آخری سفر

حمیرا علیم

زندگی کس قدر ناقابل بھروسہ اور بے ثبات ہے اس کے بارے میں ہم سب ہی جانتے ہیں لیکن روزمرہ کی گہما گہمی میں گم ہو کر بھول جاتے ہیں۔ بعض حادثات موت کے بارے میں ایسی یقین دہانی کروا جاتے ہیں کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ پچھلے دنوں ہمارے ساتھ بھی ہوا۔
میری کزن نہایت ہی صابر خاتون ہیں جنہوں نے زندگی کے نشیب و فراز تو دیکھے ہی تھے کینسر سے جنگ بھی جیتی تھی۔ ان کے تین بچے ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں۔ماشاء اللہ بڑے دونوں بچے شادی شدہ اور بچوں والے ہیں۔ باجی اپنی چھوٹی بیٹی کے رشتے کے لیے پریشان تھیں اور سب ملنے جلنے والوں سے ہمیشہ اس کے لیے دعا کرنے کے لیے کہتی تھیں۔
یہ لڑکی کم عمر، خوبصورت تعلیم یافتہ اور سب سے بڑھ کر دین کا علم بھی رکھتی تھی اور درس بھی دیا کرتی تھی مگر اللہ تعالٰی نے ہر چیز کا وقت مقرر کر رکھا ہے اس لیے چند ماہ پہلے اس بچی کا بہت اچھے لڑکے سے رشتہ پکا ہو گیا اور پچھلے دو ماہ سے شادی کی تیاریاں جاری تھیں۔ شادی عید الاضحٰی کے بعد اور محرم سے پہلے طے کی گئی۔ چونکہ باجی کی سب سے چھوٹی بیٹی کی شادی تھی لہذا سب رشتے دار شرکت کرنا چاہتے تھے جن میں دلہن کی بڑی بہن انگلینڈ سے اور خالہ بحرین سے آئیں۔ ننھیال ددھیال سمیت سب دوست و احباب شرکت کی اور اپنی دعاؤں کے ساتھ اسے رخصت کیا اور وہ رخصت ہو کر کشمیر چلی گئی۔
ہم سب خوش تھے کہ باجی کی آخری ذمہ داری بھی احسن طریقے سے پوری ہوئی اور اب ہر طرف سے سکون ہی سکون ہو گا۔مگر کاتب تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا۔جیسا کہ رواج ہے کہ دلہن ولیمے والے دن اپنے والدین کے گھر آتی ہے۔ تو اس جوڑے کا بھی یہی پروگرام تھا مگر اسی دن سواں پل راولپنڈی پر حادثے کی وجہ سے سب نے انہیں منع کر دیا۔ چنانچہ اگلے روز دلہا دلہن، دلہا کی والدہ، بھائی اور بہن راولپنڈی کے لیے روانہ ہوئے۔
باجی اور دیگر خاندان کے لوگ خوشی خوشی ان کے استقبال اور کھانے کا اہتمام کر رہے تھے۔ دلہن بھی خوب سج سنور کر والدین اور بہن بھائیوں سے ملنے کے لیے آ رہی تھی۔ جب متوقع وقت پر ان کی آمد نہ ہوئی تو دلہا کے فون پر کال کی گئی جسے کسی اجنبی نے ریسیو کیا اور اندوہناک خبر سنائی۔
چک بیلی کے قریب دلہن والی سائیڈ کا کار ٹائر برسٹ ہوا اور کار کا دروازہ کھل گیا دلہن باہر گری اور موقع پر ہی دم توڑ گئی۔باقی سب بھی بری طرح زخمی ہوئے۔ پولیس اور دیگر لوگوں نے انہیں راولپنڈی ڈسٹرکٹ ہاسپٹل پہنچایا۔ سب کی حالت بہت سیریس تھی۔ یہ سن کر والدین بہن بھائیوں اور ان سب پر کیا گزری ہو گی اس کا تصور بھی محال ہے۔ کون جانتا تھا کہ جس کی شادی میں شرکت کے لیے آئے تھے اس کے جنازے میں بھی شریک ہونا پڑے گا۔ وہ خاندان جس نے اپنی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بہن بیٹی کو نئی زندگی کے سفر پر خوشی خوشی بھیجا تھا ان کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اپنی دو دن کی دلہن بیٹی کو سفید کفن میں دیکھیں گے۔ وہ ماں جو بیٹی اور اس کی سسرال کی تواضع کے لیے صبح سے خوش وخرم پھر رہی تھی اس کے تو اوسان ہی خطا ہو گئے۔ کسے معلوم تھا کہ جس خاتون کو وہ خوش قسمت تصور کر رہے تھے اور یہ سوچ رہے تھے کہ اب اسے کوئی فکر نہیں ہو گی اس پر یوں کوہ غم ٹوٹ پرے گا۔
کیا اس دلہن نے یہ تصور بھی کیا ہو گا کہ یہ اس کا آخری سفر ثابت ہو گا۔ ابھی تو شاید اس نے زندگی گزارنے کا کوئی پلان بھی نہیں بنایا ہو گا۔ وہ اپنے گھر والوں سے ملنے کے لیے کتنی پر جوش تھی ہوگی۔ کیسے دل سے تیار ہوئی ہو گی۔ جن سے ملنے کے لیے آرہی تھی ان سے ملاقات تو ہوئی مگر اس طرح نہیں جیسے سب نے سوچا تھا۔ وہ بھائی، والد، ماموں اور چچا جنہوں نے اسے تھام کر شادی کے لیے سجائی گئی کار میں بٹھایا تھا اب اس کے جنازے کو کندھا دے رہے تھے۔
اللہ تعالٰی کی مصلحتیں وہی جانتا ہے۔لیکن ایسے حادثات دکھی کر دیتے ہیں۔ جس جس نے یہ خبر سنی اشکبار ہو گیا۔ ذرا سوچیے جب دلہا اور اس کا خاندان ہوش میں آئیں گے تو ان کا کیا حال ہو گا۔ اس کے والد اور دیگر رشتے داروں پر بھی قیامت ہی گزری ہو گی۔
کسی نے کہا شاید وہ اس حادثے کے بارے میں جان جاتے تو کبھی یہ سفر نہ کرتے۔ میرا ماننا ہے کہ اللہ تعالٰی نے ان سب کا ساتھ لکھا تھا۔ اس بچی کو دو دن سسرال میں گزارنے تھے اپنے قدم وہاں دھرنے تھے جہاں تقدیر نے لکھا تھا وہ رزق پورا کرنا تھا جو اس گھر میں اس کے مقدر کا تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس مقام پر پہنچنا تھا جہاں اسے جان دینی تھی۔ باجی نے تو اسے روکنے کی کوشش کی اور وہ اس دن آئی بھی نہیں کیونکہ اس کا آخری وقت تو اگلے دن کا تھا۔ اللہ تعالٰی بندے کو ہر حال میں اس جگہ پہنچا ہی دیتے ہیں جہاں عزرائیل (علیہ السلام) کو اپنی ڈیوٹی پوری کرنے کا حکم ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ اولاد کا دکھ کسی کو بھی نہ دکھائے۔ سب کے بچوں کو تندرستی اور اپنی حفاظت کے حصار میں رکھے۔ قارئین سے دعاؤں کی التجا ہے کہ اللہ تعالٰی دلہن کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور جو زخمی ہیں انہیں تندرستی عطا فرمائے۔آمین۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 اگست تا 12 اگست 2023