ہندوستان میں اسلاموفوبیا

شبیع الزماں (پونا)

 

اسلامو فوبیا، یہ لفظ اسلام کے ساتھ یونانی لفظ فوبیا (ڈر اور خوف) لگانے سے بنتا ہے۔ اس سے مراد ہے اسلام کا خوف۔ عام طور سے غیر مسلموں کو اسلام، مسلمانوں یا اسلامی تہذیب سے ڈرایا جاتا ہے اور ان کے دل میں اسلام سے خوف پیدا کیا جاتا ہے۔ اسے اسلامو فوبیا کہتے ہیں۔ پچھلے دو تین دہائیوں میں یہ لفظ کافی مقبول ہوا ہے۔بالخصوص نائن الیون حادثہ کے بعد عالمی سطح پر یہ لفظ استعمال ہونے لگا ہے۔ البتہ اسکابیانیہ مختلف ممالک میں مختلف ہے۔ یوروپ، امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک میں اسلام کا خوف پیدا کرنے کے لیے ایک جیسی ہی وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ مغربی دنیا میں اسلامو فوبیا کا بیانیہ سیاسی نوعیت کا ہے حالانکہ مغربی مفکرین دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ بیانیہ سیاسی نہیں بلکہ تہذیبی نوعیت کا ہے۔ تہذیبوں کا تصادم وغیرہ تھیوریز اسی قسم کی کوششوں کا حصہ ہے۔
مغرب کا اسلامو فوبیا کا بیانیہ کچھ اس طرح کا ہے کہ اسلام کی فکر میں جمود ہے وہ وقت کے ساتھ تبدیل نہیں ہوتا، مسلمان ایک جمود پسند، بے حس و حرکت گروہ کا نام ہے جو ترقی و تبدیلی کو پسند نہیں کرتا۔ اسلام دوسری تہذیبوں اور ثقافتوں کے ساتھ نہیں رہ سکتا کیونکہ وہ پرامن بقائے باہمی کا قائل نہیں ہے بلکہ وہ دوسری تہذیبوں کو مٹا دینا چاہتا ہے۔ اسلام ایک سیاسی آئیڈیالوجی ہے جو جنگی مقاصد اور دہشت گردی کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے اور آج بھی ہورہی ہے۔ اسلام ایک شدت پسند دین ہے جس کے مزاج میں سختی ہے۔ جو خواتین کے حقوق کے خلاف ہے اگر کہیں اسلامی قانون نافذ ہوگا تو وہ جگہ سماج کی بدترین جگہ ہوگی اور وہاں انسانوں کا زندگی گزارنا دشوار ہوگا وہاں فرد کی آزادی ختم کر دی جائے گی، خواتین پر بے شمار مظالم ڈھائے جائیں گے انہیں گھروں میں قید کر کے ان کی تعلیم پر پابندی لگا دی جائے گی، لوگوں کو سنگسار کیا جائے گا، ہم جنس پرستوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا، مذہب کے خلاف بولنے والوں کو جان سے مار دیا جائے گا، ملحدوں کو سخت سزائیں دی جائے گی، مختلف جرائم پر لوگوں کے ہاتھ کاٹ دینا یا دوسرے اعضاء کاٹ دیے جانا جیسی غیر انسانی سزائیں دی جائیں گی،، غرض اسلامی معاشرہ ایک ایسا معاشرہ ہوگا جہاں انسان کم وحشی زیادہ ہوں گے۔
پچھلے کچھ سالوں سے ہندوستان میں بھی اسلاموفوبیا کی لہر شدید ہو گئی ہے۔ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں سے خوف پیدا کرنے کی منظم کوششیں تو عرصہ سے جاری تھیں ہی اب ان میں حکومت خود شامل ہوگئی ہے۔ چونکہ حکومت کی سرپرستی میں انجام دیے جانے والے کاموں کے اثرات تیزی سے پھیلتے ہیں اس لیے حالیہ عرصے میں اسلاموفوبیا کے اثرات بھی ملک میں کافی تیزی سے پھیلے ہیں۔
ہندوستان میں اسلاموفوبیا کا بیانیہ (narrative) مغرب کے بیانیے سے مختلف ہے۔ ہندوستان میں اسلاموفوبیا کی بنیادیں زیادہ گہری اور وسیع ہیں۔ اسکی وجوہات سیاسی ہونے کے ساتھ ساتھ تہذیبی اور تاریخی بھی ہیں۔ ہندوستان میں اسلاموفوبیا صرف خوف کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ اس میں تعصب، بغض اور نفرت و عداوت بھی شامل ہے۔ یہ شدید نفرت ہی ہے جب سیکڑوں لوگوں کا گروہ مجبور، نہتے اور تنہا شخص کو پیٹ پیٹ کر قتل کر دیتا ہے اور اپنی اس حرکت پر افسوس اور ندامت کے بجائے فخریہ ویڈیو بنا کر شیئر کرتا ہے۔ یہ نفرت اچانک چند سالوں میں پیدا نہیں ہوئی ہے بلکہ برسوں تک نسل در نسل اسے ذہنوں میں ٹھونسا گیا ہے۔
ہندوستان میں اسلاموفوبیا کے لیے جن وجوہات کو استعمال کیا جاتا ہے انہیں درج ذیل زمروں میں تقسیم جا سکتا ہے۔
۱۔ تاریخ کا استعمال ۲۔ سیاسی وجوہات کااستعمال ۳۔ مذہب کا استعمال
۴۔ تہذیبی اختلاف کا استعمال اور ۵۔نیشنلزم۔ (اسلام فرسٹ انڈیا سیکنڈ)
تاریخ کا استعمال:
ہندوستان میں اسلاموفوبیا کے لیے سب سے زیادہ تاریخ کا استعمال کیا جا تا ہے۔ اس مقصد کے لیے بالکل ہی نئی تاریخ گھڑی گئی ہے۔ ماضی کے واقعات کو نئے زاویہ سے بیان کیا جاتا ہے۔ مسلمان بادشاہوں بالخصوص مغلوں کے ظلم کی فرضی داستانیں سنائی جاتی ہیں اور مسلمانوں کے بارے میں یہ باور کرایا جاتا ہےکہ یہ وحشی اور درندہ صفت قوم ہے جنہوں نے یہاں کی مقدس تہذیب کو پامال کیا ہے۔ یہ بیرونی حملہ آوروں کا گروہ ہے جو ہندوستان کو لوٹتا رہا ہے اور اپنے مذہب کی تبلیغ کے لیے اس نے جبراً تبدیلی مذہب کروائی۔ غریب ہندوؤں کو پیسے کی قوت سے خریدا اور جو بِکے نہیں انہیں تلوار کے زور پر مسلمان بنایا گیا۔ہندو خواتین کو جبراً مسلمان بنایا گیا اور ان پر بدترین مظالم ڈھائے گئے۔ مسلمانوں کے دور حکومت میں ہندو اپنے ہی ملک میں ذمی تھے اور جزیہ دیتے تھے۔ مسلمانوں نے ہندوؤں کے مندروں کو توڑ کر مساجد تعمیر کی ہیں۔ بابری مسجد، کاشی، متھرا اور دیگر مساجد اسکی واضح مثالیں ہیں۔ بارہ سو سال کی غلامی کے بعد اب ہندو جاگ گیا ہے اور اب وقت آچکا ہے کہ اپنے اوپر ہوئے مظالم کا بدلہ لیا جائے۔
سیاسی بنیادیں (اکثریت کے ذہن میں اقلیت کی سوچ)
مسلمانوں کے تعلق سے نفرت پھیلانے کے لیے سیاسی حالات کا مستقل استعمال کیا جاتا ہے اور ہندو اکثریت کے ذہن میں اقلیت کی سوچ پیدا کر دی گئی ہے۔ ہندوستان کی اکثریت خود کو اقلیت کے بالمقابل غیر محفوظ محسوس کرنے لگی ہے۔ ہندوستان کو آزادی ملنے سے آج تک مسلسل ایسے واقعات رونما ہو تے رہے ہیں جن سے اسلاموفوبیا پھیلانے والے افراد کو مواد ملتا رہا ہے، بالخصوص۱۹۸۰ کے بعد کے سیاسی حالات تو اس طرح کے پروپیگنڈہ کے لیے بہت ہی سازگار رہے ہیں۔ یہ کہا جاتا رہا ہے کہ چونکہ ہندوستان میں ہندووں کی اکثریت ہے اس لیے اسے ہندو راشٹر ہونا چاہیے۔ لیکن فرضی سیکولرازم کے ماننے والوں نے اور خاص طور سے پنڈت نہرو نے ایک بیرونی سیکولر سسٹم یہاں پر نافذ کر دیا۔ ہندو آج بھی محفوظ نہیں ہے کیونکہ یہاں اب بھی فرضی سیکولرازم میں ماننے والوں کی حکومت ہے جو اپنی ووٹ بینک کی سیاست کے لیے مسلمانوں کی منہ بھرائی کرتے ہیں اور ہندوؤں کے مفادات کو مستقل نظر انداز کرتے رہتے ہیں۔ اسطرح کے بیانیہ کو موجودہ حالات کے تناظر میں بار بار پیش کیا جاتا رہا ہے اور ملک میں ہوتے رہے مختلف واقعات کی زعفرانی تعبیر کرکے ہندوؤں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا جاتا رہا ہے۔ میناکشی پورم میں ہریجنوں کا قبول اسلام، بنگلہ دیشی مہاجرین کا ہوّا، شاہ بانو کیس میں مسلمانوں کی تحریک، سلمان رشدی کی کتاب پر راجیو گاندھی حکومت کی پابندی، کشمیری پنڈتوں کا مسئلہ اور اس طرح کے دیگر سیاسی حالات کا استعمال کر کے ہندووں کے ذہن میں یہ بات بٹھائی گئی کہ مسلمانوں کے پاس تو کئی ملک ہیں لیکن ہندوؤں کے پاس تو ایک ہی ملک ہے اگر یہاں بھی مسلمان اقتدار میں آگئے تو ہندو کہاں جائیں گے۔ اس طرح اکثریت کے ذہن میں اقلیت کی سوچ پیدا کی گئی۔
مذہبی بنیادیں:
ہندو خطرے میں ہیں ،ہندتوادی تنظیموں نے مستقل پروپیگنڈہ کے ذریعہ ملک کی بڑی آبادی کو یہ یقین دلایا دیا ہے کہ اسلام ایک بیرونی مذہب ہے اسکا مزاج ہندوستانی مذاہب سے میل نہیں کھاتا۔ ہندوستانی مذاہب ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں اور ساتھ مل کر رہتے ہیں ان کی عبادتیں، کلچر اور رسومات مشترک ہیں جبکہ اسلام ان سب سے بالکل مختف ہے۔اسلام دہشت پسند، سخت گیر، دقیانوس، ظالم اور بے رحم مذہب ہے۔ انسان اور جانوروں دونوں پر ظلم کرتا ہے۔ مدارس اور مساجد دہشت گردی کے اڈے ہیں۔ مسلمان آج بھی ملک میں اپنے اثرات بڑھانے کے لیے کوشش کرتے رہتے ہیں اس کے لیے ہندوؤں کی برین واشنگ کر کے انہیں مسلمان بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، لو جہاد بھی اسی کوشش کا حصہ ہے۔ اسی طرح مسلمان اپنی آبادی کو مستقل بڑھا رہے ہیں اور بہت جلد انکی تعداد ملک میں اتنی بڑھ جائے گی کہ کسی ہندو کے لیے ملک کا وزیر اعظم بننا مشکل ہوجائے گا۔ اس سیاسی غلبہ کے بعد ہندو پھر سے مسلمانوں کا غلام بن جائے گا اس لیے ہندو کو جاگنا چاہیے کیونکہ ہندو خطرے میں ہیں۔
تہذیبی اور سماجی اختلاف کی بنیا د پر نفرت:
ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان موجود تہذیبی اور سماجی اختلافات کو بھی نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کی کھانے کی عادتیں تک ہندو مخالف ہیں، بیف کھاتے ہیں جبکہ گائے ہندوؤں کے نزدیک محترم ہے۔ مسلمان زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں۔ انکی اکثریت ان پڑھ لوگوں کی ہے اس لیے ملک کی معیشت میں انکا کوئی کردار نہیں ہے بلکہ یہ ملک پر بوجھ بن گئے ہیں اور ہندو انہیں پال رہے ہیں۔ انکی بستیاں گندی رہتی ہیں جہالت اور غربت کی وجہ سے انکی بستیوں میں جرائم اور مجرم زیادہ پنپتے ہیں۔ مسلم سماج میں خواتین کو حقوق اور آزادی میسر نہیں ہے۔لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی ہے۔ ٹریپل طلاق، حلالہ وغیرہ موضوعات کا استعمال کیا جاتا ہے۔
اسلام فرسٹ انڈیا سیکنڈ(نیشنلزم) :
اسی طرح مسلمانوں کی وطن سے محبت مستقل تنقیدوں کی زد میں رہتی ہے کہ انکے لیے اسلام اور مسلمان پہلے ہیں اور وطن بعد میں۔ یہ فلسطین، برما اور دیگر مسلم ممالک کے مساٰئل کے لیے تو ریلیاں نکالتے ہیں لیکن ہندوستان کے مسائل کے لیےکبھی ریلی نہیں نکالتے۔ یعقوب میمن جیسے دہشت گرد کے جنازے میں تو لاکھوں لوگ آتے ہیں لیکن عبد الکلام جیسے دیش بھکت کے جنازے میں مشکل سے پانچ سو لوگ تھے۔ انکی محبتیں پاکستان اور مسلم ملکوں کے لیے زیادہ ہیں اسکا اظہار وہ کرکٹ اور جنگ کے موقعوں پر کرتے رہتے ہیں۔انکی وطن دشمنی کے باعث ہی وندے ماترم کی مخالفت کرتے ہیں۔ انکی محبت تقسیم ہے۔
یہ وجوہات ہیں ہندوستان میں اسلاموفوبیا کی۔ ان وجوہات کی بدولت سماج میں مسلم مخالف رجحانات بڑھے ہیں۔ مسلمانوں کے تئیں نفرت، تعصب اور انہیں ملک سے باہر نکالنے کا بیانیہ مضبوط ہوا ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کے نام پر اب اسلام پر کھلم کھلا حملے ہونے لگے ہیں۔ سیاسی، سماجی اور معاشی سطح پر مسلمانوں کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کے لیے زمین تنگ ہونے لگی ہے اور نفرت کی آگ ہے کہ بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ اس آگ کو قابو میں رکھنا فی الوقت تو مشکل نظر آ رہا ہے۔ نفرت کی آگ کی ویسے بھی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ اسے بھڑکانا تو آسان ہوتا ہے لیکن قابو میں کرنا نہیں۔
ایسی آسانی سے قابو میں کہاں آتی ہے آگ
جب بھڑکتی ہے تو بھڑکتی ہی چلی جاتی ہے آگ
پاسباں آنکھ ملے، انگڑائی لے، آواز دے
اتنے عرصے میں تو اپنا کام کر جاتی ہے آگ
***

پچھلے کچھ سالوں سے ہندوستان میں بھی اسلاموفوبیا کی لہر شدید ہوگئی ہے۔ہندوستاں میں اسلام اور مسلمانوں سےخوف پیدا کرنے کی منظم کوششیں تو عرصہ سے جاری تھیں لیکن اب چونکہ ان میں حکومت خود شامل ہوگئی ہے اور جو کام اقتدار کی سرپرستی میں انجام پاتا ہے اسکے اثرات تیزی سے پھیلتے ہیں۔