آزادی کا امرت مہوتسو اور ہم

بھارت میں سب سے زیادہ نوجوان لیکن بڑی آبادی ہنر مندی سے عاری

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

ہماری معیشت کی شاندار اور روشن تصویر دنیا میں ہمارے ملک کو آنے والے کل کا قائد بتاتی ہے اور خوب زور و شور سے ڈنکا پیٹا جارہا ہے کہ ہماری معیشت کی شرح نمو سب سے تیز رفتار ہے مگر حقیقت میں ہمارے یہاں بے روزگاری ، روزگار کی غیر یقینی صورتحال اور محنت کی نا قدری بے حد خاموشی سے آہستہ آہستہ سرایت کررہی ہے۔ بقول آر بی آئی کے سابق گورنر پروفیسر راگھو رام راجن کہ بھارتی معیشت میں خوش گوار تبدیلی تو دکھائی دے رہی ہے مگر یہ شرح نمو بے روزگاری سے لیس نمو یعنی جاب لیس گروتھ ہے اگر بے روزگاری کی یہی حالت رہی تو ممکن ہے کہ طلب متاثر ہو۔ طلب میں کمی سے پیداوار کا کم ہونا یقینی ہے۔ جس سے معاشی سرگرمیاں معطل ہوجاتی ہیں۔ دوسری طرف کنٹریکٹ ملازمتوں کا چلن عام ہورہا ہے۔ ہائر اور فائر کی پالیسی پر کاروباری اور صنعت کار عامل ہیں۔ عمر کے ساتھ ساتھ روزگار کی گارنٹی بھی گھٹتی جارہی ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی ہے امیر زیادہ امیر ہورہے ہیں اور غریب دانے دانے کے محتاج ہوکر غربت کی مزید مار جھیل رہے ہیں۔ افسوس صد افسوس کہ ملک کے 80کروڑ لوگ غربت کی وجہ سے گزشتہ سال بھر سے مفت اناج پر منحصر ہیں اور ہم آزادی کا امرت مہوتسو منانے میں محو ہیں۔ ہماری حکومت اور اس سے منسلک ادارے سول سوسائٹیز، جہد کار اور عام لوگ محاسبہ کررہے ہیں کہ ہم نے ساڑھے سات دہائیوں میں کیا کھویا اور کیا پایا؟ ہمارے سامنے سب سے بڑا چیلنج ہے عدم تحمل، ذات پات کی تفریق، مذہبی منافرت کے زہرمیں ڈوبا تشدد ماب لنچنگ جس کا شکار ایس سی ایس ٹی اور اقلیتیں برابر ہورہی ہیں۔ ہرطرف خوف و دہشت کا ماحول ہے۔ گنگا جمنی تہذیب کا جنازہ نکل گیا ہے۔ ہر گھنٹہ عورتوں کی عصمتیں تار تار ہوتی ہیں اور ساتھ ہی دیگر جنسی تشدد بھی۔ بلقیس بانو اس کی زندہ مثال ہے جس کے 11زانیوں اور اس کے کنبے کے 7افراد کے قاتلوں کو محض رہا ہی نہیں کیا گیا بلکہ گلپوشی اور مٹھائی کھلا کر استقبال بھی کیا گیا۔ عدلیہ نے بھی اپنا فرض اچھی طرح سے نبھانا تقریباً بند کردیا ہے۔ 2020-21میں ہم نے کورونا وبا کے قہر کو جھیلا۔ ہمارے یہاں دور دراز کے علاقوں تک شعبہ صحت کی رسائی تقریباً ناپید رہی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 5لاکھ سے زائد افراد لقمہ اجل ہوئے مگر مرنے والوں کی تعداد اس سے 8گنا زیادہ بتائی جاتی ہے۔ کہیں آکسیجن نہیں تو کہیں ہاسپٹلس اور نرسنگ ہومس میں بیڈ نہیں۔ دواوں کی دستیابی کے لیے لوگوں کی دوڑ دھوپ قیامت صغری کا منظر پیش کررہی تھی۔ آج ملک میں دنیا کی سب سے زیادہ نوجوان آبادی ہے۔ آئندہ25 سالوں میں سب سے زیادہ عمر دراز لوگوں کا ملک بن جائے گا۔ ان کے لیے معیاری طبی سہولیات میسر نہ ہوئیں تو ہمارا شمار بیمار ملکوں میں ہوگا۔ ویسے بھی 24کروڑ افراد خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جنہیں بمشکل ایک وقت کا کھانا میسر ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کے 10کروڑ سے بھی زیادہ لوگ شوگر اور ہائی بلڈ پریشر کے مرض میں مبتلا ہیں۔ نصف آبادی کو صاف پانی نہیں ملتا اور ملک کی اکثریت صاف و شفاف ہوا کو ترس رہی ہے۔ آج کل ملک میں موسمیاتی تبدیلی کا نظارہ صاف صاف دیکھا جاسکتا ہے۔ سال در سال قدرتی آفات سے ملک کی بڑی آبادی کو واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ کہیں سوکھا تو کہیں سیلاب۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سمندری طوفانوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ اس میں نشیبی علاقوں میں بسنے والی بڑی آبادیوں کا سب کچھ لٹ جاتا ہے۔ بڑی کسمپرسی کے عالم میں ان کی زندگی گزرتی ہے۔ ہمارے ملک کے پالیسی ساز کارپوریٹس کی ملی بھگت سے ترقی کے نام پر جنگلوں کو کاٹ کر کنکریٹ کا جنگل بسارہے ہیں اور دور دراز علاقوں کو کھود کھود کر تہس نہس کررہے ہیں۔ ان علاقوں سے لوگ نقل مکانی کرکے دو وقت کی روٹی کی خاطر شہروں کی گندی بستیوں میں بستے جاتے ہیں۔ چھوٹے کسان، مزدور اور محنت کش رکشا کھینچتے ہیں اور غیر ہنر مند لوگ بھیک مانگنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
ہم نے آزادی کا امرت مہوتسومناتے ہوئے ایسی بے مثال ترقی کی ہے جس پر ہمارا ملک بجا طور پر فخر کرتا ہے۔ مگر ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے تاکہ ہمارے ملک کے باشندے اپنی قلیل ترین ضرورتوں کے ساتھ با عزت زندگی گزار سکیں۔ ہمارے ملک کی آبادی آزادی کے بعد تقریباً چار گنا بڑھی ہے۔ اب ہمارا ملک 1.4ارب کی آبادی کے ساتھ چین کے بعد دنیا کی سب سے بڑی آبادی ہے۔1947میں 20 کروڑ لوگ خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کررہے تھے۔ آج 75سالوں کے بعد بھی 24کروڑ افراد بی پی ایل ہیں۔ اس معاشی ترقی کے ساتھ فی کس آمدنی365روپے سے بڑھ کر1.28لاکھ روپے ہوگئی ہے جو عالمی پیمائش (انڈیکس) سے کافی کم ہے۔ غریبوں کی کل آبادی 80فیصد سے کم ہوکر 20فیصد ہوگئی ہے مگر یہ بھی بڑی تعداد ہے۔ آزادی کے بعد پہلی چار دہائیوں میں ہر شہری کو ضروریات زندگی روٹی، کپڑا اور مکان فراہم کرنے پر زور دیا گیا۔ اس کے بعد کی دہائیوں میں پانی، بجلی اور سڑک وغیرہ پر دھیان دیا گیا۔ اس طرح 90فیصد گھروں میں بجلی پہنچانے کے علاوہ فی کس اناج کی فراہمی دوگنی کی گئی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ 80فیصد شہری آبادی میں پانی کی ہمہ وقت فراہمی ہورہی ہے۔ ساتھ ہی وہاں بیت الخلا بھی ہیں اور باورچی خانہ میں گیس سلنڈر بھی۔ مگر40فیصد سے زائد دیہی باشندے پر مشقت زندگی گزار نے پر مجبور ہیں۔ ان 45کروڑ افراد کو ان کی ضروریات زندگی مہیا نہ کی گئیں تو ہم کسی طرح بھی ترقی یافتہ کہلانے کے حقدار نہیں ہوسکتے۔ اس کے علاوہ ہمارا تعلیمی نظام انتہائی ناقص ہے اگرچہ ملک کی شرح خواندگی 74فیصد ہے۔ ہمارا نظام تعلیم تین خانوں میں منقسم ہے۔ انگریزی میڈیم جہاں سے گورنمنٹ کے عملے اور لیڈرس تیار ہوتے ہیں دوسرا درجہ ہندی میڈیم کا ہے جس سے کلرک، سپر وائزر اور پولیس کے کارندے تیار ہوتے ہیں جبکہ تیسرا درجہ علاقائی زبانوں پر مشتمل ہے ویسے ملک کی بڑی آبادی ہنر مندی سے عاری ہے۔
ہماری معیشت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت کی دوڑ میں ہے۔ 1947میں بھارت کی جی ڈی پی دنیا کی جی ڈی پی کا محض تین فیصد یعنی 2.7لاکھ کروڑ تھی اور آج 2021میں دنیا کی جی ڈی پی کا 9.5فیصد (بحوالہ آئی ایم ایف) یعنی 3.5بلین ڈالر یا 285کروڑ روپے ہے۔ انگریزی استعمار سے قبل 1700میں بھارت کی معیشت دنیا کی سب سے بڑی معیشت تھی۔ غذائی پیداوار 1947میں 5کروڑ ٹن تھی۔ مگر آج 5گنا بڑھ کر 25کروڑ ٹن ہوگئی ہے۔ پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم (پی ڈی ایس) میں بدعنوانی کے نتیجے میں 22کروڑ لوگ بھکمری کا شکار ہیں۔ سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں بھی ہم نے قابل قدر ترقی ہے۔ سورج پر کمندیں ڈال رہے ہیں مگر ہم انسانی قدروں کو بھلاکر دور ظلمت میں جی رہے ہیں۔ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن کر درندوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ ہے نیا بھارت۔ اس لیےاقبال نے کہا تھا جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا۔ زندگی کی شب تاریک کی سحر نہ کرسکا۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  04 ستمبر تا 10 ستمبر 2022