خبرونظر

پرواز رحمانی

مسلمانوں سے قربت کی یہ کوشش
خبر ہے کہ 2024 کے عام انتخابات کے لیے بی جے پی مسلم شہریوں کو رام کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کے لیے اس نے یو پی میں ایک بڑی مہم کا پروگرام بنایا ہے جس پر عیدالفطر کے بعد عمل ہوگا۔ پروگرام کے مطابق معتد بہ تعداد والے مسلم علاقوں میں بڑے بڑے جلسے کیے جائیں گے جن میں پارٹی کے بڑے لیڈر شریک ہوں گے۔ مسلمانوں کی فلاح و ترقی کے لیے کچھ نئی اسکیمیں بھی بنائی جائیں گی وغیرہ۔ یہ پارٹی کا کوئی انوکھا یا نیا منصوبہ نہیں ہے۔ پارٹی اپنے جن سنگھ کے زمانے سے یہ تجربات کرتی آ رہی ہے لیکن ان تجربات کے ساتھ ساتھ اس کا اصل ایجنڈا بھی جاری رہتا ہے۔ گویا اس کے تجربات متضاد ہوتے ہیں۔ وہ ایک طرف مسلم شہریوں کے لیے کوئی مثبت پروگرام بناتی ہے مگر فوراً ہی کوئی منفی اعلان کر دیتی ہے۔ 2013 میں جب گجرات کے وزیر اعلیٰ کی ہوا بنائی جا رہی تھی اور 2014 کے لوک سبھا کے انتخابات کا اعلان بھی ہوچکا تھا، اعلان کیا گیا تھا کہ پارٹی کے مینیفیسٹو یعنی انتخابی منشور کے ساتھ مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ منشور پیش کیا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا، مجوزہ منشور پہلے ملتوی ہوا پھر منسوخ کردیا گیا۔
وگیان بھون کا وہ بھاشن
2020 یا 2021 میں آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت نے تین دن کا ایک غیر معمولی پروگرام وگیان بھون میں کیا۔ تین دنوں کے لگاتار بھاشن میں مسلمانوں سے متعلق کئی مثبت باتیں کہیں، جن سے مبصرین کہنے لگے کہ سنگھ مذہبی اقلیتوں کے بارے میں اپنی پالیسی بدل رہا ہے لیکن اس کے چند ہی روز بعد بھاگوت نے اپنی مرکزی حکومت کو مشورہ دیا کہ اسے رام مندر کی تعمیر کے لیے پارلیمنٹ میں قانون بنالینا چاہیے۔ اس تضاد کی بہت سی مثالیں ہیں جس کی وجہ سے مسلمان تازہ اعلان پر اعتبار کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔ اپوزیشن پارٹیاں بھی مسلم شہریوں کو محتاط رہنے کا مشورہ دے رہی ہیں۔ وہ صحیح کہہ رہی ہیں کہ پہلے مسلمانوں کے اندر اعتماد پیدا کرو پھر یہ کام کرو۔ ایک طرف تم نے گالیاں دینے کے لیے اپنے آدمی کھلے چھوڑ رکھے ہیں اور دوسری طرف مسلمانوں کی فلاح و بہبود کی باتیں کر رہے ہو؟ بی جے پی ایک سیاسی پارٹی ہے اور شہریوں کے ہر طبقے سے سیاسی حمایت مانگنے کا حق اسے بھی حاصل ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اتنے تلخ تجربات کے بعد مسلم شہری اس پر کیوں اعتماد کریں؟ پرائم منسٹر کو پارٹی کا سب سے بڑا لیڈر بنا دیا گیا ہے لیکن جھگڑے فسادات اور مسلم مخالف مہمات کے سلسلے میں ان کا واضح بیان کبھی نہیں آیا۔
اگر اعتبار حاصل کرنا واقعی مقصود ہے
اگر بی جے پی یا آر ایس ایس واقعی مسلمانوں کا اعتبار چاہتی ہیں تو یہ کام بڑے بڑے جلسے کرانے یا اسکیموں کے اعلانات سے نہیں ہوگا۔ انہیں مسلمانوں کے اندر اعتماد پیدا کرنا ہوگا جیسا کہ اپوزیشن پارٹیاں مطالبہ کررہی ہیں۔ سب سے پہلے شہریت سے متعلق وہ قانون (سی اے اے) منسوخ کرنا ہوگا جو واضح طور پر مسلم مخالف ہے۔ گئو رکشا کے نام پر جو غنڈہ عناصر شہروں میں چھوڑ رکھے ہیں ان پر کنٹرول کرنا ہوگا۔ جو بے قصور مسلم نوجوان جیلوں میں رکھے گئے ہیں انہیں رہا کرنا ہوگا۔ یہ عملی اقدامات ہی ان کا مقصد پورا کرسکتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ان مجوزہ جلسے جلوسوں کے بارے میں یو پی کے مسلمانوں کو بھی محتاط اور ہزار زاویوں سے خبردار رہنا ہوگا۔ ملک کا ماحول خصوصاً دس برسوں میں بی جے پی اور اس کی ذیلی تنظیمیوں نے بگاڑ کر رکھ دیا ہے اس لیے درست بھی وہی کرسکتی ہیں۔ مسلمان اپنے طور پر ماحول کو درست کرنے اور برادران وطن کے ساتھ تعلقات کو استوار کرنے کی کوشش کریں جیسا کہ ان کا دین انہیں سکھاتا ہے۔ جو غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہیں انہیں دور کرنے کے لیے اسلام کا پیغام لے کر دانشوروں اور سرکردہ لوگوں کے پاس پہنچیں۔