ہندو ایکو سسٹم میں کیا کھچڑی پک رہی ہے؟

’ہمیں اپنا مسیحااتحاد ہی میں ملے گا‘۔سخت گیر ہندوتوا حلقوں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانیاں

حسن آزاد

یو ٹیوب اور فیس بک کے مخصوص پوسٹ اور کمنٹس کا جائزہ۔’آر ایس ایس صرف مسلمانوں کے لیے نہیں پورے ملک کے لیے خطرہ‘
اہانت رسولﷺ کے خلاف غصہ میں آ جانا ایک فطری عمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گستاخ رسول نوپور شرما اور نوین جندل کے خلاف ملک بھر میں کئی مقدمات درج کیے گئے اور اب بھی کیے جا رہے ہیں۔ لیکن کیا سڑکوں پر نکل کر غیر منظم احتجاج یا مظاہرہ کرنا درست ہے؟ سوال یہ کیا جا رہا ہے کہ آخر بغیر کسی اپیل کے یہ ملک گیر احتجاج کیسے عمل میں آیا؟ کہیں یہ کسی سازش کا حصہ تو نہیں تھا؟ کہیں ملک میں جمعہ کی نماز کو بدنام کرنے کی چال تو نہیں چلی گئی؟
سخت گیر ہندوتوا حلقوں کی جانب سے آنے والے رد عمل سے بھی بہت ساری چیزیں واضح ہو جاتی ہیں اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا ہے۔ سوشل میڈیا، یو ٹیوب اور فیس بک کے مخصوص پوسٹ اور کمنٹس کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اب ملک ہندو راشٹر کی طرف باضابطہ قدم بڑھا چکا ہے اور مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے کی مکمل سازش کی جا چکی ہے۔
مثال کے طور پر انڈیپینڈنٹ نیشنلسٹ (Independent Nationalist) یوٹیوب چینل پر اینکر ویریندر کمار نے مہمان گنیش بِرالے سے سوال کیا کہ نوپور شرما کے بہانے ملک میں کیا ہو رہا ہے؟ تو گنیش بِرالے نے اشارے ہی اشارے میں اسلحے رکھنے کی ترغیب دے ڈالی اور خاص فریق کو سبق سکھانے کا پیغام دے دیا۔ خود کی حفاظت کے نام پر نفرت انگیز باتیں کی گئیں۔ وہیں یوٹیوب چینل نیشنل فرسٹ بھارت پر مشہور متنازعہ بیان دینے والے اور ہندو۔مسلم اتحاد کے مخالف پشپیندرا کلشریشٹھا کے خطاب کا ایک ویڈیو کلپ جاری کیا گیا جس میں اس نے مسلمانوں کے آپسی اختلاف کا سہارا لے کر ہندو۔مسلم بھائی چارہ کے خلاف بیان دیا۔ اسلام کو دہشت گردی سے جوڑا اور پوری ڈھٹائی کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا۔
واضح ہو کہ اسی ’اوپ انڈیا‘ کی نام نہاد تحقیق کے نام پر مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی جاتی ہے جب کہ بی جے پی ترجمان کپل مشرا، بھوپال سے بی جے پی رکن پارلیمانی سادھوی پرگیہ اور بے لگام یتی نرسنہا نند کے بیان سرخیوں میں آتے ہی رہتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ این ڈی ٹی وی کے ایک تجزیہ سے پتہ چلا ہے کہ 2014 میں مودی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے UPA-2 حکومت کے مقابلے میں اعلیٰ سطح کے سیاست دانوں کی نفرت انگیز تقاریر میں 1,130 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پچھلے ساڑھے تین مہینوں میں سیاسی نفرت میں اوسط سے بھی 160 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے کیونکہ انتخابات قریب ہیں۔ اس نفرت انگیز وبا میں بی جے پی کا حصہ 80 فیصد سے زیادہ ہے۔ این ڈی ٹی وی کے ‘VIP’ نفرت انگیز تقریر کے ٹریکر 2009 سے اعلیٰ سطح کے سیاسی کارکنوں، وزراء، وزرائے اعلیٰ، ایم پیز، ایم ایل اے، گورنرز اور پارٹی کے سربراہوں کے بیانات شامل ہیں جو واضح طور پر فرقہ وارانہ اور ذات پات پر مبنی ہیں، یا تشدد کو ہوا دیتے ہیں۔ ٹریکر سے پتہ چلتا ہے کہ UPA-2 کے دور حکومت (2009-14) کے دوران ‘VIP’ نفرت انگیز تقریر کے 19 واقعات ہوئے یعنی اوسطاً ایک ماہ میں 0.3 واقعات۔ 2014 سے لے کر آج تک مودی حکومت کے دور میں اس طرح کے 348 واقعات ہوئے ہیں جو ایک ماہ میں اوسطاً 3.7 واقعات ہیں جو کہ 1,130 فیصد کا اضافہ ہے۔
ایسے میں قانون دانوں اور ملک کے سوچنے سمجھنے والے انصاف پسندوں کو غور کرنا ہوگا کہ کیا ان جیسے ویڈیوز اور بیانات پر کارروائی ہو سکتی ہے یا نہیں جن سے ماحول میں نفرت کی فضا قائم ہو رہی ہے۔
وہیں دوسری طرف الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے ٹوئٹر پر تین ہندو سنتوں یتی نرسنہانند سرسوتی، بجرنگ منی اور آنند سوروپ کو مبینہ طور پر نفرت پھیلانے والا کہنے پر آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کے خلاف درج ایف آئی آر کو رد کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ ایف آئی آر کے مطابق پہلی نظر میں ایسا لگتا ہے کہ زبیر نے جرم کیا ہے اور معاملے کی تحقیقات کی ضرورت ہے۔ جبکہ دہلی ہائی کورٹ نے سی اے اے مخالف مظاہروں کے دوران مبینہ نفرت انگیز تقریر کے لیے مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر اور بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ پرویش ورما کے خلاف ایف آئی آر کے درج کرنے کے سلسلے میں برندا کرات اور کے ایم تیواری کی عرضی کو خارج کر دیا۔ عرضی گزاروں نے معاملہ درج کرنے کے لیے ٹرائل کورٹ کے ہدایت دینے سے انکار کرنے کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔
وہیں دلی پولیس نے نوپور شرما اور نوین جندل کے بہانے اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی سمیت دیگر سماجی کارکنوں کے خلاف سوشل میڈیا پر عوامی امن و امان کو متاثر کرنے اور لوگوں کو اکسانے والے پیغامات پوسٹ کرنے کے الزام میں ایف آئی آر درج کی ہے۔
جس وقت نوپور شرما کے خلاف عالمی سیاسی تحریک کے دباؤ پر بی جے پی خود ہی کارروائی کر رہی تھی اسی وقت نوپور شرما کی تعریف میں خود بی جے پی کے لیڈر قصیدے پڑھ رہے تھے۔ بھوپال سے بی جے پی کی رکن پارلیمنٹ سادھوی پرگیہ ٹھاکر نے کہا کہ ’’سچ کہنا اگر بغاوت ہے تو سمجھو ہم بھی باغی ہیں‘‘۔
یوں تو ٹویٹر پر اب بھی ہیش ٹیگ IStandWithNupurSharma# کو لاکھوں صارفین عام کر ہے ہیں اور اس کے حق میں آواز بلند کی جا رہی ہے۔
آر ایس ایس نواز وجے پٹیل (vijaygajera@) نے خود ساختہ تحقیق پیش کی، گویا بہت بڑے اہم راز کا انکشاف کیا ہو۔ انہوں نے ٹویٹر پر ایک پوری فہرست بنا کر ڈال دی۔ لکھا کہ ’’آج میں آپ کو دکھاؤں گا کہ بائیں بازو، اسلام پسند، نام نہاد صحافی اور ان کے غیر ملکی شراکت دار برسوں سے کس طرح جڑے ہوئے ہیں اور وہ کس طرح منصوبہ بندی کرتے ہیں‘‘۔ وہ فہرست کی شروعات غزہ مسئلہ سے کرتے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ
’’2009/2010 میں ایک بین الاقوامی ماحولیاتی نظام۔ جنوری 2011 میں ہندوستان اور چند اسلامی ممالک کے پیشہ ور بائیں بازو کے کارکنوں نے دہشت گرد حماس اور چند دیگر دہشت گرد تنظیموں کی مدد کے لیے غزہ کاروان (caravan) کا اہتمام کیا۔ اس کاروان کا مقصد تھا ’فری غزہ۔ آٹھ ارکان ایک کشتی میں سوار تھے جس میں 4 افراد بھارتی تھے۔ چار بھارتیوں کے نام کچھ یوں ہیں بریگیڈیئر سدھیر ساونت، شیہین کٹی پرمبیل (جماعت اسلامی)، اسلم خان (AISA) اور تہلکہ سے اجیت ساہی ہیں۔ اجیت ساہی نے سیمی کے مبینہ جرم پر پردہ ڈالا ہے‘‘ اس کے بعد دھیرے دھیرے اجیت ساہی کا تعلق ’الٹ نیوز‘ کے بانی پرتیک سنہا کے والد موکل سنہا سے جوڑا گیا اور پھر اپنی غلاظت بھری فکر کا ملبہ ’الٹ نیوز‘ کے شریک بانی محمد زبیر پر ڈالا گیا۔
وجے پٹیل نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کے نوپور شرما کے خلاف ملک میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ سازش کے طور پر ہو رہا ہے۔ جبکہ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ محمد زبیر نے جو نوپور شرما کی متنازعہ ویڈیو وائرل کی ہے وہ ان کے معمول کے مطابق کام کا حصہ تھا۔
دوسری طرف مسلمانوں کے گھروں پر چلائے جانے والے بلڈوزر کے حق میں بھی سوشل میڈیا صارفین خوشی سے جھومتے ہوئے نظر آئے۔ بین ٹرائینگ مائی (BeenTryingMy2@) نام کے اکاؤنٹ سے لکھا گیا کہ ’’جب پتھراؤ احتجاج ہے تو ’بلڈوز انصاف‘ بھی ضروری ہے‘‘۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ کہیں تالی ایک ہاتھ سے بجتی ہے؟
نوید حامد (navaidhamid@) نے دینک بھاسکر کی ایک رپورٹ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ہندو عینی شاہد کے مطابق رانچی تشدد کا ماسٹر مائنڈ بھیرو سنگھ تھا کیونکہ پتھراؤ مندر کی چھت سے شروع ہوا تھا جہاں اس نے جمعہ 10 جون کو نوپور شرما کے گستاخانہ تبصروں کے خلاف مسلم پروٹسٹ مارچ پر بھی فائرنگ کی تھی جس میں نوجوان مدثر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا‘‘۔ اور ہمانشو گنجو (hganjoo153@) نے ایک اسکرین شاٹ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’’آخر یہ ہو کیا رہا ہے؟ یہاں تو آن لائن ہجومی تشدد جاری ہے اس اسکرین شارٹ میں الٹ نیوز کے بانی محمد زبیر کو سزا دلانے کے لیے بولی لگائی جا رہی تھی‘‘۔
بہر حال ایسا بھی نہیں ہے کہ مسلمانوں کے حق میں سوشل میڈیا پر صرف نفرت انگیز ہی باتیں کی گئیں کچھ حق پسند صارفین بھی تھے جو مسلمانوں کے شانہ بہ شانہ کھڑے نظر آئے۔
ماہر دفاع اور ریٹائرڈ خاتون آفیسر ڈبلیو جی سی ڈی آرانوما اچاریہ (AnumaVidisha@) لکھتی ہیں ’’اپنے مسلم بھائیوں اور بہنوں کے خاندانوں پر ہونے والے ناحق مظالم کی مخالفت کرنے پر احساس جرم کیوں ہونا چاہیے؟ وہ خوشامد کا ’لیبل‘ لگائیں گے، لیکن ہم اپنے ضمیر کا ساتھ دیں گے‘‘۔
ٹائمز آف انڈیا کے منیجنگ ایڈیٹر روہت سرن اپنے ایک مضمون میں یوں رقم طراز ہیں:
’’ہندو قوم کا مطالبہ، حلال کے خلاف مہم، حجاب پر اعتراض، آبادی پر قابو پانے کے قانون کا مطالبہ، ’رومیو اسکواڈ‘ کی حمایت، فوج کی افطاری پر سوال، مسلمان ہونے کے شبہ میں ایک بزرگ کو تھپڑ مارنا، ’ایک مشترکہ دھاگہ ہے‘ ان سب کی بنیاد یہ ’خدشہ‘ یا ’خوف‘ ہے کہ عددی یا ثقافتی یا دونوں ہی اعتبار سے مسلمان ہندوستان پر غالب آجائیں گے۔
جبکہ سرکاری ذرائع سے دستیاب تمام اعداد و شمار سے مسلمانوں کی آبادی کا ہندوؤں آبادی سے زیادہ ہونے کے امکان کی نفی ہو جاتی ہے۔ اس کے باوجود خوف مسلسل بڑھتا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کی آبادی میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔ جس سے ہندوؤں کے ایک حصے میں محاصرے کی ذہنیت اور مسلمانوں میں بیگانگی پیدا ہو رہی ہے۔ ابلتا ہوا تناؤ ہمارے چہرے پر سماجی بدامنی یا جغرافیائی سیاسی شرمندگی کے طور پر ابھرتا ہے۔ تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ ٹیلی ویژن پر نفرت انگیز تقریر کے خلاف بہت سے مسلم ممالک کی طرف سے شدید دھکا لگا۔
واضح رہے کہ روہت سرن ٹائمز آف انڈیا کے منیجنگ ایڈیٹر ہیں۔ وہ دی اکنامک ٹائمز اور انڈیا ٹو ڈے کے ایگزیکٹو ایڈیٹر رہ چکے ہیں۔ انہوں نے خلیج ٹائمز، بزنس ٹوڈے، منی ٹوڈے اور ہارورڈ بزنس ریویو اور دی سائنٹیفک امریکن کے انڈیا ایڈیشنز کے لیے بھی کام کیا ہے۔
ہندوتوا اور آر ایس ایس کی مخالفت میں آج بھی سب سے زیادہ سرگرم اور مضبوط علمی، عقلی اور تاریخی دلائل کے ساتھ میدان میں نظر آنے والا طبقہ امبیڈکر نوازوں کا ہے۔ پروفیسر رتن لال نے گیان واپی کے فرضی لنگ نکلنے کی خبر پر طنزیہ ٹویٹ کیا تھا جس کے نتیجے ان کو مقدمے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ انہی پروفیسر رتن لال کا ایک یوٹیوب چینل ’امبیڈکر نامہ‘ بھی ہے۔ اپنے یوٹیوب چینل پر کتاب ’آر ایس ایس کو پہچانیں‘ کے مصنف شمس الاسلام سے خاص بات چیت کی۔ ان کے اس‌ ویڈیو میں سنگھ کو جاننے اور اس کی حقیقت کو اجاگر کرنے کی ضرورت بتائی گئی ہے۔ شمس الاسلام صاحب نے کہا کہ وہ چالیس سال سے آر ایس ایس کے متعلق دستاویزات جمع کر رہے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ آر ایس ایس سے متعلق جتنے دستاویزات ان کے پاس ہیں اتنے آر ایس ایس کے پاس بھی نہیں ہوں گے۔ شمس الاسلام نے کہا کہ ’’نام نہاد دانشوروں اور کمیونسٹوں نے یہ باور کرایا کہ آر ایس ایس مسلمانوں اور عیسایوں کے لیے خطرہ ہے ہندوؤں کے لیے نہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آر ایس ایس اس ملک اور اس ملک کی عورتوں کے خلاف ہے‘‘۔ انہوں نے مزید اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ 1929میں کانگریس نے لاہور سیشن میں یہ فیصلہ کیا کہ 1930 سے ہر 26 جنوری کو ترنگا لہرائیں گے مگر آر ایس ایس نے اعلان کیا کہ وہ بھگوا جھنڈا لہرائے گی۔
آر ایس ایس کے بانی ہیڈگیوار نے اپنی شاکھاؤں کو ایک خط لکھا جس میں کہا گیا کہ ترنگا کے بجائے بھگوا جھنڈا لہرایا جائے اور اس کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے۔ ترنگا کو ڈومنین بھارت کے اجلاس مورخہ 16 جولائی 1947ء کے موقع پر اختیار کیا گیا اور بعد ازاں جمہوریہ بھارت کے قومی پرچم کے طور پر اسے برقرار رکھا گیا۔ لیکن آرں ایس کی جانب سے ایک اداریہ میں ترنگے کو درزی کے کپڑے سے تشبیہ دی گئی۔ 14 اگست 1947 کو پارلیمنٹ میں ترنگا لہرایا گیا اور پورے ملک میں سب آزادی سے پہلے ترنگا کے متعلق جوش میں تھے مگر اس خوشی کے موقع پر اس ترنگے کو آر ایس ایس کی جانب سے منحوس قرار دیا گیا۔ ستم یہ ہے کہ یہی آر ایس ایس ترنگا کی پاسداری کی قسمیں کھاتے نہیں تھک رہی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ بھارت کے مدارس میں بھی ترنگا لہرایا جائے۔ شمس الاسلام آگے کہتے ہیں کہ آر ایس ایس آئین اور دستور ہند کی مخالف بھی ہے۔ 26 نومبر 1949 کو آئین کو منظوری ملی جبکہ آر ایس ایس کی جانب سے منواسمرتی کا مطالبہ کیا گیا اور ہندو راشٹر بنانے کا حلف اٹھایا جانے لگا۔
اب سوال یہ ہے کہ بی جے پی کے آئی ٹی سیل کی ریشہ دوانیوں اور بھگوا شر انگیزیوں سے کیسے بچا جائے۔
عبید اللہ ناصر روزنامہ سہارا میں لکھتے ہیں کہ ’’مشتعل جذبات پر قابو رکھیں اور فہم وفراست، تدبر، دور اندیشی کو اپنا ہتھیار بنائیں۔ سب سے بڑی اور ضروری بات کہ جس سیاست نے ہمیں یوں بے خانماں برباد کیا ہے، اس سیاست کو تبدیل کرنے کے لیے اپنی عقل، اپنے فہم اور اپنے وسائل لگائیں۔ ہمیں اپنا مسیحا الگاؤ میں نہیں اتحاد میں ہی ملے گا۔ تقسیم وطن اور اس سے پہلے کی سیاست ہمیں تقسیم جیسے زخم ہی دے گی۔ تھوڑا لکھا ہے بہت سمجھنا ہے‘‘
تیرے مہرے پٹ رہے ہیں تیری مات ہو رہی ہے
ذرا رخ بدل دے ناداں تیرے ہاتھ میں ہے بازی
عالمی پیمانے پر شدت پسند ہندوتوا اور آر ایس ایس نواز تنظیمیں کام کر رہی ہیں اور کروڑوں روپے خرچ کر کے بھارت میں اثر انداز ہو رہی ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق تقریبا دو دہائیوں سے سنگھ پریوار سے وابستہ سات امریکی گروپوں نے مختلف منصوبوں پر 158 ملین ڈالر (1,227 کروڑ روپے) خرچ کیے ہیں جن میں بھارت کو رقم بھیجنا بھی شامل ہے۔
93 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں ہندوتوا سول سوسائٹی گروپوں کے مالی اخراجات کو مرتب کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں 24 امریکی ہندو قوم پرست تنظیموں کی سرگرمیوں کے نام اور نشانات ہیں جن کے اثاثے تقریبا 100 ملین ڈالر ہیں۔ 2001 سے 2019 کے درمیان دستیاب ٹیکس ریٹرن کے مطابق سنگھ سے وابستہ سات فلاحی گروپوں نے مبینہ طور پر کم از کم 158.9 ملین ڈالر اپنے پروگرامنگ پر خرچ کیے ہیں جس میں سے زیادہ تر بھارت میں گروپوں کو بھیجے گئے۔حسابات سات گروپوں کے ٹیکس گوشواروں (tax returns) پر مبنی تھے جن کی شناخت آل انڈیا موومنٹ (AIM) برائے سیوا، اکیل ودیالیہ (Ekal Vidyalaya) فاؤنڈیشن آف امریکہ، انڈیا ڈیولپمنٹ اینڈ ریلیف فنڈ، پرم شکتی پیٹھ (Param Shakti Peeth) پی وائی پی یوگ فاؤنڈیشن (PYP Yog Foundation) وشوا ہندو پریشد آف امریکہ اور سیوا بین لااقوامی کے طور پر ہوئی ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  26 جون تا 02 جولائی 2022