عالم اسلام پر واقعہ کربلا کے سائے

سرفروشی کی داستان دہرائی جاتی رہتی ہے

پروفیسر محسن عثمانی ندوی

لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ عالم اسلام میں اور خاص طور پر عرب دنیا میں ہمیشہ خلفشار کیوں برپا رہتا ہے، لوگ بغاوتیں کیوں کرتے ہیں، خون ریزی کیوں ہوتی ہے، ہزاروں کو جیل میں کیوں بند کیا جاتا ہے، احتجاجات کیوں ہوتے ہیں، آتش و آہن کا تماشا ہر روز کیوں ہوتا ہے، لوگوں کو تختہ دار پر کیوں چڑھایا جاتا ہے، وہاں تانا شاہی حکومت کیوں قائم ہو جاتی ہے۔ دنیا میں ہر جگہ جمہوریت ہے لیکن عرب دنیا میں ڈکٹیٹرشپ اور مطلق العنان حکومتیں ہیں۔ دنیا میں عوام کی اکثریت صورت حال کی صحیح توجیہ نہیں کرپاتی ہے، خواص بھی صحیح نتیجہ تک نہیں پہنچ پاتے ہیں، بڑے بڑے سیاسی مبصر اور عالمی صحافت کے محلل اور دیدہ ور بھی صحیح نتیجہ تک پہنچنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ دنیا کے ان دانش وروں کو وہ فرق نہیں معلوم ہے جو اسلام اور دوسرے مذاہب میں پایا جاتا ہے۔ دنیا کے دوسرے مذاہب میں کبھی کبھی عبادت خانوں میں جانا اور اتوار کے دن یا کسی خاص دن عبادت کر لینا کافی ہوتا ہے۔ دوسرے مذاہب میں جامع نظام زندگی کا تصور ہی نہیں پایا جاتا ہے اور نہ ان مذاہب کے ماننے والوں کا دعویٰ ہے۔ وہ اسلام کو بھی اپنے مذہب پر قیاس کرتے ہیں جبکہ اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے، وہ صرف عبادات کا مجموعہ نہیں بلکہ اس کا اپنا سیاسی نظام بھی ہے، اقتصادی نظام بھی ہے اور اس کے اپنے بین الاقوامی قوانین بھی ہیں۔ اب اگر مسلم حکومتوں میں اسلام کے جامع نظام پر عمل نہیں ہوگا، شریعت نافذ نہیں ہوگی خلافت راشدہ والا شورائی نظام قائم نہیں ہوگا تو باشعور دینی جماعتوں میں اور صحیح الفکر علماء کے حلقوں میں بے چینی کا پیدا ہونا قابل قیاس ہے۔
اسلام کی تاریخ میں خلافت راشدہ کے بعد اسلامی نظام حکومت وسیاست کی گاڑی پٹڑی سے اتر گئی تھی، جمہوریت کا عنصر غائب ہو گیا تھا۔ شورائی نظام ختم ہو گیا تھا آمرانہ نظام اور موروثی نظام قائم ہوگیا تھا۔ امیر معاویہ کے دربار میں ایک صحابی رسول آتے ہیں اور کہتے ہیں ’’بادشاہ سلامت کی خدمت میں سلام قبول ہو‘‘ امیر معاویہ نے کہا: ’’اچھا ہوتا کہ تم مجھے امیر المؤمنین کہہ کر مخاطب کرتے‘‘ اسلامی سیاست میں زبردست انحراف پیدا ہو گیا تھا، اس کا احساس سب کو تھا، لیکن پھر بھی اسلامی شریعت نافذ تھی، اسلامی قانون پر عمل ہوتا تھا، اسلامی قانون کی تدوین کا کام بھی بڑے پیمانے پر جاری تھا اور بڑے بڑے فقہاء اس کام میں مشغول تھے، علم و ہنر اور سائنس وصنعت میں بھی مسلمانوں کی پیش رفت جاری تھی، فتوحات نے دنیا کے کئی بر اعظموں کو اسلام کے اقلیم میں داخل کر دیا تھا، مسلمانوں کے اہل علم اور اہل دین حکومت سے ناراض ضرور تھے، کیونکہ سیاست و حکومت کے نظام میں انحراف داخل ہو گیا تھا، لیکن معاشرہ میں خیر کا پہلو غالب تھا، اس کے علاوہ انقلاب کی جو کوششیں ہوئیں وہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکیں اور زمین خون سے لالہ زار ہو گئی۔ امام حسین نے کربلا میں اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دی۔ عبداللہ بن زبیر نے بھی آمرانہ حکومت کو ختم کرنے کے لیے اپنی جان کی قربانی دیدی۔ اس لیے اس عہد میں زیادہ تر علماء سیاست سے کنارہ کش ہو کر علمی اور تربیتی کاموں میں مشغول رہے۔ اہل بیت میں سے بہت سے بزرگ تبدیلی کی کوشش کرتے رہے اور اپنی جانوں کی قربانی دیتے رہے لیکن ماضی کے برعکس عصر حاضر میں ہوا یہ کہ اسلامی جمہوریت اور خلافت کا ہی خاتمہ نہیں ہوا، صرف شورائی نظام ہی ختم نہیں ہوا بلکہ اسلامی قانون کو بھی دیس نکالا دیا گیا، اسلامی شریعت کو بھی منسوخ کر دیا گیا اور مسلم ممالک مغرب کے غلام ہو گئے۔ تعلیمی اداروں نے ذہن وفکر کو مغرب کا غلام بنا دیا۔ مصر، شام اور عراق میں تمام حکمراں مغربی تہذیب کے پروردہ تھے اور مغربی تہذیب کے طوفان میں اسلام مسجدوں میں محصور ہو کر رہ گیا۔ حرمین شریفین کی سرزمین میں فسق و فجور کے مراکز حکومت کی سر پرستی میں اور ولی عہد کی نگرانی میں قائم کیے جانے لگے۔
ان جاں گسل حالات میں اور مغربی تہذیب کے غلبہ کے زمانہ میں عرب ملکوں میں دین و شریعت کے ماہرین اور اہل علم اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے کہ حکومت کو صحیح راستہ پر لے چلیں، وہ اپنے مطالبات پیش کرتے تھے، رائے عامہ ہموار کرتے تھے، حکومت پر تنقید کرتے تھے اور اپنے قلم کی ادبی طاقت سے احتجاج کرتے تھے۔ دینی تنظیمیں قائم کرتے تھے۔ اخوان المسلمون جیسی بہت سی تنظیمیں قائم ہوئیں لیکن زیادہ تر حکمرانوں کے سامنے آئیڈیل حکومت مغربی ملکوں کی حکومت ہوتی تھی۔ یہ حکمراں زیادہ تر مغربی ملکوں کے تعلیم یافتہ اور وہیں کے ماحول کے پروردہ ہوتے تھے، وہ اسلام کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے، وہ نفاذ شریعت کے مطالبات پیش کرنے والی دینی تنظیموں پر سختیاں کرتے تھے، اسلامی مفکروں کو تختہ دار پر لٹکاتے تھے۔ کشمکش اور کشاکش کا یہیں سے آغاز ہوتا ہے اور اس آغاز کا انجام یہ ہوتا ہے کہ یہدینی تحریکات تاریک خیال تنگ نظر اور پھر دہشت گرد قرار پاتی ہیں، اور ان تحریکات کے قائدین کو پابند سلاسل کیا جاتا ہے اور یہ دینی تحریکات پھر بھی باز نہیں آتی ہیں تو ان کے قائدین کو تختہ دار پر بھی چڑھا دیا جاتا ہے۔ عوام کے احتجاج کو فوج کی طاقت سے کچل دیا جاتا ہے، یہی ہر جگہ کا ہر عرب ملک کا قصہ ہے، یہی ہر زمانہ کی تاریخ ہے۔ کچھ علماء ہمت کرکے سامنے آتے ہیں اور کچھ علماء یہ دیکھ کر کہ کوئی تبدیلی ممکن نہیں، خاموشی کے ساتھ تدوین علوم اور تصنیف وتالیف اور تعلیم وتدریس اور تزکیہ نفس اور تربیت کے کاموں میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ علماء کی قیادت کی صف میں غالب اکثریت ان لوگوں کی ہے جن پر متصوفانہ رنگ غالب رہتا ہے، وہ اس پر مطمئن ہوجاتے ہیں کہ نماز پڑھنے عبادت کرنے حج اور عمرہ کرنے کی اجازت موجود ہے۔ ان کے نزدیک دین صرف عقائد عبادات اور اخلاقیات کا نام ہے، لیکن کچھ دوسرے علماء اس پر مطمئن نہیں ہوتے، ان کے نزدیک اسلام مکمل نظام زندگی ہے۔ اگر اسلام کا سیاسی اور معاشی نظام نافذ نہیں ہے اگر حکومت کا ڈھانچہ خلافت راشدہ کے شورائی نظام کے بجائے یزید کے موروثی نظام والا ہے اور فسق وفجور کو فروغ دیا جارہا ہے تو بہت سے علماء امام حسین کی تقلید میں جدوجہد اور جہاد ضروری سمجھتے ہیں۔ کچھ علماء اور غیرت مند مسلمان قربانیاں دینے کے لیے بھی تیار ہو جاتے ہیں۔ علماء کے رویہ میں جو فرق پایا جاتا ہے وہ تصور دین کے فرق کی وجہ سے ہے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک حکومت سے کشمکش ضروری ہے کچھ دوسرے لوگوں کی نزدیک کشمکش اور کشاکش کی ضرورت نہیں۔ اس کی توجیہ اس طرح بھی کی جاسکتی ہے کہ کچھ علماء رخصت پر عمل کرتے ہیں اور کچھ دوسرے علماء عزیمت کا کردار ادا کرتے ہیں۔ مصر سعودی عرب اور کئی ملکوں میں بہت سے علماء نے قربانیاں دی ہیں، انہوں نے امام حسین کی سنت تازہ کی ہے۔ یہ سب واقعہ کربلا کے دراز ہوتے ہوئے سائے ہیں۔ یہ سائے ہمیشہ موجود رہیں گے جن سے ظالم حکومتیں خوفزدہ رہیں گی اور ظلم کی چکی میں علماء حق کو پیستی رہیں گی۔ انقلاب کا پرچم بلند کرنے والے علماء اور اشخاص کبھی کامیاب ہوں گے اور کبھی جام شہادت نوش کریں گے۔ آج بھی مصر میں اور حرمین شریفین کی سرزمین میں سیکڑوں علماء دین اور مفکرین تعذیب کا شکار ہو رہے ہیں۔ اسی لیے ماہر القادری کو اپنے مشہور سلام میں اس حقیقت کا ذکر بھی کرنا پڑا:
سلام اس پر کہ جس کے نام لیوا ہر زمانے میں
بڑھا دیتے ہیں ٹکڑا سرفروشی کے فسانے میں
***

 

***

 مصر سعودی عرب اور کئی ملکوں میں بہت سے علماء نے قربانیاں دی ہیں، انہوں نے امام حسین کی سنت تازہ کی ہے۔ یہ سب واقعہ کربلا کے دراز ہوتے ہوئے سائے ہیں۔ یہ سائے ہمیشہ موجود رہیں گے جن سے ظالم حکومتیں خوفزدہ رہیں گی اور ظلم کی چکی میں علماء حق کو پیستی رہیں گی۔ انقلاب کا پرچم بلند کرنے والے علماء اور اشخاص کبھی کامیاب ہوں گے اور کبھی جام شہادت نوش کریں گے۔ آج بھی مصر میں اور حرمین شریفین کی سرزمین میں سیکڑوں علماء دین اور مفکرین تعذیب کا شکار ہو رہے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 اگست تا 12 اگست 2023