40سال سے کم عمر افراد ہارٹ اٹیک کے شکار کیوں ہورہے ہیں؟
معمولات زندگی کو بہتر بنائے بغیر صرف ورزش بہتر صحت کے لیے کافی نہیں
دعوت نیوز کولکاتا بیورو
منشیات کی لت نوجوانو ں کو تباہی کی طرف لے جارہی ہے۔کام سے لطف اندوز ہوں تناو کودعوت نہ دیں
حالیہ برسوں میں نوجوانوں کے دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے موت کے واقعات میں اضافہ درج کیا گیا ہے۔ کئی مشہورشخصیات جن سے متعلق یہ گمان کیا جاتا تھا کہ وہ اپنی زندگی میں مطمئن ہیں، انہیں کسی قسم کے تناؤاور پریشانیوں کا سامنا نہیں ہے مگر ان ہم شخصیات کی کم عمری میں دل کا دوڑہ پڑنے کی وجہ سے موت ہوگئی ہے۔محکمہ صحت سے وابستہ ماہرین بتاتے ہیں بڑی تعداد میں نوجوان دل کی بیماری ک شکار ہو رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اپنی زندگی میں مطمئن اور کامیابیوں کی منزل طے کرنے والے نوجوان دل کی بیماری کا شکار کیوں ہو جاتے ہیں؟ جب کہ ورزش ان کی زندگی کا حصہ تھا۔ماہرین کی نگرانی میں ورزش کرنے کے باوجود دل کی بیماری میں مبتلا ہوجانا اور اس کی وجہ سے موت واقع ہو جانا حیرت انگیز ہے اور ان لوگوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ورزش کرنے کی وجہ سے دل کی بیماریوں سے محفوظ ہیں۔ورلڈ اکنامک فورم کی ایک رپورٹ کے مطابق کم عمری میں مرنے والوں میں پچاس فیصد افراد کی ذیابیطس اور دل کی بیماری سے موت ہوتی ہے۔ طبی ماہر نفسیات مونیکا شرما بتاتی ہیں کہ ڈپریشن، پریشانی اور سماجی تنہائی بھی دل کے دورے کا باعث بنتی ہیں۔ منفی جذبات جیسے دشمنی، غصہ، ڈپریشن اور پریشانی دل کی بیماری کی اہم وجوہات ہیں۔خوش رہنا، مثبت سوچنا اور دوستوں اور خاندان کے ساتھ رابطے میں رہنا دل کی بیماری اور دیگر بیماریوں کی سطح کے امکانات کو کم کرتے ہیں۔
کورونا وبا کے بعد بھارت میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں دل کی بیماری سے مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔رپورٹ کے مطابق وبائی مرض کی شروعات سے قبل دل کے دورے سے 143,787 اموات ہوتی تھیں مگر اب اس میں 14فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ماہرین بتاتے ہیں کہ کہ فلو جیسے انفیکشن سے امراض قلب اور دل کا دورہ پڑنے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے، لیکن دل کے دورے سے ہونے والی اموات میں جو اضافہ ہواہے اس سے قبل اس طرح کے حالات پیدا نہیں ہوئے تھے۔ وبائی امراض کی وجہ سے پیدا ہونے والی نفسیاتی اور سماجی چیلنجز بشمول ملازمت سے محرومی، مالی نقصانات، گھر کے کئی عزیزوں کو کھو دینے کا غم وہ اسباب ہیں جو دل کی بیماری کا باعث بنتے ہیں۔
ڈاکٹر امیت پی گاؤنڈے، کنسلٹنٹ پلومونولوجسٹ اور کریٹیکل کیئر اسپیشلسٹ بتاتے ہیں کہ نوجوانوں کو ہارٹ اٹیک کے خطرے کی تین وجوہات ہیں۔ بنیادی وجہ ہائی بلڈ پریشر کی تشخیص نہ ہونا ہے کیوں کہ جب تک کسی کو کوئی مسئلہ نہ ہو کوئی بھی اس کی جانچ نہیں کرواتا، خاص طور پر جب آپ جوان ہوں۔ دوسری وجہ حد سے زیادہ سگریٹ نوشی ہے۔ بھارت میں تمباکو نوشی کرنے والوں کی تعداد 267 ملین سے زیادہ ہے اور یہ عادت سب سے زیادہ دل کو متاثر کرتی ہے۔ تیسرا طرز زندگی اور تناؤ ہے۔مشہور شخصیات کی حالیہ دنوں میں جو اموات ہوئی ہیں اس کے پیچھے بھی اصل وجہ یہی ہے کہ ان پر اپنی کامیابی کے ریکارڈ کو برقرار رکھنے کا بہت زیادہ دباؤ ہوتا ہے۔ناکامی کا خوف ستانے لگتا ہے۔ مسابقت نے انسان کو مشین بنادیا ہے۔ذاتی اور پیشہ وارانہ زندگی کا فرق ختم ہوگیا ہے۔چوپیس گھنٹے کام کا دباؤ ہے۔ڈاکٹر امیت پی گاؤنڈے بتاتے ہیں کہ انسان کو کم مسابقتی ہونے کی ضرورت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ کسی کو مسابقتی فریم میں نہیں آنا چاہیے کیونکہ جو آپ کا ہے وہ آپ کے راستے میں آئے گا۔ آئیے مزہ کریں جب ہم کام کر رہے ہوں تو اس سے لطف اٹھائیں۔ ماہرین یہ بھی بتاتے ہیں کہ طرز زندگی کی یہ تمام تبدیلیاں ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر جیسی بیماریوں کے خطرے کو بڑھا رہی ہیں یہاں تک کہ ان لوگوں میں بھی جو بیس اور تیس سال کی عمر کے ہیں۔
اس لیے ورزش کے ساتھ طرز زندگی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔اگر طرز زندگی میں تبدیلی نہیں لائی جاتی ہے تو ورزش کا کوئی اثرنہیں ہوتا ہے۔شراب نوشی، سگریٹ نوشی، راتوں کو دیر تک جاگنا اور زندگی میں عدم توازن کے ساتھ ورزش کے نتائج بہتر نہیں ہوسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں ورزش میں بھی اعتدال ضروری ہے۔ موٹاپے سے بچنے اور جسم کی نشو ونما کو بہتر رکھنے کے لیے کبھی کبھی ورزش میں عدم توازن بھی ہارٹ اٹیک کا سبب بن جاتا ہے۔
تاہم سوال یہ بھی اہم ہے کہ آخر کونسی ورزش مفید ہے اور اس کو کس قدر کرنا چاہیے۔اس سوال کے جواب میں فورٹیس ایسکارٹس ہارٹ انسٹی ٹیوٹ میں انٹروینشنل کارڈیالوجی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر وشال رستوگی کہتے ہیں کہ ”پش اپس“ اور اعتدال پسند ورزشیں دل کی برداشت کی حد کو بہتر بنا کر بلڈ پریشر کو کم کرتی ہیں، تناؤ کے ہارمونز کو کم کرتی ہیں، ایل ڈی ایل کو کم کرتی ہیں اور اینڈورفنز کو خارج کرتی ہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق چونکہ ورزش کی یہ شکل ایک ساتھ کئی عضلاتی گروپوں پر کام کرتی ہے اس لیے یہ کارآمد ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ”پش اپس“ میں زیادہ شدت نہیں ہوتی ہے۔تاہم پش اپس کے دوران دل کی دھڑکن کی نگرانی کرنی ضروری ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کی 2019 میں کی گئی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ”پش اپس“ دل کے دورے، فالج اور دیگر جان لیوا بیماریوں سے بچانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ JAMA نیٹ ورک اوپن کے فروری 2019 کے شمارے میں شائع ہونے والے مضمون میں کہا گیا ہے کہ جو مرد تیس سیکنڈ میں کم از کم چالیس پش اپس مکمل کر سکتے ہیں ان میں ہارٹ اٹیک، ہارٹ فیل ہونے یا قلبی امراض کا خطرہ نمایاں طور پر کم تھا۔ ایک پش اپ آپ کے جسم کو اوپر سے نیچے تک مشغول رکھتا ہے۔ یہ ایک ساتھ کئی عضلاتی گروہوں پر کام کرتا ہے۔ بازو، سینے، پیٹ، کولہے اور ٹانگیں۔ اس کے علاوہ، وہ آسانی سے قابل ترمیم ہیں۔ آپ اپنے آرام کی سطح کے مطابق زاویہ اور رفتار کو ایڈجسٹ کرسکتے ہیں۔ مگر اس کا دورانیہ کیا ہونا چاہیے اور ہفتے میں کتنے دن ورزش مفید ہوگی اس کے لیے ماہرین بتاتے ہیں کہ اگر کوئی شخص چالیس سال کا ہے تو اس کے دل کی دھڑکن 180 سے آگے نہیں بڑھنی چاہیے۔ اگر ورزش کے دوران دل کی دھڑکن 180 سے اوپر جا رہی ہو تو یہ اچھی بات نہیں ہے اور اسے فوراً روک دینا چاہیے۔ ایک ہی وقت میں اگر آپ کے دل کی دھڑکن 160 یا 150 ابتدائی طور پر ورزش اور دل کی دھڑکن کی نگرانی کی جانی چاہیے اور ایک بار جب یہ مشق کے ساتھ تال میں آ جائے تو یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
***
اگر کوئی شخص 40 سال کا ہے تو اس کے دل کی دھڑکن 180 سے آگے نہیں بڑھنی چاہیے۔اگر ورزش کے دوران دل کی دھڑکن 180 سے اوپر جارہی ہو تو یہ اچھی بات نہیں ہے اور اسے فوراً روک دینا چاہیے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 جنوری تا 07 جنوری 2023