یہ تبدیلیاں کیا کہہ رہی ہیں؟

اپنی تہذیب ہی بھلی، اغیار سے مرعوب ہونے کی ضرورت نہیں

جاویدہ بیگم ورنگلی

 

آپ کو اپنی سوچ کا انداز بدلنا ہو گا۔ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں آپ کا یہ دقیانوسی انداز نہیں چل سکتا۔ آپ زندگی کے دائرے کو محدود کر کے اپنی تنگ نظری کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ معمولی معمولی باتوں کو دین سے جوڑ کر ثواب و عذاب کا مسئلہ بنا رہی ہیں۔ کسی کی خوبی کو اپنانا ایسا مسئلہ تو نہیں ہے جس کو دین سے جوڑا جائے۔ کوئی بھی انسان خوبیوں کا مجموعہ نہیں ہوتا۔ انسان دوسروں سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ دوسروں کے بہت سے طور طریقے رہن سہن اس کو پسند آتے ہیں وہ اس کو اپناتا ہے۔ ان باتوں کو آپ میری خود کلامی نہ سمجھیں بلکہ ذرا رک کر ان پر غور کریں۔
اس میں آخر ایسی کیا خرابی ہے جو آپ دوسروں کے طور طریقے رنگ ڈھنگ اختیار کرنے سے سختی سے منع کرتی رہتی ہو۔ فوراً ہی یہ حدیث پیش کر دیتی ہو کہ جو شخص دنیا میں کسی کی مشابہت اختیار کرتا ہے کل قیامت کے دن اس کا حشر اسی کے ساتھ ہو گا (ابو داود) ان معمولی معمولی باتوں میں آپؐ کے ارشادات کو اس طرح پیش نہیں کرنا چاہیے‘‘۔
دوسروں کا یعنی غیروں کا سا طرز زندگی رہن سہن طور طریقوں کو اختیار کرنا کیا یہ کوئی معمولی بات ہے؟ یہ تو بہت زیادہ افسوسناک اور غور طلب بات ہے کہ ہم اس بات کو سمجھ ہی نہیں پا رہے ہیں۔ دوسروں کی تہذیب کو اپنا کر ہم اپنی تہذیب کو اپنے ہاتھوں دفن کر رہے ہیں۔ اپنی تذلیل کا آپ سامان کر رہے ہیں۔ اپنی شناخت کو ختم کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ دنیا کے اسٹیج پر اپنے وجود کو ختم کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ یعنی اپنے دشمن آپ بنے ہوئے ہیں اپنے پیروں پر آپ کلہاڑی مار رہے ہیں‘‘۔
’’بات کا بتنگڑ بنانا شاید اسی کو کہتے ہیں ایک معمولی سے بات کا آپ نے اتنا بڑا نقشہ پیش کر دیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم لوگوں پر دل کا بخار نکالنے کے لیے آپ موقع کی تلاش میں تھیں‘‘۔
’’معمولی سی بات! آپ بتائیے انسان اپنے طور طریقے رنگ ڈھنگ طرز زندگی کو چھوڑ کر دوسروں کے طریقے کب اختیار کرتا ہے‘‘۔
’’کوئی چیز پسند آتی ہے تو اس کو اختیار کرتا ہے
’’دوسروں کی چیز پسند آنے کہ معنی یہ نہیں کہ اس کو ایسی چیز پسند نہیں ہے‘‘
’’کیوں خاموش ہو گئیں۔ بولیے نا‘‘
’’آپ کی باتوں نے الجھا دیا ہے، سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کیا جواب دوں‘‘
’’بہن ! اہم لوگ ترقی کی دوڑ میں لگ کر زندگی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ نہیں پا رہے ہیں کہ ہماری تہذیب ایک خاص فکر پر قائم ہے۔ جس کا تعلق ہمارے عقیدہ سے ہے۔ ہماری تہذیب اپنی ذات اور جوہر میں خالص اسلامی ہے کسی غیر اسلامی اثر کا ذرہ برابر بھی دخل نہیں ہے اور دخل نہیں ہو سکتا کیونکہ تہذیب انسان کی پہچان ہوتی ہے ۔ ہر شخص ایک مخصوص تہذیب کا نمائندہ ہوتا ہے اور بغیر کسی تعارف کے بتایا جا سکتا ہے کہ وہ کس تہذیب کا نمائندہ ہے۔ ہم دوسروں کے طور طریقے رنگ ڈھنگ اختیار کر کے دوسروں کی تہذیب کی نمائندگی کر رہے ہیں اور اپنی پہچان کھو رہے ہیں کیا یہ حقیقیت نہیں ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان اپنا تعارف پیش نہیں کر رہے ہیں؟
’’یہ بات آپ کی صحیح ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان اپنا تعارف پیش نہیں کر رہے ہیں۔ ہماری اپنی الگ پہچان نہیں رہی ہے‘‘
’’اسلام مخالف طاقتیں اس کوشش میں لگی ہوئی ہیں کہ ہم اپنی پہچان کھو دیں۔ پہچان کھو دینا ایسا ہے جیسا کسی شخص کا یادداشت کھو دینا۔ یادداشت کھو دینے کے بعد کسی انسان کا وجود بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ وہ دوسروں کے ہاتھوں کا کھلونا بن کر رہ جاتا ہے اس کو جس رنگ میں چاہے رنگا جا سکتا ہے چنانچہ آج مغرب ہم کو اپنے رنگ میں رنگنے جا رہا ہے ۔
کیوں نہ رنگیں، آگے بولیے کہ ہم خوش ہیں کہ ترقی کر رہے ہیں۔
بہن! مغرب کی سائنسی ایجادات نے ہم کو مرعوب کر دیا ہے ہم ذہنی طور پر شکست کھا گئے ہیں جس کے نتیجے میں ہم میں احساس کمتری پیدا ہو گیا ہے۔ ان کی برتری تسلیم کرنے کے نتیجے میں ہر معاملہ میں ان کی پیروی بھی ان کی نقالی کرنے لگے۔ ذلت کا احساس اس لیے نہیں ہو پایا کہ ہم نے اپنی سوچوں کو بھی غلام بنا کر رکھ دیا ہے۔ جب تک سوچ میں تبدیلی نہ آئے عمل میں بھی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ مغربی تہذیب کی چکا چوند نے ہماری فکر کو بدل دیا، ہمارا مقصد زندگی خدا کی رضا اور فلاح آخرت کی بجائے لوگوں کی ستائش حصول دنیا ہو کر رہ گیا۔
’’یہ کہنا تو آپ کی زیادتی ہے۔ بے شک آج ہم دنیا کے پیچھے دوڑ رہے ہیں مگر خدا کو بھولے نہیں ہیں۔
’’اللہ یاد رہتا تو اللہ کا یہ فرمان بھی رہتا ’’آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور اسلام کو تمہارے دین کے طور پر قبول کر لیا (المائدہ۔۳)
اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ میں نے دین مکمل کر دیا ہر شعبہ زندگی کے بارے میں مکمل رہنمائی فرمائی۔ زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جس کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ اس بارے میں کوئی ہدایت نہیں ہے۔ طور طریقے، رہنے سہنے، کھانے پینے، سونے جاگنے، ملنے ملانے، دینے لینے، شادی، مہر، طلاق، خلع، وراثت وصیت، خوشی و غم غرض معاشرت کے لیے مکمل ہدایات کے ساتھ اللہ نے ایک مکمل نظام ہدایت ہم کو دیا ہے۔ جس کے بعد دوسروں کے طور طریقے رنگ ڈھنگ اختیار کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہونا چاہیے۔
’’بے شک سوال پیدا نہیں ہونا چاہیے مگر خود فراموشی کا نتیجہ خدا فراموشی ہی تو ہوتا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے مگ اس کو قبول کیے بغیر اس تبدیلی کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔ ہم اپنے مقام و مرتبہ کو بھول گئے ہیں کہ اللہ نے اس زمین پر ہم کو اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ہے کائنات کو ہمارے لیے مسخر کر دیا گیا ہے۔ ہماری زندگی کا مقصد بھیجے جانے والے مالک کے دین کو اس زمین پر نافذ کرنا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں ہم اس حد تک بے حس ہو گئے ہیں کہ اس سوچ سے بھی محروم ہو گئے ہیں کہ اپنی تہذیب کو چھوڑ کر غیروں کی تہذیب کو گلے لگانا اپنی تہذیب کی توہین ہے جب کہ ہماری تہذیب کی بنیاد ہمارا عقیدہ ہے۔
اللہ کا شکر ہے یہ بات آپ کے سمجھ آگئی ہے۔ میں کیوں دوسروں کے رنگ ڈھنگ طور طریقے اختیار کرنے کے خلاف ہوں۔ اپنی تہذیب کو چھوڑ کر دوسروں کی تہذیب کو اپنانا معمولی بات نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بڑی شدت سے اس بات سے منع کیا ہے۔ فرمان خدا وندی ہے ’’جس نے اسلام کے سوا کوئی طریقہ اختیار کرنا چاہا اس کا طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں و ناکام و نامراد ہو گا (آل عمران : ۸۵) ان آیتوں کو اسلام دشمن طاقتوں نے اچھی طرح سمجھ لیا ہے۔ چنانچہ وہ ہم کو اپنے طریقہ زندگی سے بدظن کر کے الفاظ کے سحر میں گرفتار کر کے اپنی تہذیب اختیار کرنے پر اکسا رہے ہیں تاکہ ہم ان کی تہذیب میں ضم ہو کر اپنی تہذیبی شناخت کو کھو دیں۔ حجاب کے خلاف اٹھنے والے ہنگامے اس بات کا روشن ثبوت ہے کہ مسلم دشمن طاقتیں ہماری تہذیبی شناخت کو ختم کرنے کے لیے اپنا سارا زور لگا رہی ہیں۔ مسلمان خواتین اپنا سر ڈھانکے یا کھلا رکھے اس سے دوسروں کو کیا واسطہ ہے۔ اس سے دوسروں کو کیا نقصان ہو رہا ہے اور ان کو کیا تکلیف پہنچ رہی ہے‘‘۔
’’یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی ہے کہ مغرب حجاب کے خلاف کیوں ہے۔ اس میں اس کو کیا خرابی نظر آ رہی ہے‘‘۔
’’اسلام دشمنی نے مغرب کے اخلاقی پیمانے کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ ان کے نزدیک ہر وہ چیز بری ہے جس کا تعلق اسلام سے ہے۔ وہ ہر اس چیز کے خلاف ہیں جس کا تعلق اسلامی تہذیب سے ہے۔ حجاب کا تعلق اسلامی تہذیب سے ہے یہ مسلمان عورت کی پہچان ہے۔ حجاب ہمارا تعارف ہے ہماری پہچان ہے جبکہ مغرب ہماری پہچان ختم کرنے کی کوشش میں اپنا سارا زور لگا رہا ہے اور ہم ان کی اس کوشش کو کامیاب بنانے میں ان کا ہاتھ بٹا رہے ہیں۔
یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ؟
’’وہی کہہ رہی ہوں جو آپ کی تبدیلیوں سے ظاہر ہو رہا ہے۔ آپ ہی سوچیے کہ آپ کی تبدیلیاں کیا کہہ رہی ہیں؟
***

دوسروں کی تہذیب کو اپنا کر ہم اپنی تہذیب کو اپنے ہاتھوں دفن کر رہے ہیں۔ اپنی تذلیل کا آپ سامان کر رہے ہیں۔ اپنی شناخت کو ختم کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ دنیا کے اسٹیج پر اپنے وجود کو ختم کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ یعنی اپنے دشمن آپ بنے ہوئے ہیں اپنے پیروں پر آپ کلہاڑی مار رہے ہیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 29 مئی تا 05 جون 2021