یونیورسٹی کا خطرناکوائرس!
جامعات کے اساتذہ عرب دنیا کواردوادب سے روشناس کرنے میں کوتاہ کیوں ہیں؟
پروفیسر محسن عثمانی ندوی
تعلیم اور ٹیچنگ کے پیشہ کو شریفانہ پیشہ Noble Profession کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی بڑے تعلیمی ادارہ، یونیورسٹی میں استاد ہو تو وہ اپنے علم اور افکار و نظریات کی ترسیل و اشاعت کا کام بڑے پیمانہ پر انجام دے سکتا ہے۔ اس کا کلاس روم صرف وہ کمرہ نہیں ہوتا ہے جہاں وہ طلبہ کے سامنے لکچر دیتا ہے بلکہ پورا شہر اور پورا ملک اس کے دائرہ تعلیم و تربیت میں داخل ہوتا ہے اور دنیا کا ہر شخص اس کا حلقہ بگوش ہوتا ہے اسکی تصنیفات اور مضامین سے استفادہ کرتا ہے ۔ اگر یہ حقیقت نہیں ہے تو ہر سال ہر استاد کو یونیورسٹی کے فارم پر یہ صراحت کیوں کرنی پڑتی ہے کہ اس نے اس سال یونیورسٹی کے باہر کتنے لکچر دیئے اور کتنے قومی اور کتنے بین الاقوامی سمینار میں شرکت کی، کتنے رسالوں میں اس کے مقالات اور ریسرچ پیپر شائع ہوئے اور اس نے کتنی کتابیں لکھیں اور علم و ادب کی دنیا میں اس نے کیا اضافہ کیا ،کیا نئی تحقیق پیش کی کیا نئی تخلیق پیش کی ۔ یہ غلط تصور ہے کہ استاد کا دائرہ علم و عمل کلاس روم کی چہار دیواری تک محدود ہے اور اسی غلط تصور کی وجہ سے ان کی صلاحیتوں کا دائرہ محدود ہوکر رہ جاتا ہے۔
ہندوستان کی یونیورسٹی میں عربی زبان و ادب کے جو اساتذہ ہوتے ہیں ان کی غالب اکثریت کسی دینی مدرسہ کا پس منظر رکھتی ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے سامنے مسائل اور مشکلات کا جو چیلنج ہے اسے دینی جماعتوں نے اور علماء دین نے قبول کیا ہے۔ علماء دین کی قیادت نے آزادی کے بعد سے ان مشکلات کے سامنے سینہ سپر ہونے کی کوشش کی ہے۔ یونیورسٹی کے مدرسہ بیک گراؤنڈ کے اساتذہ نے نہ صرف یہ کہ مسلم قیادت کی کوئی دستگیری، رہبری یا ہمسفری نہیں کی بلکہ ان سے ایک فاصلہ قائم رکھا اور یہ مفروضہ قائم کرلیا کہ مسلمانوں کے مسائل جو لاینحل ہیں ان کو حل کرنے کی ان پریعنی یونیورسیٹی کے اساتذہ پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی ہے، یہی سوچ اور یہی ادائے بے نیازی اور بے فکری اور اجتماعی کاموں سے طرز تغافل در اصل یونیورسٹی کا وائرس ہے۔ اور یہ وائرس جب کسی استاذ کو لگ جاتا ہے تو وہ بے باکی اور بے خوفی کو ختم کردیتا ہے اور اسے قوم و ملت اور دین و مذہب کی متنوع ذمہ داریوں سے کاٹ دیتا ہے۔ پھر انہیں نہ تو آشیانوں کے لٹنے کا کرب رہتا ہے اور نہ امت کے لیے نشیمن بنانے کی خواہش اور نہ زخم زخم گلاب کا نشاط غم۔نہ محرومیوں کاسوز اورنہ کسی کے ظلم وجبرپرآہ وکراہ۔
خود غرضانہ اور بے نیازانہ اور عیش پرستانہ زندگی گزارنے والے ایسے اساتذہ کے نزدیک تنخواہ قاضی الحاجات اور کاشف البلیات ہوتی ہے اور اسی موٹی تنخواہ کی پرت میں وہ خطرناک وائرس ہوتا ہے جوان اساتذہ کو لگ جاتا ہے۔ اور ان کو ہر دینی، مذہبی، قومی اور ملی سرگرمی سے کنارہ کشی پر مجبور کردیتا ہے اور وہ قوم و ملت کی رہبری سے علمی، تحریری اور تقریری سطح پر بھی قاصر رہ جاتے ہیں۔ اگر امت و ملت، اسلام اور عالم اسلام اور مسلمانوں کے لیے ان کے یہاں کوئی آتشِ غم اور سوز دروں نہیں ہے کہ تحریر و تقریر کے ذریعہ اس کا اظہار ہوسکے تو جانے دیجئے کہ یہ رتبہ بلند ہر شخص کو نہیں ملتا ہے، نہ یہ گرد ملال اورملت کے سوز غم کی دولت ہر شخص کو نصیب ہوتی ہے۔
افسوس اس بات کا ہے کہ خالص علمی اور ادبی سطح پر بھی ان اساتذہ کو جوکام کرنا چاہیے یعنی اکیڈمک کام وہ بھی عربی کے اساتذہ انجام نہیں دیتے، اب اگر اردو کے مشاہیر شعر و ادب سے عرب دنیا ناواقف ہے تو یہ قصور کس کا ہے؟ ہندوستان کے دانشور حضرات ابو العلاء معری، حافظ اور شوقی اور نجیب محفوظ، طہ حسین اور جبران خلیل جبران سے کم یا زیادہ انگریزی یا اردو ترجمہ کے ذریعہ واقف ہیں لیکن عرب دنیا کے دانشور میر تقی میر، غالب، ذوق، پریم چند اور قرۃ العین حیدر وغیرہ سے بالکل واقف نہیں ہیں، عرب دنیا صرف اقبال کے نام سے آشنا ہے لیکن اس میں جامعات کے عربی اساتذہ کا کوئی حصہ نہیں۔ ٹیگور سے بھی عرب دنیا واقف ہے اس میں بھی ہندوستانی جامعات کے شعبۂ عربی کے اساتذہ کا کوئی حصہ نہیں۔ نجیب محفوظ کو نوبل انعام مل گیا، کیونکہ اس کے ناول کے ترجمے دوسری زبانوں میں موجود تھے، قرۃ العین حیدر کو نہیں مل سکا کیونکہ اس کے ناولوں اور افسانوں کا کسی نے ترجمہ نہیں کیا۔ راقم سطور نے قرۃ العین حیدر کے ناول بھی پڑھے ہیں اور نجیب محفوظ کے عربی ناول بھی، اور وہ پورے اعتماد کے ساتھ یہ بات کہہ سکتا ہے کہ قرۃ العین حیدر کا مقام نجیب محفوظ کے مقابلہ میں بہتر، برتر اور بلند تر ہے اور قرۃ العین حیدر کی تحریروں میں دانشوری اور علم و ادب سے آگہی کا جو تابناک عنصر ملتا ہے وہ نجیب محفوظ کی تحریروں میں نہیں پایا جاتا۔ معروف ادیب شمس الرحمن فارقی نے اپنے شاہکار ناول ’’کئی چاند تھے سر آسماں‘‘ کا بقلم خود انگریزی میں ترجمہ کردیا ہے۔ جناب رضوان اللہ نے اسی طرح اپنے اردو دیوان ’’عکس خیال‘‘ کا بقلم خود انگریزی ترجمہ My Reflections کے نام سے شائع کیا ہے۔ انگریزی نظموں کا اردو ترجمہ ’’نسیم مغرب‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ خلاصہ تحریر یہ ہے کہ اگر عربی زبان کے اساتذہ نے علمی اور قلمی سطح پر علمی اور ادبی ترجمہ کا کام کیا ہوتا تو اردو زبان و ادب کا تعارف عرب دنیا میں بھی ہوجاتا۔ جس طرح سے رباعیات عمر خیام کے انگریزی اور عربی ترجمہ سے علم و ادب کی دنیا واقف ہوچکی ہے۔ اردو میں عربی سے مذہبی کتابوں کے ترجمے بہت ہوئے ہیں۔ قرآن و حدیث، تصوف، فقہ، سیر و تاریخ مختلف علوم و فنون کے موضوعات پر سیکڑوں کتابیں لکھی گئی ہیں لیکن اس میدان میں بھی عصری جامعات کے عربی اساتذہ کا حصہ تقریباً صفر کے برابر ہے۔
علم و ادب کی دنیا میں ترجمہ کا کام کلیدی اہمیت کا حامل ہے، یہ وہ روزن ہے جس سے دوسری زبانوں کی علمی اور تخلیقی سرگرمیوں کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے اور افکار نو بہ نو کا استقبال کیا جاتا ہے۔ اور تہذیبی لین دین کا عمل جاری ہوتا ہے۔ تخلیق کی گاڑی ایک پٹری پر چلتی ہے اور ترجمہ کی گاڑی دو پٹریوں پر چلتی ہے۔ تخلیقی کام یا علمی کام کے لیے ایک زبان کا جاننا کافی ہوتا ہے لیکن ترجمہ کے لیے دو زبانوں کا جاننا لازمی ہے۔ ترجمہ کے ذریعہ ہم دوسری زبانوں کے افکار اور اقدار سے آشنا ہوتے ہیں۔ اب جبکہ دنیا کی طنابیں کھنچ گئی ہیں کوئی زبان ترجمہ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ ترجمہ کی اہمیت کسی طرح تخلیق و تصنیف سے کم نہیں۔ ترجمہ کے ذریعہ نئی آگہی کانور پھیلایا جاتا ہے، نئے چراغ فکر و نظر جلائے جاتے ہیں۔ تخلیق کارادب کا ایک تاج محل تخلیق کرتا ہے مترجم اس تخلیق کے جلوے ساری دنیا میں پھیلاتا ہے، ترجمہ اگر کامیاب ہو تو وہ تخلیقی ادب کا حصہ بن جاتا ہے۔ ترجمہ کی کامیابی کے لیے ضروری ہے زبان شگفتہ ہو اور الفاظ کی نشست جملوں کی ساخت اجنبی نہ معلوم ہو۔
ترجمہ ہی کے ذیعہ کسی قوم و زبان کی تحقیقات اور ادبی شاہکار پوری انسانیت کی ملکیت بنتے ہیں۔ سونا جب تک کان کے اندر دفن ہوتا ہے اسے قوم کی ملکیت نہیں قرار دیاجاسکتا۔ عربی زبان کے اساتذہ کو اور دیگر اہل علم کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بو علی سینا، ابن رشد، ابو نصر فارابی وغیرہ کی عربی کتابوں کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا گیا تو سونا علم کی کان سے نکل کر عالم انسانیت کی دولت بن گیا اور اسی سے یورپ میں نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوا۔ ہندوستان میں دار الترجمہ حیدرآباد کی خدمات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جس نے مختلف علوم و فنون کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا اور اردو زبان کی دولت میں اضافہ کیا۔ زبان و ادب کے اساتذہ کو ترجمہ کی اہمیت کا احساس ہونا چاہیے اور انہیں ان موضوعات کو اختیار کرنا چاہیے جس سے ہندوستانی اور اسلامی تہذیب کے وقار میں اضافہ ہو ورنہ محض کیریئر کے لیے یا زرکشی، زرگری کے لیے یا انٹرویو میں اپنا پبلیشڈ ورک دکھانے کے لیے کچھ کام کرلینا صلاحتیوں کا زیاں ہے اور تعلیم کے مقدس پیشہ کے ساتھ بے وفائی ہے۔
عربی زبان کے ایسے اساتذہ موجود ہیں جو ہندوستانی ادب کا بہترین عربی میں ترجمہ کرسکتے ہیں ۔ یونیورسٹی کے حلقہ میں زبیر احمد فاروقی ڈاکٹر ثناء اللہ ندوی بہترین مترجمین ہیں دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر محمد نعمان خان نے قدیم ہندوستانی تاریخ پر ایک کتاب کا عربی میں ترجمہ کیا ہے۔ جے این یو کے پروفیسر احسان الرحمن مرحوم نے بعض ہندوستانی کہانیوں کے عربی ترجمے کیے،ڈاکٹر انظر ندوی نے خود نوشت سوانح عمریوں پر عربی میں کتاب لکھی ہے۔ لیکن یہ سب کام اتنے کم ہیں کہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بعض اساتذہ تو معمولی درجہ کے غیر علمی غیر ادبی صرف تجارتی کاروباری نوعیت کے ترجمہ کے کاموں کے لیے پوری زندگی وقف کردیتے ہیں اور ’’کون بنتا ہے کروڑ پتی‘‘ کی ریس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ انہیں اقبال کے الفاظ میں یہ کہنے کا جی چاہتا ہے:
کچھ قدر اپنی تو نے نہ جانی
یہ بے سوادی یہ کم نگاہی
***
زبان و ادب کے اساتذہ کو ترجمہ کی اہمیت کا احساس ہونا چاہیے اور انہیں ان موضوعات کو اختیار کرنا چاہیے جس سے ہندوستانی اور اسلامی تہذیب کے وقار میں اضافہ ہو ورنہ محض کیریئر کے لیے یا زرکشی، زرگری کے لیے یا انٹرویو میں اپنا پبلیشڈ ورک دکھانے کے لیے کچھ کام کرلینا صلاحتیوں کا زیاں ہے اور تعلیم کے مقدس پیشہ کے ساتھ بے وفائی ہے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 20 فروری تا 26فروری 2022