یوپی پولیس نے ایک سابق سپاہی کے گھر میں توڑ پھوڑ کی، اہلِ خانہ کو تشدد کا نشانہ بنایا، متاثرین نے پولیس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا
لکھنؤ، اگست 8: اترپردیش پولیس کے ذریعے دسمبر 2019 کے دوران منعقدہ سی سی اے – این آر سی احتجاج کے سلسلے میں مشرقی یوپی کے کشی نگر میں واقع مکان میں توڑ پھوڑ کرنے اور سابق فوجی کے کنبہ کے ممبروں پر مبینہ طور پر تشدد کرنے کا ایک افسوسناک واقعہ سامنے آیا ہے۔
سول سوسائٹی کے مطابق مبینہ واقعے نے ان کے اس اعتقاد کی مزید تصدیق کی ہے کہ یوپی ایک ’’پولیس ریاست‘‘ بن گیا ہے جہاں اقلیتوں کے حقوق پامال کیے جاتے ہیں اور ان مظالم کا کوئی خاتمہ نہیں ہوتا ہے۔
یہ بھی الزامات عائد کیے جارہے ہیں کہ حملے کے وقت پولیس نے گھر میں موجود خواتین کے ساتھ بدتمیزی کی تھی۔ لواحقین نے پولیس کے اعلی افراد کو اپنی شکایات کے باوجود دعوی کیا ہے کہ ان کی درخواستیں بہری کانوں پر پڑ گئیں ہیں اور افسران قانون ہاتھ میں لینے والے افراد کے خلاف اقدام کرنے میں ناکارہ ہیں۔
لواحقین نے الزام لگایا کہ پولیس والوں نے ان کے ساتھ بدسلوکی کی، منظم طریقے سے ان کے گھر میں توڑ پھوڑ کی۔ پولیس اہلکاروں نے گھر کا ہر ایک سامان توڑ دیا۔
خاندان کے سربراہ محمد ثناء اللہ نے انڈیا ٹومورو کو بتایا: ’’ہمارے خاندان نے کبھی بھی احتجاج میں حصہ نہیں لیا اور پھر بھی پولیس نے ہمارے گھر میں تباہی مچا دی۔ یہ ایک ایسے سپاہی کا گھر ہے جس نے ملک کے لیے سب کچھ کیا ہے۔ میرے والد ہندوستانی فوج میں ایک صوبیدار تھے اور انھوں نے 38 سال ملک کی خدمت کی۔
انھوں نے مزید بتایا کہ ’’ہم نے 5 لاکھ روپے سے زیادہ کا نقصان برداشت کیا اور اس حقیقت کو ہضم نہیں کرسکتے کہ پولیس اہلکار ایک ایسے سپاہی کے گھر کو لوٹ رہے ہیں جس نے قوم کی خاطر کام کیا۔ اس غیر انسانی حرکت کی تحقیقات کرنی چاہیے اور متعلقہ پولیس عہدیداروں پر انسانیت کے خلاف ان کے جرائم کے لیے قانونی چارہ جوئی کی جانی چاہیے۔ اگرچہ ہم نے حکومت سے اس میں ملوث افراد کے خلاف تعزیراتی کارروائی کی درخواست کی ہے، لیکن معاملات عملی طور پر آگے نہیں بڑھ پائے ہیں۔ پولیس اہلکاروں کا یہ عمل انتہائی تکلیف دہ ہے اور ہمیں اپنی زندگی کی بدترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘‘
انھوں نے کہا ’’میں نے کشی نگر پولیس کے غیر قانونی اور غیر انسانی سلوک کے خلاف کارروائی کے لیے ریاست کے تمام اعلی انتظامی عہدیداروں کو درخواست بھیجی ہے لیکن آج تک کسی نے بھی اس پر ردعمل ظاہر کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔‘‘
واضح رہے کہ 19 دسمبر 2019 کو علاقے کے کچھ کارکنوں اور شہریوں نے CAA-NRC کے خلاف احتجاج کرنے کی اجازت طلب کی تھی، جو انھیں مل گئی تھی۔ بعد میں پولیس نے اجازت نامہ منسوخ کردیا جس کے نتیجے میں شہریوں کے ساتھ اس جگہ پر جہاں ریلی کا آغاز ہونا تھا پولیس کے مابین جھڑپ ہوئی۔ اس وقت مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے لاٹھی چارج کا سہارا لیا۔
مذکورہ متاثرین کا مکان احتجاج کی جگہ کے بالکل سامنے واقع ہے اور کنبہ کے افراد نے الزام لگایا کہ پولیس اہلکار کا موقف ہے کہ وہ احتجاج کے ذمہ دار ہیں کیوں کہ وہ اجتماع کے مقام کے سامنے ہی رہتے ہیں۔
اہل خانہ نے الزام لگایا کہ ان کے خاندان کے وہ ممبران جو اس دن شہر میں موجود نہیں تھے، ان کا نام بھی شکایت میں لیا گیا ہے۔