ہندوستان، اسلاموفوبیا اور خلیجی ممالک

کون کس کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے؟

عبد الواحد

کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے بعد اگر کوئی موضوع اس وقت میڈیا میں چھایا ہوا ہے تو وہ ہے اسلاموفوبیا سے متعلق سوشل میڈیا پر خلیجی ممالک میں مقیم ہندوستانیوں کے پوسٹ اور اس پر خلیجی ممالک کی بااثر شخصیات کا شدید ردعمل۔ ہندوستانی مسلمانوں کا ایک طبقہ اس رد عمل سے اس قدر زیادہ پرجوش ہوا ہے کہ اس کے نتیجے میں دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان اس کی بھینٹ چڑھتے نظر آ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض مبینہ قومی غلام میڈیا نے ان کا باقاعدہ ٹرائل شروع کر رکھا ہے اور بی جے پی نے ان پر عہدے کا غلط استعمال کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے مستعفی ہونے تک کا مطالبہ کر ڈالا ہے۔ ٹرول آرمی کو بھی ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں کے پیچھے لگا دیا گیا ہے جو ان کے فیس بک پیج کی ٹائم لائن پر شر انگیزی برپا کیے ہوئے ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ تبلیغی جماعت کے معاملے کے بعد گودی میڈیا کو ایک نیا موضوع ہاتھ لگ گیا ہے۔ دراصل متعصب میڈیا ملک کے دیگر چینلوں اور اخبارات میں خلیجی ممالک کے افراد کے رد عمل کو ملنے والے کوریج سے پریشان تھا۔ خاص طور پر متحدہ عرب امارات کے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والی شہزادی ہند القاسمی کے انٹرویوز۔
سوشل میڈیا پر جاری مباحثے نے جو سب بڑا کام کیا وہ یہ ہے کہ اس نے خلیجی ممالک میں کام کرنے والے اور اونچے عہدوں پر فائز اکثریتی طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد میں بھی مسلمانوں کے تعلق سے پائی جانے والی نفرت کو اجاگر کیا ہے۔ اب تک یہ تصور تھا کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد، بالخصوص بیرونی ممالک میں ملازمت یا دیگر وجوہات سے قیام پذیر افراد مذہبی انتہا پسندی سے پاک ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہے۔ ایک بین الاقوامی حیثیت (عیسائیوں یا مسلمانوں کی طرح) نہ رکھنے کے باوجود ہندتوا نظریے کے علم بردار دنیا کے مختلف ممالک بشمول عالم عرب میں جڑیں مضبوط کر چکے ہیں۔ حالیہ دنوں میں جس کی رپورٹ میڈیا میں بھی آ چکی ہے, متحدہ عرب امارات میں مہاراشٹرا کے ناسک سے تعلق رکھنے والے ایک صنعت کار سدھیر پربھاکر پجاری کی گرفتاری سے متعلق ہے۔ میڈیا ذرائع کے مطابق یہ شخص بظاہر صنعت کار ہے لیکن دراصل یہ وشو ہندو پریشد اور آر ایس ایس سے بہت گہری وابستگی رکھتا ہے۔ یہ متحدہ عرب امارات میں خلیجی ممالک میں ہندتوا علم برداروں کے لیے ایک مرکز کے قیام کے لیے کوشاں تھا۔ تاہم اس کی گرفتاری دیگر الزامات کے تحت ہوئی ہے۔ دبئی پولیس نے شاہی خاندان کے افراد کی شکایت پر اسے گرفتار کیا ہے۔ اس پر الزام تھا کہ یہ شاہی خاندان کے کچھ افراد سے روابط کی آڑ میں خطیر رقم اکٹھا کرتا تھا۔ حکومت ہند نے اس کی رہائی کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے یہاں تک کہ دبئ میں ہندوستانی قونصل خانے کے سربراہ وپل کو بھی اس کام پر لگا دیا، لیکن دبئ پولیس ٹس سے مس نہیں ہوئی ہے۔ متحدہ عرب امارات ایک چوٹی کے ہندوستانی تاجر بی آر شیٹی کے لاک ڈاؤن سے پہلے یعنی مارچ کے اوائل میں ہندوستان فرار ہونے سے شدید برہم ہے۔ اس پر شاہی خاندان کے افراد کے اثر ورسوخ کا حوالہ دے کر متحدہ عرب امارات کے مختلف بینکوں سے تقریباً 6بلین ڈالر قرض لینے کا الزام ہے۔ جس کی واپسی میں بے انتہا تساہلی کا مظاہرہ کیا جا رہا تھا۔ فی الحال اماراتی حکومت نے این ایم سی ہیلتھ کیئر گروپ سمیت اس کے بیشر اثاثے منجمد کر دیے ہیں۔ یہاں تک کہ متحدہ عرب امارات کے مرکزی بینک نے اس سلسلے میں برطانوی حکومت کو بھی آگاہ کیا اور برطانیہ میں بھی شیٹی کی کمپنیوں کے خلاف کارروائی شروع کردی گئی ہے۔
حالیہ برسوں میں جس طرح سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین وغیرہ نے مودی کو اپنے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا اس کے بعد اب عرب ممالک میں آر ایس ایس کے نظریات کے خلاف سوشل میڈیا پر سیلاب کو غیر متوقع ضرور کہا جا سکتا ہے۔
دراصل اس کا آغاز تبلیغی جماعت معاملے سے ہوا جب ہندوستانی میڈیا میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے لیے تبلیغی جماعت کو مورد الزام ٹھیرایا گیا۔ خلیجی ممالک میں بڑی تعداد میں اور بعض مقامات پر مختلف کمپنیوں میں اہم عہدوں پر فائز افراد نے بھی ہندوستانی میڈیا کے سُر میں سُر ملاتے ہوئے نہ صرف تبلیغی جماعت بلکہ اسلامی اقدار کو بھی ہدف تنقید بنانا شروع کیا۔ اس پورے معاملے نے نیا رخ اس وقت اختیار کر لیا جب بنگلور سے بی جے پی کے ایک رکن پارلیمنٹ تیجسوی سوریہ کا ایک کئی برس پرانا ٹویٹ وائرل ہوا جس میں کینیڈا میں مقیم پاکستانی طارق فتح کو ٹیگ کرتے ہوئے سوریہ نے عرب خواتین کے تعلق سے انتہائی توہین آمیز ریمارک کیا تھا۔ اس کے بعد سے تو عرب سوشل میڈیا پر طوفان آگیا۔ کویت کی بار کونسل نے تو وزیر اعظم مودی کو ٹیگ کرتے ہوئے تیجسوی سوریہ کے خلاف کاروائی تک کا مطالبہ کر ڈالا۔ عرب ممالک میں یہ تقریباً ناممکن ہے کہ آپ ان ممالک کے خلاف کسی بھی قسم کی رائے زنی کریں جن سے حکومتوں کے وسیع تر مفادات وابستہ ہوں۔ اسی لیے ایسا لگ رہا ہے کہ خلیجی ممالک کی حکومتوں کی طرف سے اس طرح کی ٹویٹ کے لیے ہری جھنڈی دکھائی گئی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ وزیر اعظم مودی سے لے کر وزیر خارجہ ایس جے شنکر تک کو متحرک ہونا پڑا۔ خلیجی رہنماؤں سے بات کرنی پڑی اور نہ چاہتے ہوئے بھی یہ کہنا پڑا کہ کورونا وائرس کے پھیلنے کا تعلق کسی خاص مذہب یا طبقے سے نہیں ہے۔ خلیجی ممالک میں موجود ہندوستانی سفیروں نے بھی وہاں مقیم ہندوستانیوں سے اپیل کی کہ وہ مذہبی منافرت سے دور رہیں اور کسی متنازعہ چیز کو پوسٹ نہ کریں ۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مختلف خلیجی ممالک سے ہندوستانیوں کی واپسی کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے۔ ہندوستانی بحری بیڑوں کے علاؤہ فضائیہ اور ایئر انڈیا کے تقریباً 500 سے زائد ہوائی جہاز خلیجی ملکوں سے ہندوستانیوں کو نکالنے کے لیے کمر بستہ ہو چکے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے علاوہ عمان نے بھی اپنے ہاں مقیم لاکھوں غیر ملکیوں بشمول ہندوستانیوں کو نوکریوں سے نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے تو دھمکی بھی دی ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں موجود غیر ملکی افراد کو ان کے ممالک نے واپس نہیں لیا تو وہ ان سے ملازمتوں کے تعلق سے معاہدے ختم کرنے پر غور کرے گا۔
در اصل کئی برسوں سے جاری معاشی سست روی نے عالمی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ عرب ممالک بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ وہ کئی برسوں سے غیر ملکیوں کو نکالنے اور اپنے شہریوں کو ملازمت کی طرف مائل کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ کورونا وائرس اور پھر اسلاموفوبیا سے متعلق پوسٹوں نے خلیجی ممالک کو ہندوستانیوں کی ایک بڑی تعداد کو باہر کا راستہ دکھانے کا نادر موقع عنایت کر دیا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت ہند ان ممالک سے واپس آنے والے افراد کو کہاں کام پر لگاتی ہے۔ ابھی تو بہت سے افراد کو کوارنٹین میں رکھنا ہوگا۔ اس کے لیے متعدد ریاستوں سے مرکزی حکومت نے بات کی ہے۔
چونکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے مسلمانوں پر ہو رہے مظالم چاہے وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں ہوں، عرب حکم رانوں کا رویہ مایوس کن رہا ہے اس لیے موجودہ حالات پر کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ ترکی، ملائشیا، ایران اور پاکستان جیسے جمہوری ممالک کے درمیان بڑھتی نزدیکیوں کو او آئی سی کے متبادل کے طور پر دیکھا جا رہا ہو جس کی ایک میٹنگ چند ماہ قبل ملائیشیا میں ہوئی تھی اور جس نے عرب ممالک کے کان کھڑے کر دیے تھے جس سے انہیں عالم اسلام کے خود ساختہ لیڈر ہونے کا زعم بکھرتا ہوا نظر آیا ہو اس لیے اس طرح کا رد عمل سامنے آ رہا ہو۔ بہر حال ہندوستانی مسلمانوں کو اس سلسلے میں محتاط حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
(مضمون نگار ڈی اے وی یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں۔ مضمون نگار کی یہ ذاتی آراء ہیں۔ اس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے)
***

متحدہ عرب امارات ایک چوٹی کے ہندوستانی تاجر بی آر شیٹی کے لاک ڈاؤن سے پہلے یعنی مارچ کے اوائل میں ہندوستان فرار ہونے سے شدید برہم ہے۔ اس پر تقریباً 6بلین ڈالر قرض لینے کا الزام ہے۔ جسکی واپسی میں بے انتہا تساہلی کا مظاہرہ کیا جا رہا تھا۔ فی الحال اماراتی حکومت نے این ایم سی ہیلتھ کیئر گروپ سمیت اسکے بیشتر اثاثے منجمد کردیے ہیں۔