یتیم بچےکی کہانی
شیخ عائشہ امتیازعلی ،ممبئی
ایک دفعہ کاذکر ہے کہ ایک گھر کے اندر سے ایک دس سالہ بچّے کے رونے کی آواز آرہی تھی۔ بات یہ تھی کہ ایک ماں اپنے بیٹے کو مار رہی تھی اور بچے کے ساتھ خود بھی رورہی تھی ۔وجہ پوچھنے پر اس نےبتایا کہ اس بچّے کے ابا جان اللہ کو پیارے ہوگئے اوروہ گھروں میں مزدوری کرکے پڑھائی کا خرچ مشکل سے اٹھاتی ہے اور بچّہ ہے کہ اسکول کو روزآنہ دیرسے جاتاہے اور گھر دیر سے آتا ہے جاتے ہوئے راستے میں کہیں کھیل کود میں لگ جاتاہے اورپڑھائی کی طرف ذرابھی توجہ نہیں دیتا۔ روزانہ اپنی اسکول کی ڈریس خراب کرلیتاہے۔
میں ایک دن صبح صبح سبزی منڈی کچھ لینے گئی تواچانک میری نظر اسی دس سالہ بچے پر پڑی جوروزآنہ گھر سے مارکھاتاتھا کیا دیکھتی ہوں کہ وہ بچہ منڈی میں اِدھر اُدھر پھررہا ہے اور جو دوکاندار اپنی دکانوں کے لیے سبزی خریدکر اپنی بوریوں میں ڈالتے ہیں اور ان سے کوئی سبزی زمین پر گرجاتی ہے تووہ بچہ اسے فورا اٹھاکر اپنی جھولی میں ڈال لیتاہے ۔میں یہ ماجرہ دیکھ کر تشویش میں پڑگئی کہ آخرمعاملہ کیاہے میں اس بچےکو چوری چھپے دیکھنے لگی جب اس کی جھولی سبزی سےبھرگئی تووہ سڑک کےکنارے بیٹھ کر اونچی اونچی آوازیں لگاکر اسےبیچنےلگا منہ پرمٹی ،میلی ڈریس،اورآنکھوں میں نمی کے ساتھ ایسا دکاندار میں اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھ رہی تھی دیکھتے ہی دیکھتے اچانک ایک آدمی اپنی دکان سے اٹھا جس کی دکان کے سامنے اس بچےنے اپنی ننھی سی دکان لگائی تھی اس شخص نے آتے ہی زوردار پائوں مارکر اس ننھی سی دکان کو ایک ہی جھٹکے میں ساری سڑک پر پھیلادی اور اس بچے کو بھی اٹھاکر دھکا دےدیا وہ بچہ اپنی آنکھوں میں آنسو لیے دوبارہ اپنی سبزیاں اکٹھا کرنے لگا اورتھوڑی دیربعد اپنی سبزی کسی دوسری دکان کےسامنے ڈرتے ڈرتے لگالی بھلا ہو اس شخص کا جس کی دوکان کے سامنے اب اس نے اپنی ننھی سی دکان لگائی اس شخص نے اسے کچھ نہیں کہا تھوڑی سی سبزی تھی جلد ہی فروخت ہوگئی وہ بچہ وہاں سے اٹھا اور بازار میں ایک کپڑے کی دوکان میں داخل ہوا اور دوکاندار کو وہ پیسے دیکر دکان میں پڑا اپنا اسکول بستہ اٹھایا اور بنا کچھ کہے اسکول کی جانب چل دیا ۔میں بھی اس کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی جب وہ بچہ اسکول پہونچا تو ایک گھنٹے کی دیر ہوچکی تھی جس پر اس کے استاد نے ڈنڈے سے اسے مارا میں جلدی سے جاکر استاد کو منع کرنے لگی کہ یہ یتیم بچہ ہے اسے مت مارو مگرا ستاد کا کہنا تھا کہ یہ روزآنہ دیر سے آتاہے اورمیں اسے سزا دیتا ہوں کہ ڈر سے اسکول وقت پر آئے اور کئی بار اس کے گھر پیغام دے چکا ہوں لیکن پھر بھی یہ دیر سے ہی آتا ہے۔ بچہ مار کھانے کےبعد درجہ میں بیٹھ کر پڑھنےلگا میں نے استاد کا نمبر لیا اورگھر کی طرف چل دی گھرجاکر معلوم ہواکہ میں جوسامان لینے گئی تھی وہ بھول ہی گئی حسب معمول بچے نے اسکول سے گھرا ٓکر ماں سے ایک بارپھر مارکھائی ہوگی ساری رات اس کو سوچ سوچ کر میراسر چکراتارہا اگلےدن صبح فجر کی نمازاداکی اورفورا بچےکے استادکو کال کی کہ ہرحال میں ٹائم پر منڈی پہونچیےجس پر مجھےمثبت جواب ملا، سورج نکلا اور بچے کا اسکول جانے کا وقت ہوا اور حسب معمول بچہ گھرسے سیدھا منڈی اپنی ننھی دوکان کابندوبست کرنےلگا میں نے اس کے گھرجاکر اس کی امی سے کہا کہ ’’اماں جان میرے ساتھ چلو میں تمہیں بتاتی ہوںکہ آپ کا بیٹا اسکول دیرسے کیوں جاتاہے ‘‘وہ فوراً میرے ساتھ یہ کہتے ہوئے چل پڑی کہ’’ آج اس کی میرے ہاتھوں خیرنہیں چھوڑں گی نہیں اسے آج ‘‘منڈی میں بچے کااستادبھی آچکا تھا ہم تینوں منڈی کے تین حصوں میں چھپ کر اس بچے کی ننھی دوکان دیکھنے لگے حسب معمول آج بھی اسے کئی لوگوں سے جھڑکیں سننی پڑیں اور آخر کا روہ بچہ اپنی سبزی فروخت کرکے کپڑےکی دوکان کی طرف چل دیا اچانک میری نظر اس کی ماں پرپڑی تو کیا دیکھتی ہوں کہ بہت ہی درد بھری سسکیاں لےکر زارو قطار رو رہی ہےپھرمیں فوراً اس کے استادکی جانب دیکھی تو ان کی بھی آنکھیں شدت کے ساتھ آنسوبہارہی تھی دونوں کے رونےمیں مجھے ایسالگ رہاتھا جیسے انہوں نے کسی مظلوم پربہت ظلم کیا ہواورآج ان کو اپنی غلطی کااحساس ہورہا ہو۔ اس کی ماں روتے روتے گھرچلی گئی اور استاد بھی سسکیاں لیتے ہوئے اسکول چلا گیا ۔ حسب معمول بچےنے کپڑےکےدوکان مالک کو پیسے دئیے اورآج اس کو دوکان دارنے ایک لیڈی سوٹ دیتے ہوئے کہا کہ بیٹا آج سوٹ کے پیسے پورے ہوگئے ہیں اپناسوٹ لےلو بچہ سوٹ لےکر اسکول بیگ میں رکھا اوراسکول چلاگیا آج بھی ایک گھنٹہ لیٹ تھا وہ سیدھا استادکے پاس گیا اور بیگ رکھ کر مار کھانے کے لیے اپنے ہاتھ آگے بڑھادئیےکہ استاد اس کوڈنڈےسے مارے مگر آج استاد اپنی کرسی سے اٹھا اوربچےکو گلےلگاکر اس قدرزورسے رویا کہ میں بھی دیکھ کر اپنے آنسوپر قابو نہ رکھ سکی۔ میں نے اپنے آپ کو سنبھالنےکی کوشش کی پھر بچے سے میں پوچھنےلگی کہ یہ جوبیگ میں سوٹ ہے وہ کس کے لیے ہے بچےنے جواب دیا کہ میری ماں،امیر لوگوں کے گھروں میں مزدوری کرنے جاتی ہےاوراس کے کپڑے پھٹےہوئے ہوتےہیں اس کےپاس جسم کو مکمل ڈھانپ نے والا کوئی سوٹ نہیں ہے اس لیےمیں نے یہ سوٹ خریداہے اب چھٹی کے بعد میں اسے درزی کو سلائی کیلئے دونگا اور روزآنہ تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کرکے سلائی دینےکی کوشش کروں گاتاکہ میری ماں نیا کپڑاپہن کرخوش ہوجائے۔