اڈانی گروپ کے ہاتھوں عوامی مفاد کا سودا!

سودیشی پرچم برداروں کی سرمایہ کاروں کے آگے خود سپردگی

نوراللہ جاوید، کولکاتا

بجٹ میں عوام کی ترجیحی ضرورتوں کو ملحوظ رکھنے کی بجائے کارپوریٹس کو فوقیت دی گئی
ہوائی اڈوں اور قومی شاہراہوںپر سرکاری خزانے سے روپیوں کی برسات
صحت، تعلیم اور شہری و دیہی علاقوں میں انفراسٹرکچر سےعدم توجہی
منافع بخش کمپنیوں کی نجکاری جیسی معاشی پالیسیوں کی قیمت عام شہری چکارہے ہیں
ہنڈنبرگ ریسرچ کی رپورٹ کو ایک مہینہ مکمل ہوچکا ہے ۔اس کی پیشن گوئیاں سچ ثابت ہوتی جارہی ہیں۔ اب تک اڈانی کی سات بڑی کمپنیوں کے شیئرز میں اسی فیصد کی گراوٹ آچکی ہے اور آنے والے ہفتہ میں طے ہو گا کہ گراوٹ کا یہ سلسلہ کب اور کہاں جاکر رکے گا۔ اڈانی بحران کے خاتمے کا اعلان کردینے والے حکمراں جماعت کے لیڈر، میڈیا اور کارپوریٹ گھرانوں کے چہروں پر اب شکن نظر آنے لگے ہیں ۔ایل آئی سی اور اسٹیٹ بینک آف انڈیا جو اڈانی گروپ کے شیئرز میں گراوٹ سے خود کو لا تعلق ظاہر کررہے تھے وہ اب مشکلات میں ہیں۔ اکنامک ٹائمس کی ایک رپورٹ کے مطابق اب تک ان دونوں کمپنیوں نے اٹھتر ہزار کروڑ روپیوں کا نقصان اٹھایا ہے۔سوال یہ ہے کہ دونوں سرکاری کمپنیوں نے کس بنیاد پر ایک ہی گروپ میں اس قدر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے؟ سرمایہ کاری سے قبل کیا ان دونوں کمپنیوں نے اڈانی گروپ کی مالیت اور اس کے کاروبار کے طور طریق سے متعلق مکمل معلومات حاصل کی تھیں؟ اہم سوال یہ ہے کہ ان دونوں کمپنیوں کو ہونے والے اتنے بڑے نقصانات سے کیا ان کے صارفین بھی متاثر ہوں گے؟صارفین کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ان کے پاس کیا منصوبہ ہے؟ اڈانی کمپنی کے عروج وزوال کی کہانیوں سے قطع نظر چند بنیادی سوالات ہیں جن کا تعلق براہ راست عام لوگوں سے ہے جن کے مفادات اس سے وابستہ ہیں۔ ان سوالات کے جوابات تک پہنچنا ضروری ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی کا معیار کیا ہے؟کیا عام لوگوں کی سماجی، اقتصادی اورمعاشرتی ترقی کو نظر انداز کرکے ائیرپورٹس اور قومی شاہراہوں کی تعمیر اور نیم بلٹ ٹرینیں چلا کر ملک کو ترقی کی شاہرہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے؟ ائیرپورٹس، قومی شاہراہیں اور نیم بلٹ ٹرینوں کی ضرورت سے کس کو انکار ہوسکتا ہے لیکن سوال ترجیحات اور ان پر عوام کے بھروسے و اعتماد کا ہے۔
اگر بجٹ کا تجزیہ کیا جائے تو مالی سال 2018 میں قومی شاہراہیں اور ریلوے کے لیے مختص کیپٹل اخراجات کی شرح اٹھارہ فیصد تھی مگر مالی سال 2023 میں اضافہ ہوکر تینتالیس فیصد ہوگیا ہے یعنی ساڑھے سات ہزار کروڑ سے 3,24,844کروڑ۔ جبکہ دوسرے اہم شعبوں جیسے دفاع، شہری ترقی اور صحت کے لیے مختص بجٹ کے فیصد میں گزشتہ برسوں سے کمی آرہی ہے۔ مثال کے طور پر دفاع کے لیے مختص کیپٹل اخراجات کی شرح مالی سال 2018 میں اٹھائیس فیصد تھی جو مالی سال 2023-24 میں کم ہوکر 20.1 فیصد ہوگئی۔ صحت کے شعبے میں بجٹ 2018 میں 1.13 فیصد تھا جو کم ہوکر 0.75 فیصد ہوگیا ہے، جبکہ شہری انفراسٹرکچر کا حصہ 6.25 فیصد سے کم ہوکر 3.24 فیصد ہوگیا ہے۔اسی طرح فلاحی اسکیموں اور دیہی روزگار میں کلیدی کردارا ادا کرنے والے منریگا کے بجٹ میں کٹوتی سے متعلق ہفت روزہ دعوت کے ان ہی صفحات میں ہم بات کر چکے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ دونوں پراجیکٹس کافی اہم ہیں مگر سوال یہ ہے کہ ان کو ترجیح دینے سے کس کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ کیا واقعی یہ روزگار پیدا کر رہے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ شہری اور دیہی علاقوں میں بنیادی سہولتوں اور انسانی وسائل کی ترقی کے بغیر کوئی ملک کتنے دن ترقی کے راستے پر ہونے کے بھرم میں رہ سکتا ہے۔ ڈیلیوٹ انڈیا کے شریک مالک ارندم گوہا اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں ’’حکومت کی ساری توجہ سڑکوں اور ریلوے پر مرکوز ہے۔ تاہم صنعتی راہداری اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک شہری بنیادی ڈھانچے کو بہتر نہیں کیا جاتا۔ صحت، تعلیم اور شہری بنیادی ڈھانچے کے حصے زیادہ تر ریاستی حکومتوں یا میونسپل اتھارٹیز کے تحت ہیں جن میں مرکزی حکومت کا محدود کردار ہے۔ مگر فنڈنگ کا کنٹرول مرکز کے پاس ہونے کی وجہ سے بیشتر پراجیکٹس التوا کا شکار رہتے ہیں۔پینے کے پانی اور سیوریج ٹریٹمنٹ کے بنیادی ڈھانچے کو صحت عامہ کی اہمیت کے پیش نظر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ صاف پانی اور صفائی خدمات تک رسائی جیسا دیہی انفراسٹرکچر کا شعبہ ایک ایسا شعبہ ہے جو خاطرخواہ سرمایہ کاری کا تقاضا کرتا ہے‘‘۔
یہ بے اعتدالی ایک ایسے وقت ہو رہی ہے جب ملک کی سولہ فیصد آبادی غربت کا شکار ہے۔ مگر یکم فروری 2023 میں ڈیڑھ گھنٹے کی طویل بجٹ تقریر میں وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے محض دو مرتبہ غربت کا ذکر کیا۔ ہندوستان میں ’لیبر فورس‘ تقریباً 47.5 کروڑ ہے اور ’لیبر فورس کی شرکت کی شرح‘ (یعنی کام کرنے والے ) اڑتالیس فیصد ہے؟ باقی لیبر فورس تقریباً پچیس کروڑ افراد کو کام کی تلاش ہے۔ ملک میں بے روزگاری کی شرح ساڑھے سات فیصد ہے مگر پورے بجٹ میں بے روزگاری سے متعلق ایک لفظ بھی نہیں بولا گیا۔ گلوبل ہنگر انڈیکس 2022 میں ہندوستان ایک سو تیئیس ممالک میں ایک سو ساتویں نمبر پر آگیا ہے۔ پانچ سال سے کم عمر کے بچوں اور خواتین میں خون کی کمی (ستاون فیصد) اور چائلڈ اسٹنٹنگ (چھتیس فیصد) اور چائلڈ ویسٹنگ (انیس فیصد) تک پہنچ گیا ہے۔ یہ غذائیت کی کمی، مناسب خوراک کی کمی اور خون کی کمی، سٹنٹنگ بنیادی وجوہات میں شامل ہیں۔ 2023-24 میں پوشن (مڈ ڈے میل اسکیم) کے بجٹ میں رواں سال سے بارہ سو کروڑ روپے کم کیے گئے ہیں۔ 2023-24 کے بجٹ میں کھانے کی سبسڈی میں اسی ہزار کروڑ روپے کی بھاری کمی کی گئی ہے۔ 2023-24 میں کھادوں کی سبسڈی میں ساٹھ ہزار کروڑ روپے کی کمی کی گئی۔ نتیجے میں کھاد کی قیمتوں کے ساتھ ساتھ فصلوں کی پیداوار کی لاگت میں بھی اضافہ ہوگا اور اس کے نتیجے میں کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں بڑھیں گی اور اس کی وجہ سے غریب خاندانوں کے کھانے کی کھپت میں کمی آئے گی۔
بھارت میں ایک لاکھ سترہ ہزار اسکول ایسے ہیں جہاں صرف ایک ٹیچر ہے، جن میں سے تقریبا سولہ فیصد (16,630) صرف مدھیہ پردیش میں ہیں۔سی اے پی ایف میں 84,405 اسامیاں خالی ہیں جبکہ ان خالی اسامیوں میں کم تعلیم یافتہ اور ملک کے غریب خاندانوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی تقرری کی جاتی ہے۔ ملک کے تیئیس انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (IITs) میں 8,153 منظور شدہ پوسٹوں میں سے 3,253 خالی ٹیچنگ پوسٹیں ہیں۔ کیا یہ بھی درست ہے کہ پچپن مرکزی یونیورسٹیوں کی 18,956 منظور شدہ اسامیوں میں سے 6,180تدریسی اسامیاں خالی ہیں؟ آئی آئی ٹی اور مرکزی یونیورسٹیاں براہ راست مرکزی حکومت کے زیر کنٹرول ہیں، اس لیے اس کی جواب دہی مرکزی حکومت کی ہی ہے۔ ان میں زیادہ تر اسامیاں او بی سی، ایس سی اور ایس ٹی کے لیے مختص ہیں۔
فرچون آف انڈیا کے مطابق ہائی وے اور ریلوے کی وزارتوں کے اخراجات کے رجحانات مختلف جغرافیوں کے منصوبوں کے بجائے واحد فلیگ شپ میں فنڈنگ کی جاتی ہے۔ وزارت حمل و نقل اپنے منصوبے کی تفصیلات بھی فراہم نہیں کرتی۔ مرکزی وزیر نتن گڈگری کے مطابق دلی اور ممبئی کے درمیان ایکسپریس وے دسمبر میں تقریباً مکمل ہو جائے گا۔ 1,382 کلو میٹر کی طویل مسافت بارہ گھنٹوں میں طے ہوگی۔اس پر ایک لاکھ کروڑ روپے خرچ کیے گئے ہیں۔یعنی وزارت حمل و نقل کے ذریعہ شاہراہوں کی تعمیر کے لیے مختص بجٹ کا بیس فیصد حصہ اس پر خرچ کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح وزارت ریلوے بھی اپنے کلیدی منصوبوں سے متعلق تفصیلات ظاہر نہیں کرتا۔ اگرچہ بنیادی ڈھانچے کو بہتر کرنے کی وزارت ریلوے بات کرتی ہے مگر ان دونوں ریلویز کا پورا زور ملک بھر میں وندے بھارت ٹرین کی شروعات ہے۔ یہ پروجیکٹ کتنا اہم ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیرا عظم نریندر مودی خود ان ٹرینوں کا افتتاح کر رہے ہیں۔دراصل مرکزی حکومت وندے بھارت ایکسپریس کے ذریعہ بدلتے بھارت کا احساس دلانا چاہتی ہے۔ جبکہ وندے بھارت ایکسپریس کی مسافت کے وقت اور اس کے کرایہ کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ عام مسافروں کے لیے یہ ٹرین نہیں ہے۔
چونکہ مالیاتی خسارہ سرخ لکیروں تک پہنچ گیا ہے اب خود کفیل بننے کے نام پر ریلوے اور قومی شاہراہوں کی دیکھ بھال پرائیوٹ کمپنیوں کی دینے کی بات تیزی سے شروع ہوگئی ہے۔ مال برداری کے لیے پرائیوٹ ٹرین چلانے کی بات ہورہی ہے۔ مرجاوں گا لیکن ریلوے کو نجی ہاتھوں میں نہیں جانے نہیں دوں گا کا عہد کرنے والے والے وزیرا عظم نریندر مودی تیزی سے ریلوے کو پرائیوٹائزیشن کی جگاڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ ہوا بازی کا شعبہ تقریباً پرائیوٹ ہونے کے قریب ہوگیا ہے۔ ایسے میں یہ سوال ہے کہ جب تمام شعبوں کی نجکاری ہی ہونی ہے تو پھر حکومت اور وزارت کی ضرورت کیا ہے؟ درا صل نوے کی دہائی میں لبرلائزیشن، پرائیویٹائزیشن اور منڈیوں کی ڈی ریگولیشن کا فیصلہ کیا گیا تھا تو اس کی مخالفت میں سنگھ پریوار اور بی جے پی ہی کھل کر سامنے آئے تھے اور سودیشی کا نعرہ لگایا تھا۔مگر تضاد دیکھیے کہ اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں مرکز میں حکومت قائم ہونے کے بعد ہی پہلی مرتبہ ڈی انوسٹمنٹ (سرمایہ نکاسی) کی وزارت قائم کی گئی۔ایک طرف مودی حکومت کھلےعام ہندو اکثریتی، ہندو قوم پرستی کے ساتھ کھڑی ہے تو دوسری طرف بے دھڑک سرمایہ کاری کے نام پر ملک کی دولت کو پرائیوٹ ہاتھوں میں دیا جا رہا ہے۔ ہندتوا کی سب سے زیادہ وکالت کرنے والے ساورکر کی تحریروں میں کوئی بھی واضح معاشی وژن یا معاشی ماڈل نہیں ملتا ہے۔سنگھ پریوار سودیشی کی بات کرتی ہے اور اس کے لیے اس نے سودیشی جاگرن منچ بھی قائم کر رکھا ہے مگر اس کے پاس اقتصادی مسائل کو لے کر کوئی واضح موقف نہیں ہے۔ وہ یہ فیصلہ ہی نہیں کرپا رہی ہے کہ کس پالیسی کی مخالفت کی جائے اور کس کی نہیں کی جائے۔ ان کے سماجی و ثقافتی ایجنڈے کی وجہ سے نہ صرف ملک کی معیشت متاثر ہو رہی ہے بلکہ سودیشی ایجنڈے کو بھی شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔
ہندوتوا کی سرگرمیاں کس طریقے سے ملک کی معیشت کو نقصان پہنچارہی ہے اس کی سب سے بڑی مثال گئو رکھشا کے نام پر ہونے والی کارروائیاں ہیں۔ بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں گئو رکھشا کے نام پر جس طریقے سے کارروائیاں کی جا رہی ہیں اور اس کے نام پرغنڈہ گردی کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے اس نے مویشیوں کی تجارت کرنے والے، جن کا تعلق زیادہ تر اقلیت اور ہندوؤں کے نچلے طبقات سے ہے ان کو شدید معاشی نقصان پہنچ رہا ہے۔ بیف ایکسپورٹ انڈسٹری اور چمڑے کی صنعت بھی اس مہم کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔ ایک زمانے میں بیف ایکسپورٹ میں بھارت کو نمایاں مقام حاصل تھا۔ اس انڈسٹری کی وجہ سے نچلے سطح کے کسان بھی مستفید ہورہے تھے۔ جب گائے دودھ دینے کے قابل نہیں رہ جاتی تو یہ کسانوں کے لیے بوجھ ہوجاتی ہے اور کسان اس کے اخراجات برداشت نہیں کرپاتے ہیں اس لیے وہ اسے بے یار و مددگار چھوڑ دیتے ہیں۔لاوارث مویشی فصلوں کو تباہ کردیتے ہیں۔گائے کے تحفظ کے لیے فکرمند ریاستی حکومتیں اب لاوارث گائیوں کے لیے گئوشالے بنارہی ہیں اور اس پر بڑے پیمانے پر رقم خرچ کررہی ہیں۔ظاہر ہے کہ اس کا خزانے پر بوجھ پڑے گا۔ یہ ہندوتوا کا ایک ایسا ماڈل ہے جو ملک کے امن وامان کے ساتھ اقتصادی ڈھانچے کو بھی نقصان پہنچا رہا ہے۔
سنٹر فار نیو اکنامکس اسٹڈیز، جندال اسکول آف لبرل آرٹس اینڈ ہیومینٹیز میں اکنامکس کے ایسوسی ایٹ پروفیسر دیپانشو موہن نے ہندوتوا اور پرائیوٹائزیشن کے گٹھ جوڑ اور اس سے ہونے والے معاشی نقصانات کا تجزیہ کرتے ہوئے بتایا کہ جب آمدنی اور اثاثوں کی تقسیم بدتر ہوتی جاتی ہے، جب غریب لوگ بے گھر اور معاشی و سماجی عدم تحفظ کا شکار ہونے لگتے ہیں تو ان کی توجہ دوسری جانب مبذول کرادی جاتی ہے۔ معاشی خدشات کو ’’قومی فخر‘‘ اور ’’ہندو فخر‘‘ سے جوڑ دیا جاتا ہے جیسا کہ ابھی ہم نے اڈانی کے معاملے میں دیکھا ہے جب پورا میڈیا اڈانی کی شبیہ کو بچانے کی مہم میں مصروف ہو گیا۔ اڈانی کا سوال ملک کے فخر اور سالمیت سے جوڑ دیا گیا۔ جو کوئی بھی ہنڈنبرگ کی رپورٹ کی بنیاد پر اڈانی کو فائدہ پہنچانے کی کوششوں پر سوال پوچھے گا اس کو ملک مخالف ہونے کا الزام عائد کرکے خاموش کردیا جائے گا۔معاشی عدم مساوات، عوامی پالیسیوں کی وجہ سے ہونے نقصانات اور ملک کی معاشی اصل صورت حال سے عوام کو بچانے کے لیے ہندوتوا کا ایک اور غیر جمہوری طریقے سے عمل ہے وہ شماریات کے لیے قائم اداروں کی خود مختاری کو مجروح کر رہے ہیں۔ ان کی رپورٹ اور اعداد وشمار پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔ کسی بھی ملک کی ترقی میں شماریاتی اداروں کا اہم کردار ہوتا ہے۔مودی حکومت سے قبل تک شماریاتی کمیشن آزادانہ طور پر کام کرتا تھا اور حکومتوں کی رپورٹوں کی بنیاد پر جواب دہی طے ہوتی تھی۔شماریاتی کمیشن کے قیام کے وقت ہی اس ادارے کو آزاد اور خود مختار تصور کیا گیا تھا۔ سنٹرل اسٹیٹسٹیکل آرگنائزیشن کا کام آزادانہ اور شفافیت کے ساتھ کام کرنا تھا۔اس ادارے کو پیشہ ور ماہرین معاشیات اور شماریات کے ماہرین چلاتے تھے مگر حالیہ برسوں میں اس کو متنازع بنا دیا گیا۔ اس کی رپورٹیں اور نتائج غیر معتبر ہوگئی ہیں۔ روزگار، غربت اور معیار زندگی سے متعلق سروے کو ہمیشہ انتہائی احترام کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا۔ نیشنل سیمپل سروے آرگنائزیشن (شماریاتی کمیشن کے تحت کام کرنے والا ایک ادارہ ہے جو بڑے پیمانے پر سروے کرتا ہے) وقتاً فوقتاً لبیر فورس اور بے روزگاری سے متعلق رپورٹیں شائع کرتا ہے۔2019 کے عام انتخابات سے قبل مودی حکومت نے اس ادارے کو رپورٹ شائع کرنے سے روک دیا ہے۔ظاہر ہے کہ اس کا مقصد عوام کو اصل مسائل سے دور رکھنا تھا۔ انتخابات کے بعد جب سروے رپورٹ شائع کی گئی تو ملک کے عوام کو معلوم ہوا کہ ملک میں روزگار میں بے حد کمی آئی ہے۔ بے روزگاری کی شرح چھ فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ظاہر ہے کہ جب یہ سروے رپورٹ وقت پر منظر عام پر آجاتی تو حکومت کو عوام کے سامنے جواب دینا پڑتا۔مرکزی حکومت کے وزرا اور پارٹی ممبران منظم طریقے سے سروے کے اعداد وشمار کو متنازع اور بدنام کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔جمہوری ملک میں شماریاتی کمیشن کا ایک اہم رول ہوتا ہے۔ اگر یہ ادارے اپنی خود مختاری اور معتبریت سے محروم ہوجائیں تو اس کا سیدھا اثر عام شہریوں پر پڑے گا۔
ہنڈنبرگ ریسرچ کی رپورٹ اگرچہ جنوری میں آئی تھی جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ کس طرح اڈانی گروپ نے اپنی مختلف کمپنیوں کے شیئرز کی قیمت میں ہیرا پھری کی ہے اور ویلو سے کہیں زیادہ قیمتیں طے کی گئی ہیں۔ مگر اس سے گزشتہ سال نو دسمبر کو واشنگٹن پوسٹ میں اننت گپتا، نیہا ماشی اور گری شیہ کی ایک مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ How political will often favors a coal billionaire and his dirty fossil fuel کے عنوان سے شائع کی ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جھارکھنڈ کے ضلع گڈا میں اڈانی کے پاور پلانٹ کے قیام کے لیے ماحولیات، حصول اراضی کے طریقے کار اور دیگر قوانین میں تبدیلی کی گئی ہے۔ ایک طرف گرین انرجی کی بات ہورہی ہے اور گرین گیس کے اخراج میں کمی کا عزم کا اظہار کیا جارہا ہے تو دوسری طرف اڈانی کو پاور پلانٹ کے لیے ہر طرح کی ممکنہ مدد کی گئی ہے۔ مقامی کسانوں اور پولیوشن کنٹرول بورڈ کی رائے کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا گیا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس پاور پلانٹ سے ملک کے عام شہریوں کو فائدہ نہیں پہنچے گا بلکہ اس سے پیدا ہونے والی تمام بجلی ہمسایہ ملک بنگلہ دیش کو پریمیم پر فروخت کی جائے گی جو ایک بہت زیادہ مقروض ملک ہے۔ گلوبل انرجی مانیٹر کے مطابق اڈانی گروپ دنیا میں کول پاور پلانٹس اور کوئلے کی کانوں کا سب سے بڑا نجی ڈیولیپر ہے۔
2014 میں وزیرا عظم منتخب ہونے کے بعد پہلی مرتبہ وزیر اعظم مودی بنگلہ دیش کے دورے پر گئے ۔ان کے ساتھ دورہ کرنے والوں میں گوتم اڈانی بھی تھے۔اسی دورے کے دوران بنگلہ دیش اور ہندوستان میں بجلی کی فراہمی کا معاہدہ ہوا اور اس کے بعد گوڈا میں پاور پلانٹ کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ واشنگٹن پوسٹ نے مقامی لوگوں اور سرکاری افسروں کے ذرائع سے کئی اہم انکشافات کیے ہیں۔ ایک سینئر بھارتی افسر کی جانب سے اڈانی سمیت ٹائیکونز کو رعایت پر کوئلہ فراہم کرنے کی مخالفت کرنے کے بعد مودی انتظامیہ نے انہیں ملازمت سے ہٹا دیا تھا۔ جب ایک مقامی رکن اسمبلی نے بجلی گھر کے خلاف احتجاج کے لیے بھوک ہڑتال کی تو اسے چھ ماہ کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کم از کم تین مواقع پر حکومت نے اڈانی کو کوئلے سے متعلق کاروبار کی مدد کرنے اور اسے کم از کم ایک بلین ڈالر بچانے کے لیے قوانین پر نظر ثانی کی ہے۔
یہ سب مودی نے اس وقت کیا جب وہ اقوام متحدہ میں عالمی برادری کو یقین دلا رہے تھے کہ وہ کوئلے پر ٹیکس لگائیں گے اور قابل تجدید توانائی کو بڑھا دیں گے۔اڈانی کی آمدنی کا ساٹھ فیصد کوئلہ کے کاروبار سے آتا ہے۔ صنعت کے تجزیہ کاروں کے مطابق کوئلہ ممکنہ طور پر اڈانی کے بحری جہازوں پر مشرقی ہندوستان میں اڈانی کی ملکیت والی بندرگاہ پر آئے گا، پھر ریل کے ذریعہ پلانٹ تک پہنچے گا۔ اس پاور پلانٹ سے پیدا ہونے والی بجلی اڈانی کی تعمیر کردہ ہائی وولٹیج لائن کے ذریعے سرحد پر بھیجی جائے گی۔ معاہدے کے تحت جہاز رانی اور ترسیل کے اخراجات بنگلہ دیش کو ہی ادا کرنے ہوں گے۔ اس پلانٹ کو لے کر بنگلہ دیش میں بھی مخالفت کی جارہی ہے چنانچہ بنگلہ دیش نے اب اس معاہدہ پر نظر ثانی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس دوستی پروری کا ملک کے عوام کو کیا فائدہ مل رہا ہے؟ کیا اڈانی گروپ ملک کو روزگار فراہم کرنے والی کمپنی ہے؟ حالانکہ رپورٹس بتاتی ہیں کہ اڈانی گروپ ملک میں سب سے زیادہ روزگار فراہم کرنے والی دس بڑی کمپنیوں میں شامل نہیں ہے۔
ملک کی معیشت کے لیے صنعت کاری ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتی ہے مگر صنعت کاری کے نام پر ملک کے دیگر طبقات اور ضروری شعبوں کو نظر انداز کر دینے کی پالیسی بھی ملک کی معیشت کے لیے خوش آئند نہیں ہے۔ درآمد اور برآمدگی کے درمیان توازن قائم کرنے کے لیے اقدامات کرنا ضروری ہے مگر یہ ہیومن ڈیولپمنٹ کی قیمت پر نہیں ہونا چاہیے۔ صنعت کاری، سرمایہ کاری اور انفراسٹکچر کی ترجیحات میں توازن قائم کیے بغیر کوئی بھی اقدام نہ ملک کی معیشت کے لیے بہتر ہوگا اور نہ ہی یہ عوام کو راس آئے گا۔ حقائق کو چھپانے کی کوئی بھی کوشش زیادہ دنوں تک کارآمد ثابت نہیں ہوگی۔ اسکرول انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت غیر ملکی صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ غیر محفوظ ملک بنتا جارہا ہے۔ اور ایسا اس لیے ہے کہ حکومت نے بھارت کے میڈیا ہاوسیس پر کنٹرول حاصل کرلیا ہے جبکہ غیر ملکی میڈیا اس کی گرفت سے باہر ہے ۔چنانچہ غیر ملکی صحافیوں اور اداروں کو خوف زدہ کر کے بھارت سے متعلق رپورٹس شائع کرنے سے روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔مگر سوال تو مودی اور ان کے حامیوں سے بھی کیا جانا چاہیے کہ جب مشہور انگریزی میگزین ٹائمس ’’مودی کا مطلب بزنس (Modi Means Bussines) شائع کرتا ہے تو اس کو دنیا بھر میں مودی کے بڑھتے ہوئے قد کے مظہر کے طور دیکھا گیا مگر جب یہی میگزین نے یہ شائع کیا کہ مودی بھارت کو منقسم کرنے والے ہیں (India’s divider in chief) تو سب چراغ پا ہوگئے۔ مشہور انگریزی جریدہ اکنامسٹ جب مودی کی تعریف میں اسٹوری شائع کرتا ہے تو اس پر خوب بحث ہوتی ہے مگر جب یہی رسالہ مودی حکومت کی تنقید کرتا ہے تو اس کو غیر ملکی سازش اور نوآبادیاتی ذہن سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس ملک کے عوام کو طے کرنا ہو گا کہ وہ کب تک حقائق سے آنکھیں بند کیے، بے خبری اور حقیقت سے دور دنیا میں سوتے پڑے رہیں گے۔
***

 

***

 ملک کی معیشت کے لیے صنعت کاری ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتی ہے مگر صنعت کاری کے نام پر ملک کے دیگر طبقات اور ضروری شعبوں کو نظر انداز کر دینے کی پالیسی بھی ملک کی معیشت کے لیے خوش آئند نہیں ہے۔ درآمد اور برآمدگی کے درمیان توازن قائم کرنے کے لیے اقدامات کرنا ضروری ہے مگر یہ ہیومن ڈیولپمنٹ کی قیمت پر نہیں ہونا چاہیے۔ صنعت کاری، سرمایہ کاری اور انفراسٹکچر کی ترجیحات میں توازن قائم کیے بغیر کوئی بھی اقدام نہ ملک کی معیشت کے لیے بہتر ہوگا اور نہ ہی یہ عوام کو راس آئے گا۔ حقائق کو چھپانے کی کوئی بھی کوشش زیادہ دنوں تک کارآمد ثابت نہیں ہوگی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 مارچ تا 18 مارچ 2023