھیا کلیانی، رودرا داسی، تمل ناڈو میں مانیکتر، بھوگم، بسوی، سنی، دیوالی، کیرالا میں کلاونتھلا اور چکیار، کڈیکیار کہا جاتا ہے۔
سخت پابندیوں کے باوجود دیو داسی نظام کیوں جاری ہے؟
یہ سوال آج بہت ہی اہم ہے کہ قانون سازی اور سخت پابندیوں کے باوجود جنوب ہند کی ریاستوں، اڈیشہ اور مہاراشٹر میں یہ منحوس نظام کیوں جاری ہے؟ ملک میں خواتین کا استحصال، انسانی ٹریفکنگ اور بچوں کا اغوا ایک صنعت کے طور پر اختیار کر گیا ہے۔ خواتین کمیشن اور حقوق انسانی کمیشن کی رپورٹیں بتاتی ہیں کہ حکومتیں اس صنعت کو نیست و نابود کرنے میں اس لیے ناکام رہی ہیں کہ اس کے تار سیاسی اور طاقتور افراد سے جڑتے ہیں مگر یہ سب مذہب کی آڑ میں نہیں ہوتے ہیں اس لیے اس کو ایک سماجی لعنت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دیو داسی مذہب اور بھگوان کی خدمت کرنے کے نام پر ہی بنائی جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں دیو داسی نظام غریب ترین طبقات کے ادارہ جاتی جنسی استحصال میں تبدیل ہو گیا ہے۔ دیو داسی بننے والوں میں تقریباً سبھی دلت ہیں، جن میں زیادہ تر کا تعلق ماڈیگا، والمیکی، مہار اور متنگ ذاتوں سے ہے۔ یہ برادریاں بھارت میں سب سے زیادہ پسماندہ طبقات میں سے ہیں۔ ان برادریوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اتنے غریب ہیں کہ لڑکی کے قریبی خاندان والے بشمول والدین یا شوہر لڑکی کو باقاعدہ آمدنی کا ذریعہ بنانے یا انہیں دیو داسی بنانے پر کوئی اعتراض نہیں کرتے ہیں۔ خواتین قومی کمیشن نے اپنے سروے میں 375 دیو داسیوں کا انٹرویو لیا جس میں 63.6 فیصد نوجوان لڑکیوں نے کہا کہ وہ رسم و رواج کی وجہ سے دیو داسی بنی ہیں۔ 38 فیصد نے بتایا کہ ان کے خاندان میں دیو داسیوں کی تاریخ ہے اور 40 فیصد لڑکیاں غربت اور خاندان کی آمدنی میں اضافے کے لیے دیو داسی بنائی گئی ہیں۔
ماہرین عمرانیات اور مورخین کا تجزیہ ہے کہ بھارت میں ذات پات کا نظام صرف سماجی تقسیم تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کے اثرات سے سب سے زیادہ خواتین متاثر ہوئی ہیں۔ ذات پات کے اس نظام نے نہ صرف سماجی تقسیم کی لکیریں کھینچی ہیں بلکہ جنسی تقسیم بھی کی ہے۔ چنانچہ دلت معاشرے کی خواتین کا استحصال سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ ’’سمپرک‘‘ 2015 کی رپورٹ کے مطابق ذات پات کے نظام میں پاکیزگی اور ناپاکی کے روایتی تصورات کی وجہ سے دلت خواتین کے لیبر مارکیٹ کے تجربات اونچی ذات کی خواتین سے مختلف ہیں۔ مندر کے برہمن بچاری اور اونچی ذات کے مرد دیو داسی کے نظام کے ذریعہ ان خواتین کا استحصال اور خواتین کو طوائف بنا کر اپنی سماجی اور معاشی برتری کے اعلان کو تقویت دیتے ہیں۔ خواتین اور دلت ملک میں سب سے زیادہ استحصال شدہ طبقات میں ہیں۔ مگر دیو داسی کے بدنما داغ سے ان کی ذلت اور رسوائی دو چند ہو جاتی ہے یہ تمام عوامل ایک ساتھ مل کر امتیازی سلوک اور جبر کا جال بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ، دیو داسیوں کا مذہبی عقیدہ ہے کہ وہ شادی نہیں کر سکتیں، کیونکہ وہ پہلے ہی بھگوان سے شادی کر چکی ہیں۔ اس اعتقادی نظام کا مطلب ہے کہ وہ معاشرے میں بیوی کا درجہ حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ ان کے بچوں کی قانونی حیثیت اور پرورش کو متاثر کرتا ہے جس سے وہ اور ان کے بچوں کو کمیونٹی میں مزید امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔اچھوت ذات سے تعلق رکھنے کے علاوہ دیو داسیوں کے بچوں کو بھی مزید امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ان کے کوئی تسلیم شدہ باپ نہیں ہوتے۔
گزشتہ 75سالوں میں اگرچہ دیو داسی نظام کے خاتمے کے لیے مختلف سطحوں پر قانون سازی کی گئی ہے مگر کوئی بھی سماجی برائی جو مذہب کی آڑ میں توانا ہوئی ہے اس کا خاتمہ صرف قانون سازی کے ذریعہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے سماجی سطح پر جاری ناانصافی، اصل حالات کا تدارک اور مسائل کی جڑ تک پہنچنا ہوتا ہے۔المیہ یہ ہے کہ گزشتہ 7دہائیوں میں اس سماجی لعنت کے خاتمے کے لیے بنیادی مسائل کی جڑ تک پہنچنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے۔دیو داسیوں اور ان کے بچوں کی بازآباد کاری کے لیے حکومت کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ کچھ ریاستوں میں معمولی معاوضہ دیا جاتا ہے جو زندگی گزارنے کے لیے قطعی نا کافی ہوتا ہے۔
(نوراللہ جاوید صحافت سے گزشتہ 20سالوں سے وابستہ ہیں)
[email protected]
فون:8777308904
***

 

***

 دیو داسیوں سے متعلق نئے اعداد و شمار سے صرف نظر جنوبی ہند کی ریاستوں میں دیو داسیوں کی بدحالی اور ان کی بے بسی سے متعلق حالیہ دنوں میں مختلف اخبارات اور تحقیقاتی مطالعات میں جو حقائق سامنے آئے ہیں وہ رونگٹے کھڑے کر دینے والے ہیں۔ ان رپورٹوں کو پڑھ کریہ یقین نہیں ہوتا کہ یہ اس ملک کی کہانی ہے جو وشو گرو بننے کا خواب دیکھ رہا ہے اور یہ دعویٰ کررہا ہے کہ دنیا کے گونا گوں مسائل کا حل اسی کے پاس ہے اور وہی دنیا کو روشنی دکھا سکتا ہے۔ ایسے میں یہ سوال بہت ہی اہم ہے کہ ایک طرف ملک میں نفرت انگیز مہم کا عفریت ملک کے اتحاد وسلامتی کو خطرے میں ڈال رہا ہے، ملک کی ایک بڑی آبادی کا امن و قانون اور عدالتی نظام سے بھروسا اٹھ رہا ہے تو دوسری طرف ملک میں خواتین کے خلاف جنسی زیادتی کے واقعات میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے۔ آئے دن ملک کے کسی نہ کسی حصے سے خواتین کے خلاف زیادتی کی خبریں اخباروں کی زینت بن رہی ہیں۔ پانچویں اور چھٹی صدی کی دیو داسی کی لعنت کی شکار آج بھی غریب اور دلت خواتین ہو رہی ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے محض خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 اکتوبر تا 05 نومبر 2022