2021:کسان تحریک کی کامیابی ،کوویڈ 19بدانتظامی اور سیاسی ہنگاموں کا سال
2022:دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اُچھلتا ہے کیا
ابومنیب، حیدرآباد
سیاسی سرگرمیوں کے لحاظ سے سال 2021ء کافی ہنگامہ خیز رہا جبکہ اس سے پہلے کا سال کورونا وبا کی دہشت اور لاک ڈاون کی پابندیوں کی نذر ہوگیا تھا۔ سال کا آغاز کوویڈ-19کے نئے ڈیلٹا ویرینٹ کے سایے میں ہوا جس کا پہلا کیس پچھلے سال اکتوبر میں ہی سامنے آچکا تھا لیکن اس نے کوویڈ کی دوسری لہر کے دوران اپریل تا ستمبر 2021ء کے دوران زبردست تباہی مچائی اور سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 4لاکھ 76ہزار 869 افراد کو اپنا نوالہ بنالیا۔زیادہ تر اموات نظام صحت کی ناکامی، علاج معالجہ کے ناقص انتظامات،حکومت کی بدانتظامی اور آکسیجن کی قلت کی وجہ سے ہوئی ہے۔ وبا کے عروج کے دوران دواخانوں میں مریضوں کو بستر دستیاب نہیں تھے اور لوگوں کو آکسیجن کے لیے دوڑ دھوپ کرتا ہوا اور طویل قطاروں میں کھڑا ہوا دیکھا گیا۔ تاہم بعد کے دنوں میں وبا کا زور ٹوٹا تو معاشی سرگرمیوں کی بحالی اور تعلیمی اداروں کی کشادگی کے باعث عوام راحت کی سانس لے ہی رہے تھے کہ اب نئے سال 2022ء کی دہلیز پر جنوبی افریقہ سے ابھرنے والا ڈیلٹا کا جانشین ’اومیکرون‘ سامنے آ کھڑا ہوا۔ کہا جارہا ہے کہ اس کی شدت اگرچہ کم ہے لیکن یہ ڈیلٹا کے مقابلہ میں 70گنا زیادہ تیزی سے پھیل سکتا ہے۔ ان سطور کے لکھے جانے تک ملک میں اومیکرون کے 100 سے زائد معاملات سامنے آچکے ہیں۔
سال 2020ءمیں بہار اسمبلی انتخابات اور ایودھیا میں رام مندر کے سنگ بنیاد کی تقریب کو چھوڑ دیں تو سیاسی لحاظ سے کوئی بڑی سرگرمی نہیں دیکھی گئی لیکن سال 2021ء زبردست سیاسی ہلچل اور انتخابی معرکوں کا سال رہا ہے۔
پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات
پانچ ریاستوں مغربی بنگال، تمل ناڈو، پڈو چیری، کیرالا اور آسام میں 27مارچ سے 29اپریل تک اسمبلی انتخابات کے لیے مختلف مراحل میں رائے دہی ہوئی اور دو مئی کو نتائج کا اعلان کیا گیا۔ مغربی بنگال میں وزیراعظم نریندر مودی اور امیت شاہ کی زبردست مہم اور چیف منسٹر ممتا بنرجی کو شکست دینے کے لیے ساری طاقت جھونک دینے کی وجہ سے اس ریاست پر سب کی نظریں تھیں۔ بی جے پی کو امید تھی کہ وہ 2019ءمیں لوک سبھا کے اپنے مظاہرہ میں مزید بہتری کے ذریعہ مغربی بنگال میں پہلی مرتبہ مسند اقتدار تک پہنچ جائے گی لیکن ممتا بنرجی کی زیر قیادت ترنمول کانگریس نے بی جے پی کو محض 70نشستوں تک محدود رکھا۔ اس جیت نے جہاں بی جے پی کے سامنے 2024ءکے لوک سبھا الیکشن میں مغربی بنگال سے جیتی ہوئی19 پارلیمانی نشستوں کو بچانے کا چیلنج کھڑا کردیا ہے وہیں ممتا بنرجی کو یہ موقع فراہم ہوا ہے کہ وہ قومی سیاست میں خود کو وزیراعظم نریندر مودی کے مد مقابل اپوزیشن کے ایک معتبر چہرے کے طور پر پیش کرسکیں۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے وہ یو پی اے کو بے حیثیت کرنے اور علاقائی پارٹیوں کو اعتماد میں لینے کے لیے کوشاں ہیں۔
آسام میں کانگریس کی غیر موثر حکمت عملی، ترون گوگوئی کی موت کے بعد پیدا شدہ خلا اور بی جے پی کی ہندوتووادی قوم پرستی نے ریاست میں دوسری بار اقتدار برقرار رکھنے میں بھگوا پارٹی کی مدد کی ہے۔ دوسری طرف مغربی بنگال، تمل ناڈو اور کیرالا کے عوام نے بی جے پی کی کٹر ہندو قوم پرستی کو اس کے حدود دکھا دیے۔ ان ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کے نتائج نے جہاں بی جے پی سے مقابلہ کرنے کی علاقائی پارٹیوں کی اہلیت کو اجاگرکیا ہے وہیں ملک کی سب سے قدیم پارٹی کانگریس کی اثر پذیری میں مسلسل انحطاط کو نمایاں کیا ہے۔
تمل ناڈو میں اس مرتبہ الیکشن کئی برسوں بعد ریاست کی دو قد آور ترین شخصیتوں جئے للتیا اور کروناندھی کی غیر موجودگی میں لڑا گیا۔ دس سال بعد ریاست میں ایم کے اسٹالن کی زیر قیادت ڈی ایم کے کو اقتدار ملا ہے۔ ڈی ایم کے یو پی اے کی پرانی حلیف ہے اس لیے اس کی کامیابی کانگریس کے لیے کسی قدر راحت کی بات ہے۔ دوسری طرف پڑوسی ریاست پڈوچیری میں کانگریس زیر قیادت سیکولر جمہوری اتحاد کو این ڈی اے کے مقابلہ میں شکست ہوئی ہے۔
کیرالا میں اس بار کانگریس زیر قیادت یو ڈی ایف اور سی پی آئی ایم کی زیر قیادت ایل ڈی ایف اتحاد کی 1980ءسے مسلسل الیکشن جیتنے کی روایت ٹوٹ گئی ہے اور چیف منسٹر پنارائی وجین کی زیر قیادت سی پی آئی ایم کوویڈ وبا اور دو سیلابوں کا سامنا کرنے والی ریاست میں بہتر سیاسی حکمت عملی اور انتظامی اقدامات کی بدولت اقتدار برقرار رکھنے میں کامیاب ہوگئی۔
جموں و کشمیر
چھ اگست 2021ء کو جموں وکشمیر سے دفعہ 370اور 35اے کی منسوخی کے دو سال مکمل ہو گئے۔ سمجھا جارہا ہے کہ سیاسی پارٹیاں اور کشمیری عوام وقت گزرنے کے ساتھ اسے بھلا دیں گے لیکن یہ مسئلہ بدستور گرم اور سیاسی وعوامی حلقوں میں بحث کا موضوع ہے۔جن اقدامات کا بی جے پی اور اس کی حکومت ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے اُن میں ملنے والی کامیابی اتنی واضح نہیں ہے۔ کشمیر ہنوزمشکلات اور لاینحل مسائل سے گزر رہا ہے۔کشمیرکے وہ قائدین جنہیں قیدوبند کی صعوبتوں سے گزارا گیا ہے ان کا مقامی انتخابات میں مظاہرہ بہتررہا۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے، وہ مسلسل اضطراب میں ہیں۔
کسان تحریک
سال 2021ءکو کسان تحریک کی کامیابی کے لیے یاد رکھا جائے گا۔ کسانوں نے ستمبر 2020ءمیں منظورہ مرکزی حکومت کے تین زرعی قوانین کے خلاف ہر طرح کی رکاوٹوں اور زیادتیوں کا سامنا کرتے ہوئے صبر واستقلال کے ساتھ اپنا احتجاج جاری رکھا جس کے دوران 700سے زائد کسانوں کی جانیں چلی گئیں۔ کسان اپنے مطالبات کو لے کر دلی کی سرحدوں پر ڈٹے رہے۔ اس احتجاج کا زیادہ تر زور پنجاب، ہریانہ اور دلی میں تھا لیکن یو پی، بہار، راجستھان، مدھیہ پردیش، کرناٹک، کیرالا اور دیگر ریاستوں میں بھی کسان مسلسل احتجاج کرتے رہے جس کا اثر حکمراں پارٹی نے واضح طور پر حالیہ منعقدہ انتخابات میں محسوس کیا اور بالآخر وزیراعظم مودی نے 19 نومبر کو تینوں زرعی قوانین کو واپس لینے کا اعلان کیا اور 29نومبر کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں کسی بحث کے بغیر ندائی ووٹ کےذریعہ انہیں منسوخ کردیا گیا۔ کسانوں کے اس کامیاب احتجاج کی قیادت 32یونینوں کی نمائندہ تنظیم متحدہ کسان مورچہ (ایس کے ایم) نے کی ہے۔
یو پی ودیگر ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کے لیے مہم
شمالی ہند کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں اسمبلی انتخابات 2022ء کے اوائل میں منعقد ہوں گے جس کے لیے سیاسی پارٹیوں نے اپنی سرگرم مہم ابھی سے شروع کردی ہے۔ بی جے پی کی کمان وزیراعظم نریندر مودی سنبھالے ہوئے ہیں۔ مودی اس ریاست کی انتخابی مہم میں کسی کمی کے متحمل نہیں ہوسکتے کیونکہ دلی کا راستہ اترپردیش سے ہی ہوکر گزرتا ہے۔ یو پی کے ساتھ ساتھ نئے سال میں پنجاب، اتر کھنڈ، گوا اور منی پور میں بھی الیکشن ہونے والے ہیں جہاں سیاسی پارٹیوں کی انتخابی تیاریاں جاری ہیں، نئے اتحاد بن رہے ہیں،وفا داریاں تبدیل ہورہی ہیں اور سیاست دانوں کے درمیان ٹکٹوں کے لیے ہوڑ مچی ہوئی ہے۔
2022ء:سیاسی پارٹیوں کو درپیش چیلنجس
سال رفتہ کی طرح نیا سال بھی انتخابی سرگرمیوں سے بھرپور رہے گا۔ بی جے پی کے سامنے ایک طرف کسان تحریک کے دوران ہوئی بدنامی، کسانوں کی اموات، کوویڈ-19 بد انتظامی، مہنگائی اور بے روزگاری کا مسئلہ حل نہ کرنے کی وجہ سے عوامی ناراضگی کو دور کرنے کا چینلنج ہے تو دوسری طرف پارٹی کے اندر سے اٹھنے والی آوازوں اور پارٹی قائدین کی امنگوں سے نمٹنے کا مرحلہ درپیش ہے۔ جہاں تک انتخابی حکمت عملی کا تعلق ہے بی جے پی قائدین کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس مرتبہ بھی وہ اپنی ہندوتوا وادی قوم پرستی کی چھاپ کے ساتھ نفرت کی سیاست پر ہی انحصار کرے گی۔
کانگریس کے لیے 2021ء داخلی خلفشار اور انتخابات میں ناقص مظاہرے کا سال رہا۔ کیرالا اور آسام دو ایسی ریاستیں جہاں انہیں جیت کا موقع تھا لیکن مرکزی قیادت کے مناسب وقت نہ دینے اور ناقص حکمت عملی نے حریف پارٹیوں کو اقتدار پر برقرار رکھا۔ اب عام انتخابات سے قبل اترپردیش سمیت 5 ریاستوں میں ہونے والے انتخابات کانگریس کے لیے اپنے سیاسی قد کو بلند کرنے کا ایک آخری موقع ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 26 دسمبر تا 1 جنوری 2021