۲۱ویں صدی کا اقتصادی چیلنج اور اسلامی معاشیات
مرحوم سید حامد الکاف کا یہ مضمون سن 1998 میں ماہنامہ ترجمان القرآن میں شائع ہوا تھا۔ذیل میں اسے ترجمان کے شکریہ کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے ۔ زیر نظر تحریر سے اسلامی اقتصادیات پر حامد الکاف مرحوم کی دسترس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے
ترجمان القرآن کی پرانی فائل سے
سید حامد عبدالرحمن الکاف
جب کبھی عصر حاضر کے اقتصادی اور مالی مسائل کے حل کی بات چھڑتی ہے تو کچھ حضرات یہ کہہ کر خوش ہوجاتے ہیں کہ اگر موجودہ سرمایہ دارانہ نظام معیشت سے سود خواری، سٹہ بازی، ذخیرہ اندوزی اور جعل سازی وغیرہ کے چند گنے چنے عناصر نکال دیے جائیں تو سارے ہی اقتصادی اور مالی مسائل از خود حل ہوجائیں گے۔ اس وجہ سے ان کی ساری گفتگو اور استدلال کا رخ ان گنے چنے امور کی طرف ہوتا ہے اور وہ کلی تصورات زیر بحث نہیں آتے جو آج کل کی نہ صرف قومی اقتصادیات کا بلکہ عالمی اقتصادی نظام کا امتیازی نشان ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سود وغیرہ ایسے عناصر ہیں جن کے وجود کے ساتھ کسی بھی اقتصادی نظام سے خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی اقتصادی نظام۔ خصوصاً عصر حاضر کا اقتصادی نظام۔ صرف ان عناصر سے عبارت نہیں ہے بلکہ اس میں دیگر ایسے عناصر اور عوامل بھی ہیں جن کے بارے میں مسلم ماہرین معاشیات اور مالیات کو غور و فکر کرنا چاہیے۔
جنوب مشرقی ایشیائی اقتصادی بحران کے ابتدائی مراحل میں سٹہ بازی، جوابازی، سود خوری اور دیگر تباہ کن اقتصادی امور کا ذکر بار بار آتا رہا مگر جوں جوں دن گزرتے گئے اور اس بحران کے ظاہری اسباب و عوامل کے ذکر سے گزر کر نظر زیادہ گہرے اسباب کی طرف متوجہ ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہ اصل مرض کے صرف مظاہر تھے، اصل مرض نہ تھا۔ اصل مرض ، ان سارے ہی اقتصادیات خصوصاً جاپانی اقتصادی نظام کے غلط انداز میں چلائے جانے کا نتیجہ تھا۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت ان اقتصادیات کا جن میں جاپانی اقتصاد بھی شامل ہے، اچانک بیٹھ جاتا ہے۔ اس کے بھی چند اسباب ہیں جن پر روشنی ڈالنا ضروری ہے۔
سود، سٹہ بازی، نفع خوری وغیرہ کے علاوہ اس بحران کا سب سے اہم سبب عالمی اقتصاد میں وہ دور رس تبدیلیاں ہیں جو آخری ربع صدی میں وقوع پذیر ہوئی ہیں اور جن کے نتیجے میں قومی اقتصادیات کچھ اس طرح آپس میں مربوط ہوچکی ہیں کہ اب قومی سطح پر منصوبہ بندی ایک فرسودہ تصور ہوچکا ہے۔ آج ضرورت ہے کہ منصوبہ بندی کم از کم علاقائی سطح پر کی جائے، مثلاً جنوب مشرقی ایشیا، بحرالکاہل اور بحر ہند پر واقع ممالک تاکہ ان علاقوں کی اقتصادیات پیداوار کے میدانوں میں ایک دوسرے سے نہ ٹکرائیں۔
علاقوں کی بنیاد پر منصوبہ بندی کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ذرائع معلومات کی سرعت، فراوانی اور ارزانی کی وجہ سے سٹلائٹس اور کمپیوٹرز کے ذریعے۔ نقد سرمایہ کا ایک مالی مرکز ، مثلاً ٹوکیو سے، دوسرے مالی مرکز، مثلاً ہانگ کانگ منتقل ہونا بہت زیادہ آسان ہوگیا ہے اور یہ پلک جھپکنے میں ہوجاتا ہے۔ اس وجہ سے ایک مالی مرکز سے کروڑوں اور اربوں ڈالر کا سرمایہ دوسرے مالی مرکز کو چند لمحات میں منتقل ہورہا ہے۔ سرمایے کو پر لگ چکے ہیں اور وہ اعلیٰ تر شرح سود کی تلاش میں، عالمی پیمانے پر ، ایک مالی مرکز سے دوسرے مالی مرکز تک اڑتا پھر رہا ہے اور جس مالی مرکز سے یہ گزرتا ہے ایک طوفان کی طرح در و دیوار کو اور اس کے راستے میں آنے ولی ہر چیز کو تہس نہس کرکے گزر جاتا ہے۔ اس کی جیتی جاگتی اور ناقابل تردید مثالیں ہانگ کانگ، ٹوکیو، نیویارک، شکاگو اور کوالالمپور کے مالی مراکز کی گزشتہ سات ماہ سے مسلسل تباہی اور بربادی ہے۔ اس تباہی اور بربادی میں کم از کم دو ٹریلین ڈالر جل بھن گئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں کئی ملین لوگ بے روزگاری کا شکار ہوجائیں گے۔
اس حقیقت کا اظہار 30دسمبر 1997کو لحمن برادرس (Lehman Bros)کے چیف اکاؤنٹنٹنے بے روزگاری کے اعدادوشمار کی شکل میں کیا ہے کہ 1998کے ختم ہوتے ہوتے امریکہ میں بے روزگاری کی شرح 4.4فیصد سے بڑھ کر 5.2فیصد ہوجائے گی۔ جب سائل نے 5فیصد شرح پر بے روزگاری کے رکنے کی توقع ظاہر کی تو اس نے 5.2فیصد پر اصرار کیا اور کہا کہ جنوب مشرقی ایشیا کے معاشی بحران کا ثر امریکی اقتصاد پر بڑا گہرا اور دور رس ہے۔ اس نے مزید کہا کہ اس بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے پیش نظر 98 میں شرح سود میں اضافے کی کوئی توقع نہیں ہے۔
ہمیں یہاں عالمی پیمانے پر پھیلنے والی بے روزگاری کے دوسرے اسباب کو فراموش نہیں کرنا چاہیے، مثلاً سوشل سیکوریٹی کی سرگرمیوں میں مسلسل کمی ہے۔ اسی طرح حالات کو غیر یقینی بنانے اور بحرانی کیفیت کو تیز تر کرنے میں مختلف کرنسیوں (سکوں) کے ایک دوسرے سے ربط و ضبط اور ان کے تبادلے میں تخمینہ اور سٹہ کا بڑا دخل ہے۔
یہ سب عوامل ہمیں کشاں کشاں اس بڑی حقیقت کی طرف لے جارہے ہیں جو اکیسویں صدی کا شاید سب سے بڑا واقعہ تصور کیا جانے والا ہے اور وہ ہے تجارت، کاروبار اور لین دین کا عالمی شکل اختیار کرنا اور جس کو عملی جامہ پہنانے کا کام عالمی تجارتی تنظیم (World Trade Organisation)نے اپنے ذمے لیاہے۔ یہ تنظیم مختلف قوموں کو اپنے جال میں پھانسنے کے لیے زمین کے ہم رنگ جال بننے میں مشغول ہے اور مختلف اقتصادیات کو غلط راہ پر ڈالنے کے لیے ہر سطح کی تدابیر اختیار کررہی ہے۔
اسلامی ماہرین اقتصادیات اور مالیات کے نقطہ نظر سے جو پہلو غور طلب ہیں، ان میں مندرجہ ذیل کو خصوصی اہمیت حاصل ہے:
۱۔ اکیسویں صدی میں اقتصاد عالم ایک ایسی وحدت میں تبدیل ہوجانے والی ہے جس کا ہر جز دوسرے جز سے تجارت، زرکاری، قرض کاری اور سرمایوں کی نقل و حرکت کی وجہ سے نہ صرف مربوط ہوگا بلکہ مثبت یا منفی حیثیت سے متاثر ہوگا یا متاثر کرے گا۔ اس لیے اقتصادیات کے عالمی پہلووں پر گہری نظر رکھنے اور عالمی حل پیش کرنے کی ابھی سے مناسب تیاریاں کی جانی چاہیں۔ اس کے لیے پہلے تو قومی علاقائی اور عالمی اقتصادیات پر کلی نظر پیدا کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ دوسرے درجے میں بیدار مغز افراد کو ایک ایسے عالمی ادارے میں جمع کرنے کی سخت ضرورت ہے جو ان درپیش مسائل کا نہ صرف فوری حل تلاش کریں بلکہ ان کو نظریاتی ڈھانچے میں ڈھالنے کی کوشش بھی کریں۔
۲۔ دوسرے درجے میں علاقائی اقتصادیات ہیں جو ایک دوسرے سے بہت گہرے انداز میں مربوط ہیں، ان کے درمیان باہمی مقابلے اور ٹکراو کے بجائے زیادہ سے زیادہ تعاون اور توافق کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ ان خطوط پر سوچنا، منصوبہ بندی کرنا اور اس کو بطور مشورہ بروقت اور مناسب انداز میں پیش کرنا، ماہرین مالیات اور اقتصادیات کا کام ہے۔ اسلام دوست ماہرین کو بھی اس میں اپنا حصہ ادا کرنا چاہیے۔
۳۔ اب سرمایہ کاری اور قرض کاری مقامی امور نہیں ہیں۔ یہ عالمی پیمانے پر طے ہورہے ہیں اور ان میں مالی مراکز بنیادی کردار ادا کررہے ہیں۔ ان مالی مراکز کو زیادہ سے زیادہ صحیح خطوط پر چلانا تاکہ مسلمان ملکوں کو کم سے کم ضرر پہنچے، مسلمان ماہرین اقتصادیات اور مالیات کا بنیادی فرض قرار پاتا ہے۔
سب ہی جانتے ہیں کہ کینز کے نقد ترجیحی (Liquidity preference)اور سٹہ بازی کے جذبے (Speculative Motive)کے نظریات نے سٹہ بازی اور نفع خوری کو مالیاتی نظاموں اور مالی مراکز کا جزو لایفنک بنادیا ہے۔ ہمارا کام ہے کہ ان مالی نظاموں اور مراکز کو سٹہ بازی او رنفع خوری کے چنگل سے آزاد کرانے کے لیے پہلے نظریاتی کوششیں کریں او رپھر عملی اقدامات تجویز کریں۔ عالمی پیمان پر کئی کئی برس جاری رہنے والے مالی اور اقتصادی بحرانوں نے اب ہماری بات سننے اور سمجھنے کے لیے اچھی خاصی نفسیاتی فضا پیدا کردی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ اس نفسیاتی فضا کو اپنے حق میں اسلام اور اسلام کے مالیاتی اور اقتصادی اصولوں کے حق میں۔ استعمال کرسکیں؟ اس کا جواب بھی اسی ادارے کا قیام ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ اس سے بہتر فضا نہ پہلے تھی اور نہ شاید مستقبل قریب میں پھر پیدا ہو۔ ضرورت اس سے فائدہ اٹھانے اور جلد از جلد فائدہ اٹھانے کی ہے۔ اس میں سب سے اہم عنصر ان افراد کا ہے جو اس ادارے میں کام کرنے کے لیے چنے جائیں۔ یہ کام وہی لوگ انجام دے سکیں گے جن کی ایک طرف کتاب و سنت میں مجتہدانہ نظر ہو، اور دوسری طرف وہ علمی اور تجزیاتی اعتبار سے اتنے لائق ہوں کہ وہ اکیسویں صدی کے اسٹرے تیجیات (strategies) پر گہری نظر رکھتے ہوں اور ان کو ایک دوسرے سے مربوط کرکے قابل عمل لائحہ عمل ضروری نظریاتی بنیادوں کے ساتھ پیش کرسکتے ہوں کیونکہ اجتہادی بصیرت اور تشکیل نو کی صلاحیت کے بغیر کسی بھی میدان میں پیش رفت مشکل ہے۔
۴۔ عالمی پیمانے پر پھیلتی ہوئی بے روزگاری اور اس کے اسباب کا کھوج لگانا اور ان کے حل کے لی عملی تجاویز پیش کرنا، ان حضرات کا کام ہونا چاہیے۔ اس ضمن میں انہیں بعض نہایت خاردار مسائل پر غور و فکر کرنا ور قلم اٹھانا پڑے گا، مثلاً ہائی ٹک اور بے روزگاری کا تعلق؟ کیا یہ ایک حقیقت ہے یا صرف افسانہ ہے؟ اگر حقیقت ہے تو کس حد تک اور کن حدود میں؟ ان حدود کی تشخیص اور تعین ؟ اوقات کار اور پنشن کی عمروں میں مختلف پیشوں کے اعتبار سے کمی اور اس کے اخلاقی نتائج اور حسب ضرورت موانع حمل سے متعلق مسائلہ پر دینی نقطہ نظر سے نظر ثانی اور اس کے جواز اور عدم جواز کے حدود؟ و‘غیرہ وغیرہ۔ یہ سب بڑے حساس مسائل ہیں جو مجتہدین مطلق کے منتظر ہیں۔ ان کو جمع کرنا ہی عصری ضروریات کا سب سے بڑا مطالبہ ہے۔
۵۔ بڑے پیمانے پر مسلم امہ کے سرمایہ کو اکٹھا کرنا او راس کو مفید اور بار آور منصوبوں میں اسلامی نقطہ نظر سے لگانا، وقت کی پکار ہے۔ یہ سرمایہ کئی ٹریلین ہوسکتا ہے اور آج بھی ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ یہ بڑے غور و فکر کا محتاج مسئلہ ہے تاکہ عملی تدابیر تک پہنچا جاسکے۔ یہ ہزار پہلو مسئلہ ہے جس کا آسان اور عملی حل تلاش کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔ اس لیے سنجیدہ اور دور رس کوششوں۔ علمی اور عملی کوششوں۔ کی سخت ضرورت ہے۔
۶۔ سرمایے کو جمع کرنے اور مفید منصوبوں میں لگانے کے ساتھ ہی ہم قرض کاری کے اصولوں کی اہمیت اور ان پر عمل پیر ا ہونے اور دوسروں کو عمل پر ابھارنے والے افراد کے مسئلے سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ اس میدان میں سنجیدگی کے ساتھ پیش رفت کی سخت ضرورت ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 22 تا 28 اگست 2021